تقسیم در تقسیم کا نظام - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تقسیم در تقسیم کا نظام

    نظام میں تقسیم در تقسیم کا جائزہ

    By محمد علی Published on Jul 29, 2025 Views 308
    تقسیم در تقسیم کا نظام
    تحریر: محمد علی۔ ڈیرہ اسماعیل خان 

    بر عظیم ہند ایک کثیرالمذہبی اور کثیراللسانی خطہ ہے،مغل دور یا اس سے پہلے مسلم ادوار میں یہاں کوئی مذہبی یا لسانی فسادات نہیں تھے،یہاں کی ریاستی حکمتِ عملی تقسیم پر نہیں، بلکہ اجتماعیت پر مبنی تھی۔جشنِ ریختہ (ریختہ فاؤنڈیشن، دہلی میں ہر سال یہ تقریب منعقد کرتی ہے) کے موقع پر مذہبی و لسانی فسادات پر بات کرتے ہوئے ہندوستان کے مشہور تاریخ دان ہربنس مکھیا (Harbans Mukhia) کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں تمام تر تاریخی شواہد کی بنیاد پر "پہلا فساد مغل بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد اٹھارویں صدی کی دوسری دہائی میں نظر آتا ہے اور وہ بھی مودی جی کے گجرات میں۔"
    ہربنس مکھیا مزید کہتے ہیں  کہ ریاستی سطح پر خواہ کتنی ہی معرکہ آرائیاں کیوں نہ ہوئی ہوں، لیکن سماجی سطح پر امن و امان قائم تھا۔ہم آج تاریخ کے اس مقام پر آ گئے ہیں کہ جہاں ہر سال 500 سے زائد فرقہ وارانہ فساد ہو رہے ہیں، جب کہ پوری اٹھارویں صدی میں صرف پانچ ایسے فسادات کے شواہد ملتے ہیں جو تاریخی اعتبار سے اس تعریف پر پورے اُترتے ہیں۔"(بی بی سی اردو 12 دسمبر 2017ء)
    پروفیسر ہربنس مکھیا کے بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستان کے کثیرالمذہبی و کثیر اللسانی خطے کو کیسے مغل حکمرانوں نے ایک سیاسی وحدت میں پرویا ہوا تھا،کس قدر امن و امان اور ہم آہنگی تھی۔
    مغل سلطنت کے زوال کے بعد یہاں انگریز سامراج آیا،اس نے یہاں حکومت پر قبضہ کیا۔اس کے خلاف مسلم،سکھ اور ہندو حریت پسندوں نے مل کر مزاحمت کی،انگریز چالاک تھا اس نے سوچا کہ اگر یہ یونہی متحد رہے تو جلد ہی مجھے یہاں سے دیس نکالا دے دیں گے۔لہذا انھیں تقسیم کرنا لازمی ہے۔

    اس گھٹیا مقصد کے تحت انگریز سامراج نے فرقہ وارانہ فسادات کروائے،چند بکاؤ لوگ اِدھر سے لیے چند اُدھر سے،پھر ان سے ایک دوسرے کے مذہبی مقدسات کی توہین کروائی۔چند فرقہ پرست جماعتوں کے ذریعے فرقہ وارانہ سیاست شروع کی تاکہ ہندوستان کی سیاسی وحدت بکھر جائے۔
    یہ تقسیم فقط ہندو مسلم تک نہ رہی، بلکہ مسلمانوں کے اندربھی تقسیم پیدا کرنے کے لیے مسلکی اختلافات کو ہوا دی گئی اور جان بوجھ کر جلسے جلوس کے راستے وہ رکھے جو دوسرے مسلک کے علاقے سے گزرتے۔پھر وہاں بکاؤ شر پسند عناصر کے ذریعے دوسرے مسلک کے خلاف نعرہ بازی کروائی جاتی، تاکہ مسلکی فسادات ہوں۔
    اسی طرح جان بوجھ کر فورٹ ولیم کالج سے مختلف مصنفین سے ایسی کتابیں تحریر کروائیں، جن میں ہندو لکھاریوں سے سنسکرت کے الفاظ شامل کروائے اور مسلم لکھاریوں سے ایسی کہانیاں لکھوائیں جن میں عربی اور فارسی الفاظ شامل کروائے، تاکہ لسانی تنازع کھڑا کیا جا سکے۔اردو ہندی تنازع اسی کا شاخسانہ ہے،حال آں کہ اردو ہندی زبانوں کا باہمی فرق زیادہ نہیں ہے۔صرف رسم الخط کا فرق ہے۔
    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں کالے انگریز نے بھی اپنے آقا کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی اپنائی۔
    اس ضمن میں پہلا کام یہ کیا کہ یہاں کے لوگوں کو اپنی صدیوں پرانی شناخت سے کاٹ کر ایک مصنوعی شناخت سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔اس کے لیے لازمی تھا کہ تاریخ کو مسخ کیا جائے،لہذا ایک آمر کے دور میں تاریخ کو نئے سرے سے لکھوایا گیا۔پھر وہی تاریخ ریاستی نصاب میں پڑھائی گئی،جس میں آزادی کے اصل ہیروز کا اول تو ذکر ہی نہیں کیا گیا اور اگر کیا بھی گیا تو دو تین جملوں سے زیادہ نہیں۔
    سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ مقامی شناختوں اور زبانوں کو دوسرے درجے کی چیز بنا کر پیش کیا گیا۔
    ایک مستحکم ریاست کےلیے ایک مضبوط وفاق یا مرکز کا ہونا لازمی ہے،لیکن یہ کام مقامی شناختوں اور زبانوں کے ساتھ بھی ممکن تھا۔وفاق ایک سیاسی اکائی کا تصور ہے نہ کہ قومیت کا،لہذا ہر قومیت اور لسانی گروہ اپنی اپنی مقامی شناخت کے باوجود بھی وفاق کے ساتھ رہ سکتا تھا۔
    تقسیمِ ہند کے بعد وطنِ عزیز میں جاگیرداری کا سدِ باب نہ کرنے کی وَجہ سے زرعی طور پر خوش حال صوبے کا جاگیردار طبقہ دیگر صوبوں کی نسبت سیاسی منظر نامے پر زیادہ نظر آیا۔یوں مقامی شناختوں کو دوسرے درجے کی چیز سمجھنے،وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور سیاسی منظر نامے پر مخصوص قوتوں کا دانستہ زیادہ اثر و رسوخ پیدا کیاگیا ۔جس  سے آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبوں میں احساسِ محرومی نےجنم لیا۔
     ملک دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس خلاء سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔اشرافیہ کی عاقبت نا اندیشی، اور ملک دشمن قوتوں نے ملک میں تقسیم کے عمل کو  گہرا کر کے عوام کو قومیت پرستی اور لسانیت کے نام پر ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا۔آج ایک صوبے کا شخص دوسرے صوبے میں محفوظ نہیں،بلوچستان کے حالیہ پر تشدد واقعات اسی سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ ہیں۔
    مسلکی حوالے سے بھی صورتِ حال وہی ہے جو انگریز سامراج کے دور میں تھی،محرم الحرام کا مہینہ اللہ اللہ کر کے گزرتا ہے،وہی جلوسوں کے روٹس،وہی ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی اور اس پر مستزاد شر پسند مذہبی طبقے کو سوشل میڈیا پر کھلی چھٹی دی جاتی ہے۔حال آں کہ ایسے شر پسند و انتہا پسند طبقات کے بارے نیشنل ایکشن پلان میں یہ بات کہی گئی تھی کہ انھیں کنٹرول کیا جائے گا،لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کروایا گیا۔
    اصل میں یہ تقسیم نظام کی آلۂ کار قوتوں کے لیے فائدہ مند ہے،وہ چاہتے ہیں کہ ہم یونہی تقسیم رہیں،کبھی مسلکی بنیادوں پر،کبھی لسانی بنیادوں پر تو کبھی صوبائیت کے نام پر، تاکہ ان آلۂ کار قوتوں کا گریبان محفوظ رہے اور کوئی با شعور سیاسی اجتماعیت پیدا نہ ہو۔
    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم کرنے والے اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اپنا شعور بڑھائیں،واقعات کو تجزیاتی نظر سے دیکھیں، موجودہ نظام اور اس کی ساخت اور اس کے پیچھے کار فرما تقسیم کے فلسفے کو سمجھیں۔
    آپس میں باہم دست و گریباں رہنا اور کسی خاص مسلک،قومیت یا لسانیت کو اپنا دشمن سمجھنا اس کا حل نہیں۔یہ مسائل نظام کے پیدا کردہ ہیں، اور نظام کے ذریعے سے ہی ختم ہوں گے۔اس کا حل ایک ایسا نظام ہے، جس میں کوئی طبقاتی تقسیم نہ ہو،جو تقسیم کے فکر و فلسفہ کے بجائے اجتماعیت کے فکر و فلسفہ پر مبنی ہو،جو ہر انسان کے مسائل بلا تفریق رنگ،نسل،مذہب حل کرے۔لہذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ ایسے نظام کے قیام کے لیے کوشش کرے۔
    Share via Whatsapp