واقعہ معراج اور جدید سائنس
اس مضمون میں جدید سائنسی تصورات و تحقیقات سے حاصل ہونے والے علم کی روشنی میں واقعی معراج کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
واقعہ معراج اور جدید سائنس
تحریر: شجاعت علی عمر۔ راولپنڈی
اللہ رب العزت کے انسانوں پر ان گنت احسانات میں سے ایک یہ بھی ہےکہ اس نے حضرت انسان کو قوت عقلیہ عطا فرمائی ہے جس کو بروئے کار لاکر نہ صرف انسان اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے کوشاں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کائنات میں چھپے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانےاور حقائق کو کھوجنے میں بھی مصروف عمل ہے۔آج کی جدید سائنسی ترقی ہو یا خلا میں نت نئی دریافتیں، یہ سب درحقیقت عقل انسانی ہی کی مرہون منت ہیں۔بلکہ خود دین اسلام میں انسانوں کو تسخیر کائنات کی دعوت دی گئی ہے تاکہ وہ نظام قدرت کی پرفیکشن کو سمجھ کراس کے خالق سے "حقیقی اور یقینی"تعلق قائم کرسکیں۔
اگرچہ بعض رجعت پسند طبقات کی جانب سےمذہب اور سائنس دونوں کو ہی ایک دوسرے کا مخالف ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن مختلف علوم کو شعوری طور پر مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ سائنس اور مذہب (خاص طور پر دین اسلام) میں کوئی تضاد نہیں بلکہ بہت سارے معاملات میں یہ دونوں ایک دوسرے کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کو اپنی خاص حکمت کے تحت تخلیق کرنے کے بعد ایک منظم قانون اور سسٹم کے ذریعے چلا رہا ہے اور اس کائنات میں وقوع پذیر ہونے والا کوئی بھی عمل ان قوانین سے ماوراء نہیں البتہ کچھ غیر معمولی واقعات اور تصورات میں مخفی ضابطے انسان کی سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی تجربات و مشاہدات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ان واقعات میں چھپے قوانین کوسمجھنا ممکن ہو جاتا ہے اور حقائق کائنات کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ایسے ہی غیر معمولی واقعات میں سے ایک واقعہ معراج بھی ہےجسے ہم آج سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کریں گےلیکن سائنسی تجزیے سے قبل دو امور پیش نظر رکھنا ضروری ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سائنس ایک ایساعلم ہے جو کہ مسلسل تحقیق اور تجربات پر مبنی ہے اور یہ ہر گزرنے والےلمحے کے ساتھ ارتقائی مراحل طے کر رہا ہےاور دوسرا یہ کہ اسی وجہ سے سائنس میں کئی قوانین و ضوابط وضع بھی ہوئے جن پر کچھ عرصہ تک تمام اہل علم کا اتفاق رہا لیکن وہی قواعد یا تصورات کچھ وقت گزرنے کے بعد نئے شواہدات و تجربات کی روشنی میں تبدیل کر دیے گئے۔ مثلاً پہلے پہل کائنات کا زمین کےگردگھومنے کا تصور اور بعدازاں نظام شمسی میں زمین کا سورج کے گرد گردش کرنے کا تصور وغیرہ۔گویا سائنسی دریافتوں میں کسی بھی تصور کو حتمی قرار نہیں دیاجاسکتا۔
معراج کے وقوع پذیر ہونے میں بحیثیت مسلمان ہمیں کسی شک وشبےمیں مبتلا ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہےکہ رحمت دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چند لمحوں میں مسجد الحرام سے مسجداقصیٰ لے جایا گیا اور پھر وہاں سے آپؐ کو عالم بالا کی سیر کرائی گئی جہاں آپؐ نے عالم بالا کے مشاہدات کیے۔لیکن آج تو اس واقعے کی تصدیق میں ہمیں کچھ ایسے
سائنسی Concepts اورشواہد بھی ملتے ہیں جن کی وضاحت موجودہ سائنس کر چکی ہے۔ جیسا کہ اربوں کھربوں میل کی مسافت (Inter Galactic Travel), دیگر عالم یا کائنات (Parallel Universe) اور طویل سفر کا چند لمحات کا طے ہوجانا یعنی وقت کی رفتار (Speed of Time) وغیرہ۔
آئیے سب سے پہلے ہم اربوں میل کی مسافت طے کرنےکے طریقہ کار کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق کائنات یا عالم یعنی Universe (Uni = One) اتنی وسیع و عریض ہے کہ اس میں فاصلے کی پیمائش کلومیٹر یا مِیلوں میں نہیں بلکہ نوری سال (Light Year) میں ہوتی ہے۔ کائنات یا عالم میں ایک نوری سال کا مطلب نور یا روشنی کا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں ایک سال لگنا ہےجبکہ روشنی کی رفتار 1,080,000,000 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سائنس ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کائنات یا عالم میں اربوں کھربوں کہکشائیں (Galaxies) موجودہیں۔ زمین جس کہکشاں میں موجود ہے اس کا نام (Milky Way) ہے اور اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے کا فاصلہ تقریباً ایک لاکھ نوری سال ہے جس سے ہمیں کائنات یا عالم کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے جبکہ انسان نے بذاتِ خود مروجہ نقل و حمل کے وسائل استعمال کرتے ہوئے ابھی تک صرف چاند تک کا سفر کیا ہے جو کہ زمین سے صرف 1.3 نوری سیکنڈ کے فاصلے پر ہے۔
اسی وجہ سے جدید سائنس بہت عرصے سے نقل و حمل کے ایسے ذرائع کی تلاش میں ہے جس سے انسان بہت کم وقت میں ہزاروں نوری سال کی مسافت طے کر سکےاور اس تحقیق میں سائنسدانوں کو کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے جس میں سائنس نے تھیوری میں ایک ایسا سُرنگ نما ڈھونڈا جو انسان کے اس مقصد کو پورا کر سکےاور اسے Wormhole کا نام دیاگیا ہے۔اس سرنگ نما کے ذریعےانسان ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں نوری سال کا فاصلہ پلک جھپکنے میں طے کر سکتا ہے اور یہ سرنگ نماعالم یا کائنات (بشمول دنیا) کے کسی بھی حصے میں کسی بھی وقت واقع اور پھر غائب ہو سکتے ہیں۔ یعنی ہمیں معلوم ہوا کہ کائنات میں Wormhole کے زریعے اربوں کھربوں میل کا فاصلہ پلک جھپکنے میں طے کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعدآئیے ہم وقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر وقت کو گھڑی یا سورج چاند کی گردش سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جبکہ سائنس کے مطابق وقت بھی ایک سمت یا (Dimension) ہے جسے باقی ڈائمنشنز کی طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے اور گھڑی کے سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ اور دن رات وغیرہ محض وقت کی پیمائش کی اکائیاں ہیں یعنی گھڑی کے رکنے سے یا دن رات کی رفتار سے وقت گزرنے کا عمل نہیں رکتا۔ وقت ایک مخصوص سمت یعنی مستقبل کی طرف مسلسل چل رہا ہے البتہ اس کی رفتار کا تعین مختلف مقامات پر مختلف ہو سکتا ہے۔
یہاں ایک اور انتہائی اہم تصور (Space Time) کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ عام فہم الفاظ میں خلا(Space) تین dimensions (x, y, z) یا سمتوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں سے کسی بھی ڈائیمنشن کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اسی طرح وقت (Time) بھی ایک ڈائیمینشن ہی ہے جو کہ ایک مخصوص سمت یعنی آگے (مستقبل) کی طرف چل رہا ہے۔سپیس اور وقت دونوں ہی کائنات کی پیدائش کے وقت پیدا ہوئے یعنی کائنات کی پیدائش سے پہلے نہ سپیس تھی اور نہ ہی ٹائم۔
اب اگر سپیس اور وقت کو آپس میں ضم کر لیا جائے تو یہ سپیس ٹائم کہلائے گا۔ سپیس ٹائم کو مزید سمجھنے کے لیے عموماً ایک جال سے تشبیہہ دی جاتی ہے اس جال کو کائناتی اجسام اپنی کثافت اور کششِ ثقل کی بنیاد پر تبدیل کر سکتے ہیں۔اس سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ وقت کی رفتار کائنات میں ایک جیسی نہیں اور اس رفتار کا تعین کششِ ثقل پر منحصر ہے۔کائنات کے کسی جسم کی جتنی زیادہ کششِ ثقل ہو گی ادھر وقت اتنا ہی آہستہ ہو گا۔اسی طرح کا ایک انتہائی کثیف جسم بلیک ہول (Black Hole) کہلاتا ہے جس کی کششِ ثقل اتنی زیادہ ہے کہ یہاں وقت بھی تقریباً رُک جاتا ہے اور روشنی بھی اس سے نہیں نکل سکتی۔
کچھ عرصہ پہلے تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ بلیک ہول کو انسانی آنکھ یا خوردبین وغیرہ سے دیکھنا ناممکن ہے کیونکہ بصارت کا تعلق روشنی کے منعکس ہونے سے ہے اور بلیک ہول سے روشنی ٹکرا کے بھی نہیں نکل سکتی۔ لیکن گزشتہ سال اب تک کے دستیاب وسائل ہی کو استعمال کرتے ہوئے بلیک ہول کی ایک تصویر لی گی جس سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ سائنسی تصورات حتمی نہیں ہیں۔بلیک ہول کے بالکل برعکس ایک ایسا جسم بھی تجویز کیا گیا ہے جو کثافت اور کششِ ثقل میں انتہائی لطیف ہے۔ اسے وائٹ ہول (White Hole) کا نام دیا گیا ہے۔اس تھیوری کے مطابق وقت کی رفتار یہاں اتنی ہی تیز ہونی چاہئے۔اس بحث سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ وقت کی رفتار کائنات میں یکساں نہیں بلکہ کائنات کے مختلف مقامات پر موجود اجسام کی کشش ثقل (Gravitational Force) کی وجہ سے وقت کی رفتار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔
اب اس سے آگے چلتے ہیں جہاں ہمیں سائنس میں ملٹی ورس(Multiverse) یا پیرالیل یونیورس (Parallel Universe) کا تصور دیا جاتا ہے جس کے مطابق بہت سے عالم یا کائناتیں آپس میں ایک گروپ کی شکل میں پائی جاتی ہیں اور یہ ایک دوسرے کو کپڑے کے ریشوں کی طرح Overlapکر رہی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بیک وقت ایک کائنات کے کچھ عناصر دوسری کائنات کے کچھ عناصر کے ساتھ منسلک ہیں۔ جس سے ہمیں یہ تأثر بھی ملتا ہے کہ کسی خاص طریقہ کار کو اختیار کر کے انسان کسی دوسری کائنات یا عالم کے کسی حصے کا مشاہدہ بھی کر سکتا ہے۔
اسی طرح سائنس بہت سی ایسی قوتوں کا بھی ذکر کرتی ہے جسے عام ذرائع استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کائنات یا عالم کے نظام کو چلانے کے لیے ان کا موجود ہونا اورتسلیم کیا جانا ناگزیر ہے۔ اسے سائنس ڈارک میٹر (Dark Matter) اور ڈارک انرجی (Dark Energy) سے تعبیر کرتی ہے۔نہ صرف یہ کہ ان کا موجود ہونا ناگزیر ہے بلکہ یہ اتنی اہم ہیں کہ کُل Visible کائنات کا تقریباً ٪70 اسی قوت اور مادے پر مشتمل ہے۔
کائنات یا عالم کا دیکھا جانے والا حصہ یعنی سیارے، ستارے وغیرہ محض 3 فیصد ہے جبکہ باقی حصہ ڈارک میٹر ہے۔ جس سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے کہ کائنات یا عالم ایسی قوتوں اور مادے پر مشتمل ہے جسے اب تک انسانی حواس سے دیکھا، سنا، حتیٰ کہ شائد سمجھا بھی نہیں جا سکا لیکن ان کے بغیر عالم یا کائنات کا وجود قائم نہیں رہ سکتا۔
لہٰذا موجودہ دور تک کے ان سائنسی دریافتوں اور تصورات کو سامنے رکھ کر سائنسی بنیادوں پر واقعہ معراج کو سمجھنا کسی حد تک آسان ہوگیاہے۔اس لیے ہو سکتا ہے کہ حکمت خداوندی کے تحت یہ سفر کسی Wormhole کے ذریعے عمل میں آیا ہوکہ جہاں طویل فاصلہ پلک جھپکتے ہی طے کر جانا ممکن ہے۔اسی لیے حضور نبی اکرم ؐ نے مسجد اقصیٰ تک کا کئی سو میل کا فاصلہ لمحے بھر میں طے فرمایااور وہاں سے عالم بالا تشریف لے گئے۔
اسی طرحSpace Time تھیوری کے مطابق کائنات کی مختلف سطحوں میں وقت کی رفتار ایک جیسی نہیں ہےکیونکہ مختلف اجسام/عالم اپنی کثافت اور کشش ثقل کی بنیاد پر تبدیل کرسکتے ہیں اور Black hole میں جیسا کہ ذکر ہوا وقت تقریباً رک ہی جاتا ہے یا White hole میں وقت بڑی تیزی سے سفر کرتا ہے وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ کرہ ارض اور اس کی کشش ثقل کی وجہ سے صرف چند لمحے
گزرے لیکن Wormhole اور کائنات کے دوسرے عالموں میں وقت کی رفتارظاہر ہے مختلف تھی۔اسی طرح Multi Universe تھیوری کے مطابق کہ جس میں مختلف کائناتیں باہم مربوط ہیں اور ان کے عناصر آپس میں منسلک ہیں لہٰذا کسی بھی مناسب طریقہ کار کو اختیارکرکے دیگر کائناتوں اوران کےاحوال کا مشاہدہ بھی سائنسی بنیادوں پر خارج ازامکان نہیں ہے۔ہو سکتا ہے اسی عمل کے ذریعے آپؐ کو عالم بالا کے مختلف جہانوں کا مشاہدہ اورسیرکرائی گئی ہو۔گوکہ رائج ٹیکنالوجی،مجموعی انسانی حواس ظاہرہ و باطنہ کی موجودہ استعداد اور اب تک کی سائنسی دریافتیں اس واقعے کے تمام پہلوؤں کا سائنسی بنیادوں پر احاطہ تو شاید نہ کرسکیں لیکن مذکورہ بالا بحث سے یہ نتیجہ ضرور اخذ کیا جاسکتا ہے کہ باوجود ناقص انسانی اپروچ کے، نبی اکرم ؐ کے اس سفر مبارک کی سائنسی توجیہ ممکن ہےاور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ مزید سائنسی ارتقاء کے نتیجے میں نہ صرف اس طرح کے واقعات کا ادراک ممکن ہو بلکہ انسان کائنات میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی پیداکردہ دیگر قوتوں کو بھی جاننے کے قابل ہو سکے۔
آج جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوان کی یہ ذمہ داری ہےکہ وہ دین اسلام کو جدید سائنسی ذہن کے مطابق پیش کرنے کی اہلیت اور ملکہ اپنے اندر پیدا کرے تاکہ نام نہاد مذہبی نمائندوں نے جدید سائنس اور سماجی مسائل سے تنفر برت کر مادیت پرست قوتوں کے تسلط کی جو راہ ہموار کررکھی ہے اس کے سدباب کی کوئی سبیل اختیار کی جا سکے ۔