نصب العین والے تماش بین نہیں ہوتے
زندگی کی راہوں پر چلتے ہوئے ہر انسان کے سامنے یہ بنیادی سوال کھڑا رہتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور وقت کو کس مقصد کے لیے وقف کرے؟ ۔۔۔۔۔
نصب العین والے تماش بین نہیں ہوتے
تحریر: کاشف حسن۔ پشاور
زندگی کی راہوں پر چلتے ہوئے ہر انسان کے سامنے یہ بنیادی سوال کھڑا رہتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور وقت کو کس مقصد کے لیے وقف کرے؟ کیا وہ دوسروں کے ذوق اور تماش بینوں کی خوشی کے لیے جئے یا پھر اپنی زندگی کو کسی بڑے نصب العین کے ساتھ جوڑ کر اعلیٰ مقاصد پر مبنی جدوجہد اختیار کرے؟ یہی سوال ایک گہری تمثیل میں یوں بیان ہوا ہے: ”جو گھوڑے جنگ پر جاتے ہیں، وہ شادی میں کبھی نہیں ناچتے“۔
جنگی گھوڑا صرف میدانِ کارزار کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی تربیت، اس کی مشقیں اور اس کی دوڑ سب ایک بڑے مقصد کے تابع ہوتی ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی اصل پہچان میدانِ جنگ کی کامیابی ہے، نہ کہ شادی کی محفلوں کا تماشہ۔ جنگی گھوڑا اپنے مالک کے نصب العین کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے، اس کے وجود کا ہر لمحہ اجتماعی کامیابی کے لیے وقف ہوتا ہے۔ وہ نظم و ضبط، قربانی اور استقامت کی علامت ہے۔ اس کے لیے لمحاتی داد یا وقتی تماشے کی کوئی حیثیت نہیں، اس کی آنکھیں ہمیشہ ہدف پر جمی رہتی ہیں۔
قرآن کریم میں بھی زندگی کے نصب العین کو واضح کرتے ہوئے فرمایا گیا:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات: 56)
ترجمہ: ”میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے“۔
یعنی انسان کا اصل مقصد بندگی ہے اور بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اللہ کے احکام کی روشنی میں اجتماعی بھلائی کے لیے بسر کرے۔
حدیث نبوی ﷺ میں آیا ہے:
”عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:”أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ ) شعب الایمان للبیہقی، حدیث: 8623)
ترجمہ:”اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو“۔
یہی تو جنگی گھوڑے کی علامت ہے — وہ فرد جو اپنی زندگی کو دوسروں کے فائدے اور اجتماعی بھلائی کے لیے وقف کردے۔
اس کے برعکس شادی میں ناچنے والا گھوڑا دوسروں کے اشاروں پر چلتا ہے۔ اس کی حرکات و سکنات اس مالک کی چھڑی کے مطابق ہوتی ہیں جو تماشائیوں کو خوش کرنے کے لیے اسے ناچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کی توانائیاں اور طاقت وقتی داد اور شور و ہنگامے کی نذر ہوجاتی ہیں۔ وہ لوگوں کی خواہشات کا قیدی بن کر اپنی اصل صلاحیت اور مقصدیت کھو دیتا ہے۔ بہ ظاہر وہ محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کی قیمت اپنی آزادی اور وقار سے محرومی کی صورت میں ادا کرتا ہے۔
انسانی زندگی بھی ان دونوں استعاروں کے بیچ ایک انتخاب ہے۔ کوئی شخص جنگی گھوڑے کی مانند اپنی ترجیحات کو نظریے، نصب العین اور اجتماعی فلاح کے تابع کرتا ہے اور کوئی شادی میں ناچنے والے گھوڑے کی طرح اپنی زندگی کو محض ماحول اور نظام کے اشاروں پر گزار دیتا ہے۔ اصل عظمت اور وقار اس میں ہے کہ انسان اپنی ذات کو کسی بڑے مقصد کے ساتھ جوڑ دے، اپنی محنت اور صلاحیتوں کو ایک اجتماعی جدوجہد کا حصہ بنائے اور وقت کے امتحان میں ذاتی و سِفلی خواہشات کی بجائے اُس اعلیٰ مشن کے ساتھ کھڑا رہے۔
یہاں ابراہام لنکن کے اس شہرہ آفاق مگر غیرمصدقہ خط کے الفاظ یاد آرہے ہیں جو انھوں نے اپنے بیٹے کے اُستاد کو لکھا تھا:
”اسے سکھائیے کہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا پورا پورا معاوضہ وصول کرے، مگر اپنے دل اور رُوح کو ہرگز نہ بیچے“۔
یہاں دل اور روح سے مراد وہ اعلیٰ مقاصد ہیں جو ذاتی اغراض سے بالاتر ہوتے ہیں اور انسان کو آفاقی ہمت عطا کرتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد غبارِخاطر میں رقم طراز ہیں؛
”زندگی بغیر کسی مقصد کے بسر نہیں کی جا سکتی۔ کوئی اٹکاؤ، کوئی لگاؤ، کوئی بندھن ہونا چاہیئے، جس کی خاطر زندگی کے دن کاٹے جا سکیں“۔
تاریخ میں وہی کردار امر ہوگئے جنھوں نے جنگی گھوڑے کی مانند اپنی زندگیاں ایک اعلیٰ نصب العین کے لیے وقف کیں۔ سب سے روشن مثال انبیائے کرام علیہم السلام کی ہے، جنھوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر، ایذائیں سہہ کر اور طویل جدوجہد کر کے انسانیت کے لیے ایمان، عدل اور اعلیٰ اخلاق کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمد ﷺ — یہ سب انسانی تاریخ کی وہ عظیم مثالیں ہیں، جنھوں نے اپنے دور کے ظالمانہ نظاموں کو چیلنج کرتے ہوئے مظلوم انسانیت کی آزادی کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور انھی عظیم قربانیوں کی بدولت ان کا اُسوہ حسنہ آج کی ظلمتوں میں انسانیت کے لیے اُمید کی واحد کرن ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ بھی ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے اپنی زندگیاں اعلیٰ مقاصد اور نصب العین کے لیے وقف کیں۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے سنتِ انبیاعلیہم السلام کو زندہ کرتے ہوئے ہر فرسودہ نظام کےخلاف اپناکردار ادا کرنے کا نظریہ دیا، امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے برطانوی استعمار کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا، سیداحمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے عملاً تحریک جہاد کی قیادت کی اور شاہ محمد اسحاق ؒنے اس پیغام کو آگے بڑھایا۔ پھر حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے دین اور آزادی کی حفاظت کے لیے قربانیاں دیں۔ تحریکِ ریشمی رومال کے رُوحِ رواں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے سیاسی و عملی میدان میں جدوجہد کی۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا سیدحسین احمد مدنیؒ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ اور مولانا احمد سعید دہلویؒ جیسے اکابر نے آزادی ہند کی تحریک کو فکری اور عملی بنیاد فراہم کر کے شاندار رہنما کردار ادا کیا۔
اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے چوتھے مسند نشین حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری رح نے اپنے بزرگوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وطنِ عزیز پاکستان میں حقیقی آزادی اور قومی شعور کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور مسلسل ساٹھ برس تک اس فریضے کی انجام دہی کے لیے برسرپیکار رہے۔
اسی طرح دنیا کے وہ رہنما بھی امر ہوگئے، جنھوں نے اپنی قوموں کی آزادی، وقار اور ترقی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔شیخ الہند اور ان کے شاگردوں نے اپنی زندگیاں قومی آزادی کےلیے وقف کردیں، مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اپنی بصیرت افروز قیادت، خطبات اور فکری رہنمائی کے ذریعے برصغیر کی تحریک آزادی کو ٹھوس فکری اور سیاسی بنیاد فراہم کی، نیلسن منڈیلانےآزادی کےلیے 27برس جیل میں گزارےاور معمر قذافی نے لیبیا کو سامراجی گرفت سے نکال کر خودمختاری کی راہ پر ڈالا اور تیسری دنیا کے مظلوم عوام کے لیے مزاحمت اور وقار کی علامت بن گئے۔
یہ سب کردار اس بات کے گواہ ہیں کہ اعلیٰ مقاصد پر مبنی جدوجہد ہی انسان کو تاریخ میں امر کردیتی ہے۔ ان کی قربانیاں اور استقامت آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ انسان کی عظمت لمحاتی داد و تحسین میں نہیں، بلکہ ایک بڑے مقصد کے لیے اُٹھائے گئے جرات مندانہ اقدامات میں ہیں۔
اعلیٰ مقاصد پر مبنی جدوجہد اور موجودہ تماشائی کلچر
آج کے دور میں بھی ہمیں یہی چیلنج درپیش ہے۔ سرمایہ داری نظام کے سائے تلے پروان چڑھنے والی نام نہاد جدید معاشرت نے ایک ایسا تماشائی کلچر پیدا کردیا ہے، جس میں فرد کو دوسروں کی واہ واہ، لائکس اور وقتی تعریف کے پیچھے بھاگنے پر لگا دیا گیا ہے۔ اس کلچر نے مقصدیت، استقامت اور اجتماعی جدوجہد کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسان کی اصل عظمت اسی وقت ہے جب وہ اپنی زندگی کو اعلیٰ مقاصد پر مبنی جدوجہد کا حصہ بنا دے۔ لمحاتی تالیوں اور وقتی داد سے بڑھ کر وہ راہ اپنائے جو اجتماعی فلاح، نظریے کی سربلندی اور اعلیٰ نصب العین کی تکمیل کا ذریعہ ہو۔









