جہاد بالنفس کی اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • جہاد بالنفس کی اہمیت

    لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِىۡ كَبَدٍؕ ۞ ترجمہ: یقیناً ہم نے بنایا آدمی کو محنت میں

    By یاسر عرفات Published on Apr 21, 2023 Views 2706
    جہاد بالنفس کی اہمیت 
    تحریر؛ یاسر عرفات، ملتان

    لغت میں جہاد کے معنی جدوجہد اور مجاہدہ کے ہیں۔ اس کے اصطلاحی معنی ہیں "حق کی بلندی"، "حفاظت" اور "اشاعت کے لیے قربانی دینا اور محنت کرنا"۔ قرآن پاک میں "قتال" فی سبیل اللہ اور "جہاد" فی سبیل اللہ کا حکم الگ الگ الفاظ میں دیا گیا ہے۔ اور سورۃ النسا میں جہاد کرنے والے الۡمُجٰهِدِيۡنَ کے تقابل میں (contrarily) الۡقَاعِدُوۡنَ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لغت میں قَعَدَ کے معنی بیٹھنا اور الۡقَاعِدُوۡنَ کے معنی بیٹھے رہنے والے۔اصطلاح میں بغیر کسی عذر کے بیٹھے رہنے والے، سُست اور کاہل لوگ۔
    ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ کامیابی حاصل کرے۔ اس کے ہر عمل کا اسے جلد از جلد اور مثبت نتیجہ ملے، مثلاً طالب علم امتحان میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے، کسان اناج اگانا چاہتا ہے، موسیقار نئی دھن ایجاد کرنا چاہتا ہے، تاجر اپنی تجارت بڑھانا چاہتا ہے۔ بے روزگار نوجوان چاہتا ہے کہ اسے جلد از جلد کوئی روزگار مل جائے۔ 
    انسان میں کامیابی حاصل کرنے کی جو چاہت ہے یہ فطری ہے اور اس کامیابی کے حصول کے لیے محنت، جدوجہد، قربانی، مجاہدہ اور جہاد کا مادہ بھی فطری طور پر انسانی روح میں موجود ہے۔ اس فطری اصول سے ہٹ کے اگر کوئی شخص خود کو جد وجہد سے معذور سمجھتا ہے تو یہ محض اس کی روحانی بیماری ہے۔ اس بیماری سے بچنے کےلیے جو عمل اختیار کیا جاتا ہے اسے جہاد بالنفس کہتے ہیں۔
    جہاد کی ضرورت و اہمیت جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاد بالنفس کیسے کیا جائے۔ اس کے لیے کون سا علم درکار ہے؟ اللّہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے بنیادی علوم میں علم الاحکام اور ارتفاقات کے علم کے ساتھ "علم التوحید و الصفات" بھی انسان کی ترقی کےلیے نازل کیا ہے۔ یہ علم جب انسان کو حاصل ہو جائے تو معرفتِ الٰہی کے نتیجے میں اس کا باطن پاک صاف ہوجاتا ہے۔ اس کی نفسیاتی بیماریاں دور ہو جاتی ہیں اور اس پر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ علمِ شریعت اور علمِ سیاست پر عمل پیرا ہونے کےلیے اور اس سے نتائج حاصل کرنے کےلیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ انسان سلوک و احسان کے راستے پر چلے۔ بعض صوفیائے کرام نے اس راستے پر چلنے کو "یقین کا سفر" کہا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ نے اس راستے پر چلنے کے درج ذیل تین بنیادی اصول بیان فرمائےہیں: 
    1۔ اپنے کام کو خلوصِ نیت سے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین رکھ کر کرنا۔
    2۔ کام کے نتیجے میں خشوع وخضوع اور یقین کی حالت کا پیدا ہونا۔ یقین کی یہ عارضی حالت اصلی ہو، محض عقلی یا استدلالی نہیں۔ یقین کی ان حالتوں کا مقام میں تبدیل ہونا، استقامت حاصل کرنا۔ اخلاقِ فاضلہ کے حصول کی منازل طے کرنا۔
    3۔ جب عقل، قلب اور نفس مہذب ہو جائے، جب استقامت حاصل ہو جائے تو اس کے نتائج کا معاشرے میں اِظہار ہونا، کمالات کا پیدا ہونا۔ (خطباتِ تربیت، از شاہ عبدالخالق آزاد رائے پوری، خطبہ نمبر1، رحیمیہ مطبوعات، لاہور) 
    نبی پاک صلی اللّہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: 
    إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (بخاری) 
    ترجمہ: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔
    قرآن حکیم میں ارشاد ہے کہ: 
    لَّيۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ ۞ (سورۃ النجم آیت 39) 
    ترجمہ: آدمی کو وہی ملتا ہے، جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
    حدیثِ قدسی ہے: 
    (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میری بابت رکھے اور جب وہ مجھ کو یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر اس نے اپنے دل میں مجھ کو یاد کیا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر اس نے مجھ کو لوگوں کے سامنے یاد کیا ہے تو میں بھی اس کو لوگوں (یعنی فرشتوں) کے سامنے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت آتا ہے تو میں اس کی طرف ایک گز جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک گز آتا ہے تو میں اس کی طرف دو گز جاتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آہستہ آہستہ آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔ (بخاری) 
    انسان اپنے وجود میں حیوانی اور روحانی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ یہ صلاحیتیں اس کے پاس اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں۔ شیطان انسان پر اس کی بہیمیت یعنی حیوانی راستے سے حملہ آور ہوتا ہے اور اسے گناہوں اور غفلت کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر شیطان کامیاب ہو جائےتو انسان ناکام ہو جاتا ہے۔ انسان کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ جہاد بالنفس کرے اور شیطان کو ناکام بنائے۔ اپنی عقل میں عدالت کی صلاحیت پیدا کرے، اپنے قلب میں تعلق مع اللّہ (اخبات) اور اس کے نتیجے میں نظم و ضبط(سماحت) کی صلاحیت پیدا کرے، اپنے نفس میں طہارت و پاکیزگی کا خلق پیدا کرے۔ ایسا کرنے سے انسان کی نیت کی تصحیح ہوتی ہے ، اس کی حیوانی صلاحیتیں، اس کی روحانی صلاحیتوں یعنی اخلاقِ فاضلہ کے تابع ہو جاتی ہیں اور اس کا ہر ایک عمل عبادت بن جاتا ہے۔ اس کا پڑھنا لکھنا، کھیتی باڑی، کاروبار، تجارت کرنا، سونا جاگنا، کھانا پینا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دلیل (عبادت) بن جاتا ہے۔ اور یہی جہاد بالنفس کا مقصودِ اصلی ہے۔
    Share via Whatsapp