انسانی سوچ پر نظام کے اثرات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انسانی سوچ پر نظام کے اثرات

    سرمایہ دارانہ نظام نے آج انسان کی عقل ماردی ہے اس کا شعور سلب کر دیا ہے اوریے انسان اصل مسائل پرسوچنے اور اس کا حل تلاش کرنے سے قاصر ہے۔

    By Abid Hussain Published on Apr 23, 2021 Views 2939

    انسانی سوچ پر نظام کے اثرات

    تحریر: عابد حسین کولاچی، اسلام آباد

     

     انسان جس معاشرے میں اپنی زندگی بسر کرتا ہے، اس معاشرے کا نظام اس کی زندگی پر پوری طرح اثرانداز ہوتا ہے، جس طرح زمین پر پڑنے والی بارش سے زمین کا ہروہ حصہ جہاں بارش پڑے متاثر ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح انسانی سوچ اور حالت پر ارد گرد کے حالات و واقعات سے پیدا ہونے والے ماحول کا بہت بڑا گہرا تعلق ہے۔ اورحالات و واقعات بھی اسی نظام کے  پیدا کردہ ہوتے ہیں ،جس پر معاشرہ استوار ہوتا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ نظام دو طرح کے ہوتے ہیں، جس میں انسان کی زندگی پروان چڑھتی ہے۔

    خاندانی نظام

    سب سے پہلے انسان جس گھر میں پیدا ہوتا ہے اس گھرکا خاندانی نظام اس کی سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کیوں کہ پیدا ہوتے ہی وہ بچہ اس خاندان کے رحم و کرم کا محتاج ہوتا ہے اور وہ خاندان اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبان میں اس بچے کی پرورش کرتا ہے اس نے کیا کھانا ہے کیا پینا ہے اور کیا پہننا اوڑہنا ہے یہ سب اس کے گھر والے طے کرتے ہیں، طبی حوالے سے بھی واضح ہے کہ انسان جو چیزیں کھاتا ہے انھی چیزوں کا اثر اس کے مزاج میں داخل ہوتا ہے۔

    اسی طرح مذہبی حوالے سے بھی وہی خاندان بچے کو ہندو، مسلمان، سکھ، یہودی یا پھر عیسائی بنا دیتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہر بچے کی پیدائش فطرت اسلام پرہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں (صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 1385)  دوسری طرف ہر خاندان کا پیشے کے اعتبار سے بھی بچوں کی ذہنی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے، جیسے کسان، مزدور، لوہار، ڈاکٹر، وکیل، انجینئر اور مولوی کے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کا مزاج مختلف ہوتا ہے کیوں کہ  بچوں کے ذہن پراس کے گھر کے پیشے سے جڑا ہوا علم زیادہ آسانی سے منتقل ہوتا ہے۔

    معاشرتی نظام

    خاندانی نظام سے باہر معاشرتی نظام ہے جو انسانی سوچ پر حتی کہ ہر خاندان کی مالی حالت پربھی سب سے زیادہ حاوی ہوتا ہے کیوں کہ ہر انسان کی بنیادی اور معاشی ضروریات کا تعلق معاشرتی نظام کی تشکیل، کردار اداروں اور کاروباری لین دین کے قوانین سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ ان اداروں کا بھی ایک اپنا نظام ہے اور جس انسان کا تعلق جس ادارے سے ہے وہ اس ادارے کے بنائے ہوئے قانون کے تحت اپنی زندگی گذارنے کا پابند ہے۔

    جن میں سب سے بڑا اور اہم تعلیمی اداروں کا ایک نظام ہے جو کہ انسان کے اندرقومی شعور پیدا کرتا ہے، مختلف شعبوں میں سیاسیات، اقتصادیات، سماجیات، سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کے ذریعے سے ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے اور اس کی سوچ کا رخ متعین کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ اور ان ہی علوم کے ذریعے سے معاشرے میں انسان اپنی اِنفرادی اور اجتماعی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی علمی اور عقلی صلاحیتوں سے میدان عمل میں اُتر کر معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

    اسی طرح ہر معاشرے کا معاشی نظام ہوتا ہے جو ہر انسان کی بنیادی ضروریات زندگی گیس، بجلی، پانی، اور روزگار کے مسائل کو حل کرنے کا پابند ہوتا ہے اسی نظام کے ذریعے سے مختلف ادارے یا کاروباری مراکز قائم کیے جاتے ہیں ،جہاں  ہر انسان اپنی علمی، عقلی اور جسمانی صلاحیتوں کے مطابق کسی ادارے میں یا پھر کاروباری لین دین کا کام سر انجام دے کر اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے معاوضہ حاصل کرتا ہے اور معاشرتی نظام کو مضبوظ بنانے کے لیے ٹیکس بھی ادا کرتا ہے ،جس سے سیاسی نظام کے ذریعے سے امن و امان کو قائم رکھا جائے اور ہر انسان بغیر کسی پریشانی ڈر اور خوف کے اپنی کامیاب زندگی گذار سکے۔

    مگر آج وطن ِعزیز کا حال  دیکھا جائے تو دن بدن بے روزگاری، بدامنی اور تعلیم و صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، کثیر آبادی کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہورہی۔ اس کی اصل وَجہ یہ معاشی نظام ہے جس کا  پیہہ سرمائے اور سود پر چلتا ہے، جس کے پاس سرمایہ ہے اس کی چاندنی ہے۔ اس کے ہر طرح کے مسائل حل ہوجاتے ہیں اور جس کے پاس سرمایہ نہیں ہے ان کی جائز ضروریات بھی دہری کی دہری رہ جاتی ہیں یہی وَجہ ہے جس سے طبقات پیدا ہورہے ہیں۔

    تعلیمی نظام بھی سرمائے کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس لیے سرمایہ لگا کر تعلیم حاصل کرنے والا ڈاکٹر، انجنیئر بھی سرمائے کو جمع کرنے کی سوچ رکھتا ہے نہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے۔ کیوں کہ تعلیمی اداروں میں قومی شعور نہیں، بلکہ نوکری حاصل کرنے اور سرمایہ جمع کرنے کا علم دیا جاتا ہے۔ آج جو یہ سودی معاشی نظام ہم پر رائج ہے یہ انھی تعلیمی اداروں کا تیار کردہ ہے، جس کا انسانیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر انسانی ذہن اس بات کو قبول کر چکا ہے کہ اصل سرمایہ ہے۔ اس لیے آج ہر ایک انسان کی یہی سوچ بن گئی ہے کہ سرمایہ ہے تو ہر کام ممکن ہے اگر سرمایہ نہیں ہے تو کوئی بھی کام آسان نہیں ہے۔

    اسی نظام کے ماتحت میڈیا کے ذریعے سے بھی ہر وقت مایوسی کی خبروں سے سنسنی پھیلائی جاتی ہے جو بڑی آسانی سے انسانی ذہن پر سوار ہو جاتی ہیں مختلف پروگرامز میں گھروں کی لڑائی دکھائی جاتی ہے اور فحاشی ،آزادی، کا غلط اظہارِ خیال اور صحیح تصور کی نفی کی جاتی ہے، جس سے معاشرے میں خاندانی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے نتجے میں منفی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ جس طرح آج سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ گیا ہے اس سے ذہنی انتشاربھی عروج پر ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی نہ کسی پروپیگنڈا کو منٹوں میں لاکھوں افراد تک پہنچایا جاتا ہے، جس پر بلاوَجہ کی بحثوں میں پڑ کرنوجوان اپنا قیمتی وقت ضائع  کرتا ہے۔ اور اس پروپیگنڈا کو ذہن میں سوار کر کے جذباتیت کا شکار ہوجاتا ہے اور ہر کوئی اپنے آپ کو ٹھیک سمجھ کر کسی نہ کسی بات پر ایک دوسرے سے اُلجھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں سنجیدگی، غور و فکر، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے جو کہ نوجوان کی عقل کو کھا رہی ہے۔ آج عورتیں مردوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ہیں ،بلکہ مرد بھی عورتوں کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں، جس سے خاندانی نظام کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب کہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل کا پہلا یونٹ مرد اور عورت کے ایک رشتے میں جڑنے سے ایک خاندان کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس نظام نے آج انسان کی عقل مار دی ہے۔ اس کا شعور سلب کر دیا ہے اوریہ انسان اصل مسائل پرسوچنے اور اس کا حل تلاش کرنے سے قاصر ہے۔  

    آج ضرورت ہے کے ہم اس سرمایہ دارنہ سوچ پرقائم ظالمانہ نظام کو سمجھیں اوراس کے خلاف اپنے اندرمسلمان ہونے کی حیثیت سے حضور اکرم ﷺ کی سیرت  کی روشنی میں اعلیٰ شعور پیدا کرکے دین اسلام کے عادلانہ اصولوں پر اقتصادی اورسیاسی نظام قائم کرنے کی جدوجہد کریں، جس سے ہر انسان اپنی علمی عقلی صلاحیتوں کو انسانی بھلائی اور ہمدردی کے لیے استعمال کرے جس سے کل انسانی معاشرہ ترقی حاصل کرے۔

    Share via Whatsapp