تخلیق انسان بطورِ خلیفہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تخلیق انسان بطورِ خلیفہ

    یہ آرٹیکل انسان کی بطورِ خلیفہ ذمےداری پر بحث کرتا ہے۔

    By سعد سعید Published on Aug 12, 2025 Views 356

    تخلیق انسان بہ طورِ خلیفہ 

    تحریر: سعدسعید۔ مانسہرہ 

     

    اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق سے پہلے فرشتوں سے اُن کی آرا لینے کی خاطر ان سے پوچھا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کرنے لگا ہوں، جس پر فرشتوں نے سوال کیا کہ ایسی نوع پیدا کیوں کرنی ہے جو زمین میں جا کر فساد پھیلائے گی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ 

     فرشتے چوں کہ غیب کا علم نہیں جانتے تو اُنہوں نے انسان کےخمیرسے یہ اندازہ کیا کہ نئی آنے والی نوع (انسان) زمین میں فساد پھیلائے گی، حال آں کہ عبادت کے لیے تو ہم فرشتے موجود ہیں۔ کیوں کہ زمین پر پہلے سے موجود مخلوقات جانور اور جنات تھے جو شریر تھے اور خرابیاں پیدا کر رہے تھے۔ اس لیے فرشتوں کو یہ گمان ہوا کہ انسان بھی زمین پر جانےکی بعد یہی سب کچھ کرے گا۔ 

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہ طورخلیفہ (اپنا نائب) پیدا کیا ہے۔ خلیفہ اُس کو کہا جاتا ہے جو احکامات جاری کرنے اور اختیارات میں اصل کا نائب ہو اور اس لحاظ سے انسان زمین پر اللہ کا نائب اور اس کا بندہ ہے۔ جب لفظ خلیفہ بولاجاتا ہے تو ایک بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ پاک کا انسان کو تخلیق کرنے کا مقصد عبادت کے ساتھ ساتھ اس کو ایک بڑی ذمہ داری بھی دینی ہے جو اُس نے بہ طور نائب نبھانی ہوگی۔ 

    کائنات کا مالک اور اصل حاکم صرف اللہ تعالیٰ ہے اور دنیا میں اس کی خلافت کا خلیفہ اللّٰہ نے انسان کو مقرر کر دیا ہے۔ اور یہ بات بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کر دی۔ جب فرشتوں سے کچھ چیزوں کے نام پوچھےگئے تو انھوں نے کہا ہم نہیں جانتے ہم اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا علم تو نے ہمیں دیا ہے۔ پھر جب ان ہی چیزوں کے بارے میں آدم علیہ السلام سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتا دیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام علوم سکھا دیے جو خلافت کو چلانے کے لیے ضروری تھے۔ جب اللہ نے انسان سے یہ کام لینا تھا تو اس لیے ضروری تھا کہ انسان کو اُن تمام سماوی اور ارضی علوم سے آراستہ کیا جائے جو اس مقصدکو پورا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس لئے اللّٰہ نے انسان میں ان سماوی اور ارضی علوم کو سیکھنے کی صلاحیت پیدا کر دی۔ 

    انسان کو اللہ نے ملکوتی اور روحانی خواص کے ساتھ ساتھ ایسی پوشیدہ قوتیں عطا کیں، جن کو استعمال کر کے وہ زمین میں موجود تمام وسائل اور زمینی ذخائر سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کیوں کہ اللہ نے انسان کو زمینی ذمہ داریاں اور اختیارات سونپنے تھے اور اُس کے بعد اس کو آزاد چھوڑنا تھا کہ وہ زمینی تراکیب، اُس پر رونما ہونے والی تبدیلیوں، اس کی ترقی، اس میں چھپے ہوئے رازوں، پوشیدہ خزانوں اور تمام وسائل کو تلاش کرے اور ایک مربوط نظام قائم کرے جس کے ذریعے زمین پر آباد انسانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی یکساں طور پر ممکن ہو اور یہ تمام جد و جہد جو انسان کرے گا، اللہ کے حکم کے مطابق ہو اور انسان بہ طورِ خلیفہ اس جد و جہد میں اللہ کا نائب ہو جو اللہ نے انسان کے سپرد کی ہے۔

     انسان کو اختیارات ملنے کے بعد فسادات اور بگڑنے کا اندیشہ جائز تھا، کیوں کہ کہ جب کوئی بھی طاقت حاصل کرتا ہے اور با اختیار ہو جاتا ہے تو اس کے بگڑنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں تاہم ایسا ضروری نہیں ہے۔ 

    "Power corrupts, and absolute power corrupts absolutely"

    جہاں اختیارات ہوتے ہیں، وہاں اُن اختیارات کا صحیح اور غلط استعمال کا امکان بھی ہوتا ہے۔ اللہ کے دیے ہوئے نظامِ حق کو چھوڑ کر ظلم کے نظام کا حصہ بننا، درحقیقت وہی فساد تھا جس کا فرشتوں کو خدشہ تھا جو انسان زمین پر آنے کے بعد پھیلائیں گے۔ مگر اللہ یہ چاہتے ہیں کہ جب کوئی بھی کوتاہی برتے، بگڑ جائے، فساد پھیلائے، ظلم کرے تو تب وہاں موجود اللہ کا نائب اپنی ذمہ داری اور مقصد تخلیق کو جانے اور اس ظلم اور برائی کے خلاف جدو جہد کرے۔ اس وقت اللہ کے اس خلیفہ کی آزمائش اور بھی سخت ہوجائے گی کہ جب برائی اور ظلم کا نظام عام ہو جائے گا اور تب بھی وہ اپنے اصل حاکم کو نہ بھولے اور ان سب برائیوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ ظلم کے نظام اور ان برائیوں کے خلاف جدو جہد کرے، تا کہ ان شرور و فسادات کے باوجود بھی بھلائی پھیلے اور عدل و انصاف کا نظام پروان چڑھے اور مسلسل جد و جہد سے تہذیب و ترقی ، بھلائی اور فلاح و بہبود جیسے انسان دوست اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ ایسے میں کچھ لوگ ایسے ضرور موجود ہوں گے جو بغیر کسی کے دَباؤ میں آئے اپنے رب اور اپنے مقصد تخلیق کو پہچانیں گے۔ اگرچہ یہ لوگ تعداد میں کم ہوں گے، مگر قیمتی ہوں گے۔ 

    ارشاد ربانی ہے:

    "اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں"۔ (سورۃ الذاریات،56) 

    یہاں بھی اللہ پاک واضح طور پر فرماتے ہیں کہ انسان اور جن اس کی بندگی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ 

    بندگی سے مراد ہے اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کر دینا اور اس کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنا، اس کے ہی دیے ہوئے نظام کو نافذالعمل کرنا ہے۔ 

    جب انسان مکمل طور پر خود کو اللہ کے سپرد کرتا ہے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے بنائے ہوئے نظام کی پیروی کرے اور اس پر قطعاً جائز نہیں کہ وہ ایسی سرگرمیاں شروع کر دے جو زمین پر بنائے گئے اللہ کے نظام میں خرابی پیدا کریں اور فساد پھیلائیں۔ اگر کوئی اس جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو گویا وہ خدا کی بندگی سے انکار کرتا ہے اور اس سے بغاوت کرتا ہے اور ایسا کرنے والا انسان خدا کی نعمتوں سے محروم اور اس کے عذاب کا حق دار ہوجاتا ہے۔ 

    یہ بات بھی واضح ہے کہ یکے بعد دیگرے خلفا آتے رہیں گے اور پھر آج کے دور میں بھی نائب کے طور پر اس باطل نظام کے خلاف ہماری جد و جہد ضروری ہوگئی ہے۔ یہ جد و جہد اور مہم جوئی اللہ کے دين یعنی اسلامی عدل وانصاف کے نظام کے غلبے کے لیے ہوگی جو کہ انسان کو نائب بنانے کا مقصد ہے کہ جب کوئی اللہ کے نظام سے بغاوت کرے اپنی حاکمیت کا دعویٰ کرے ظلم و استہزا کرے تو پھر وہ لوگ جو ان حالات میں بھی اللہ کو حقیقی و اصل حاکم مانتے ہیں اور حق کے نظام کے لیے جدو جہد کریں گے یہی اصل خلیفہ ہیں۔

    امام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒکی تحریک کے تیسرے دور کے امام حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒکی تصریح کہ آج کا دور قومی جمہوریتوں کا دور ہے کہ جس میں ہر قوم اپنی جگہ آزاد رہ کر پھر کوئی ریجنل اتحاد تشکیل دے سکتا ہے جو آگے چل کر لازماً دین کے بین الاقوامی غلبے کی صورت گری کا ذریعہ بنے گا، لیکن یہ رومانوی سوچ کہ:

    "ایک خلیفہ ہوگا اور سارا عالم اسلام اپنی تمام سرحدی لائنوں کو مٹاکر اسی ایک خلیفہ کے زیر نگیں ہوگا

    تو شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے سیاسی ترجمان امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی ؒ کے نزدیک یہ رومانوی تخیل"خیال است و محال است و جنون" کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا آج کے دور میں اشد ضرورت ہے کہ ہم بہ طورِ خلیفۃ اللہ فی الارض اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور بہ خوبی اُنھیں پورا کرنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کردار ادا کریں۔

    اس لیے انسان کو اپنا مقصد تخلیق ہمیشہ یاد رکھنا چاہیےکہ وہ اللہ کا بندہ اور اُس کا خلیفہ ہے جو اس کے بتائے ہوئے راستے پر بغیر چوں چراں کیے چلتا ہے اور بہ حیثیتِ خلیفہ اس کی دی ہوئی خلافت میں اُس کی ہدایات کے مطابق نظام قائم کرتا ہے جو تمام انسانیت کے لیے دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ اُخروی کامیابی کا سامان بھی ہوتا ہے۔

    Share via Whatsapp