دینی نظریہ تعلیم کی ضرورت واہمیت
علم انسان کے لیے وہ روشنی ہے جو جہالت کے اندھیروں کو چیر کر دل و دماغ میں بصیرت کے چراغ روشن کرتی ہے۔ ۔۔۔
دینی نظریہ تعلیم کی ضرورت واہمیت
تحریر: سلیمان علی، پشاور
تعارف
علم انسان کے لیے وہ روشنی ہے جو جہالت کے اندھیروں کو چیر کر دل و دماغ میں بصیرت کے چراغ روشن کرتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو انسان کو حیوانی سطح سے اُٹھا کر فکری و اخلاقی رفعت عطا کرتی ہے۔ قرآنِ حکیم نے علم کو محض معلومات کے ذخیرے یا معاشی ضرورت کے درجے میں محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے ایمان، ہدایت اور انسانی ذمہ داری کے بنیادی ستونوں میں شمار کیا ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے علم ایک ایسا شعور ہے جو عقل و وحی، حقیقت و اخلاق اور دنیا و آخرت کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ یہ وہ سرچشمہ ہے جو انسان کو اپنی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے، خالق سے جوڑتا ہے اور مخلوق کے ساتھ عدل و خیر کے تعلق کی بنیاد رکھتا ہے۔ آج کی تعلیم اس "اشرف المخلوقات" کو محض "محتاج المخلوقات" بنا رہی ہے۔ اس لیے تعلیم کا حقیقی تصور سمجھنا اور اسی طرز پر پرچار کرنا ناگزیر ہے
قرآنِ حکیم میں علم کی اہمیت
اسلام کی سب سے پہلی وحی کا آغاز ہی ”اقْرَأْ“ یعنی ”پڑھ“ کے حکم سے ہوا:
”پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے بنایا۔ پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا“۔ (سورۃ العلق، 1-5)
یہ آیات علم کی قدسی حیثیت کو واضح کرتی ہیں۔ ”پڑھنے“ کا حکم اس بات کی علامت ہے کہ اسلام میں علم عبادت کا ایک شعبہ ہے اور ”قلم“ کا ذکر اس کے ابلاغ اور تحفظ کی علامت ہے۔ علم وہ اولین نعمت ہے، جس کے بغیر انسان نہ اپنی حقیقت پہچان سکتا ہے، نہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔
افسوس کہ موجودہ نظامِ تعلیم اس حکم کی روح سے بہت دور جا چکا ہے۔ طلبا کو صرف مارکیٹ کی ضرورتوں کے تابع کر دیا گیا ہے۔ علم کا مقصد اخلاق ، ذمہ داری اور خدمت سے منقطع ہوگیا ہے۔ تعلیمی ادارے ذہن تو تراشتے ہیں ، مگر کردار نہیں بناتے۔ یہی وہ نکتہ ہے، جہاں علم محض ہنر بن جاتا ہے، اور ہنر جب ایمان سے خالی ہو تو معاشرہ انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔
علم میں اضافے کی دُعا اور علمِ نافع کا تصور
قرآن کہتا ہے:”اور یوں کہہ اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما“۔ (سورۃ طٰہٰ، 114)
یہ آیت زندگی بھر سیکھنے کے تسلسل کو ظاہر کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے لیے بھی یہ دعا نازل ہوئی، حال آں کہ آپؐ تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ علم والے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا — جو انسان اپنے علم میں اضافہ کا طلبگار نہ رہے، وہ دراصل جمود کا شکار ہوجاتاہے۔
اسی تصور کو نبی اکرم ﷺ نے اپنی مشہور دعا میں یوں واضح فرمایا:
”اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا“ ۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث 925)
”اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم کا سوال کرتا ہوں“۔
یہ دعا ہمیں بتاتی ہے کہ علم صرف اس وقت ”علم“ کہلاتا ہے، جب وہ نافع ہو — یعنی انسانیت کے لیے مفید، اخلاق کی بنیاد پر قائم اور اللہ کی رضا کا ذریعہ۔ جو علم معاشرے میں فساد، ظلم یا استحصال کو بڑھائے، وہ علم نہیں، بلکہ فریبِ علم ہے۔
علم کا مقصد اور اس کی اخلاقی بنیاد
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”وہ حکمت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے اور جسے حکمت دی جائے اسے بہت بڑی خیر عطا کی گئی“۔ (سورۃ البقرہ، 269)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ علم کا اصل مقصد ”حکمت“ ہے، یعنی وہ فہم و بصیرت جو انسان کو صحیح اور غلط میں تمیز سکھائے۔ علم محض اعداد، نظریات یا فارمولے نہیں، بلکہ ایک اخلاقی قوت ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ اگر علم کو حکمت سے الگ کر دیا جائے تو وہ خطرناک بن جاتا ہے — ایک ایسا ہتھیار جو نیکی کے بجائے ظلم کا آلہ بن جاتا ہے۔
بدقسمتی سے جدید نظامِ تعلیم نے علم کو اس کے اخلاقی و ایمانی پس منظر سے جدا کردیا ہے۔ ہم ڈاکٹر تو پیدا کررہے ہیں، مگر مریض کے درد سے خالی، استاد تو بنا رہے ہیں، مگر شاگرد کی روحانی تربیت سے غافل۔ یہ علم نہیں، بلکہ ٹیکنیکل مہارت ہے، جو انسان کے اندر کی روشنی سے محروم ہے۔
علم کا استحصال اور عالمی استعمار
قرآنِ حکیم میں ایک نہایت اہم اصول بیان ہوا ہے:
”وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا“۔ (سورۃ البقرہ، 41)
”اور میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو“۔
یہ آیت صرف وحی یا دینی علم کی تجارت تک محدود نہیں، بلکہ ہر اس علم پر بھی صادق آتی ہے جو حق کے بدلے مفاد کا سودا بن جائے۔ آج سرمایہ دارانہ دنیا میں علم کو طاقت اور منافع کا ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ بڑی جامعات، ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور کارپوریٹ تھنک ٹینک ترقی پذیر اقوام کے ذہین ترین نوجوانوں کو اسکالرشپس اور تحقیقی پروگراموں کے نام پر اپنی فکری گرفت میں لیتے ہیں۔
ان کے تخلیقی دماغوں سے وہ ایجادات کرواتے ہیں جو دراصل استعماری طاقتوں کے مفادات کی تکمیل کرتی ہیں — چاہے وہ مصنوعی ذہانت ہو، جدید اسلحہ سازی ہو ، یا مالیاتی نظام کی نئی شکلیں۔ اس کے بدلے تیسری دنیا کو صرف صلاحیت کی ہجرت (Brain Drain)کا تحفہ ملتا ہے، جب کہ علم کے نام پر ظلم اور نابرابری کی نئی دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں۔
یوں علم جو خالق کا نور تھا، سرمایہ دارانہ نظام کے گھر کی لونڈی بن گیا ہے۔
راسخون فی العلم: علم کا قرآنی معیار
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا“ (سورۃ آلِ عمران، 3:7)
”راسخ فی العلم“ وہ ہیں جو علم میں گہرائی، پختگی اور بصیرت کے ایسے مقام تک پہنچ چکے ہوں، جہاں ان کی معرفت انکسار بن جاتی ہے اور ان کی فہم بندگی کی راہ پر استقامت۔ وہ نہ صرف اپنے علم کی حقیقت تک پہنچتے ہیں، بلکہ اسے انسانی معاشرے کی فلاح کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک علم طاقت یا شہرت کا وسیلہ نہیں، بلکہ ایمان کی خدمت اور خیرِ عام کا ذریعہ ہوتا ہے۔
تاہم قرآن کا تصورِ علم محض ایمان کے دعوے پر قائم نہیں۔ ایمان اگر مہارت، تحقیق اور فکری گہرائی کے بغیر ہو تو وہ قوت پیدا نہیں کرتا جو معاشرے کی تشکیل اور دین کے غلبے کے لیے لازم ہے جو جماعت ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے شعبوں میں اعلیٰ درجے کی علمی مہارت حاصل کرتی ہے، وہی دراصل ”راسخ فی العلم“ کہلانے کی مستحق ہے۔ جب ایمان والے علم میں کمال حاصل کرتے ہیں تو ان کا علم ایمان کی قوت میں تبدیل ہوجاتا ہے، اور ان کی اجتماعی بصیرت اُمت کو وہ توانائی بخشتی ہے جو اقوامِ عالم میں قیادت، استحکام اور عدل کے قیام کی ضامن ہوتی ہے۔
یوں ”راسخ فی العلم“ وہی لوگ ہیں، جن کے علم میں یقین کی روشنی اور جن کے ایمان میں علم کی گہرائی شامل ہو — وہ جو علم کو بندگی کا ذریعہ بناتے ہیں، طاقت کا نہیں اور جن کی علمی صلاحیتیں انسانیتِ عامہ کے لیے وقف ہوتی ہیں۔
قرآنی تعلیمات کی روشنی میں متبادل نظامِ تعلیم کے قیام کا تقاضا
اَب وقت آ گیا ہے کہ ہم تعلیم کے موجودہ مغربی ماڈل کے مقابل ایک ایسا نظام قائم کریں جو قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل دیاگیاہو۔
ایسا نظام جہاں علم کا مقصد صرف نوکری نہیں، بلکہ بندگی ہو، جہاں نصاب میں قرآن و سائنس، روحانیت و منطق اور اخلاق و ٹیکنالوجی کا امتزاج ہو، جہاں اساتذہ محض لیکچرار نہیں، بلکہ مربی ہوں اور طلبا صرف گریجوایٹ نہیں، بلکہ راسخین فی العلم انسان بن کر نکلیں۔
یہی وہ متبادل ماڈل ہے جو اسلام نے پیش کیا — جہاں عقل و وحی ایک دوسرے کے مخالف نہیں، بلکہ معاون ہیں اور جہاں علم کا مصرف انسان کی خدمت اور کائنات کی آبادکاری ہے، نہ کہ اس کی بربادی۔
خلاصہ
نبی کریم ﷺ کی دعا — ”اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا“ — دراصل اسلامی تصورِ علم کا خلاصہ ہے۔ علم وہی معتبر ہے جو نفع بخش ہو، جو روشنی پھیلائے اور جو بندوں کو خالق سے قریب کرے۔
اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ علم اگر ایمان، اخلاق اور عدل سے جدا ہو جائے تو وہ زہر بن جاتا ہے، مگر جب ایمان سے جڑ جائے تو یہی علم انسانیت کی نجات اور فلاح کا ذریعہ بنتا ہے۔
علم کی حقیقت تک پہنچنے کا واحد راستہ وہی ہے جو وحی کی روشنی سے منور ہو، کیوں کہ یہی علم انسان کو بقا، بصیرت اور بندگی عطا کرتا ہے۔
آئیے! ہم عہد کریں کہ ہم علم کو محض کاغذ کا ٹکڑا نہیں بنائیں گے، بلکہ اسے اپنی اور انسانیت کی نجات کا ذریعہ بنائیں گے — ایسا علم جو روشنی بنے، طاقت نہیں؛ شفا بنے، ہتھیار نہیں اور بندگی کا وسیلہ بنے، بالادستی کا نہیں۔
تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کو بے مقصد سے بامقصد، بے خبر سے باخبر، بے شعور سے باشعور اور بے عمل سے باعمل بنا دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا علم عطا فرمائے جو نافع و بصیرت افروز ہو اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا سبب بنے۔ آمین!









