حضرتِ انسان کی عظمت، عزت اور منفرد خصوصیات
کوئی بھی مخلوق کسی بھی مخلوق کو اپنی مرضی سے اپنے تابع نہیں بناسکتی مگر؟ مگر انسان جس کو بھی چاہے اپنے استعال میں لا سکتا ہے اپنے تابع بنا سکتا ہے ا
حضرتِ انسان کی عظمت، عزت اور منفرد خصوصیات
عابد حسین کولاچی، کراچی۔
کائنات کی تخلیق
تمام تعریفیں اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کے لیے ہیں، جس نے پوری کائنات بنائی۔ زمین و آسمان میں ہر مخلوق و ہر ذرے کو ٹھیک ٹھیک جگہ پر ٹھیک ٹھیک صورت و معیار کے مطابق پیدا فرمایا۔ ہر ہر چیز، ہر ہر ذرہ و مخلوق اپنی حالت اور حرکت کے ساتھ اس مقصد و محور میں دن رات خوش اور مصروفِ عمل ہے، جس مقصد کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔
تخلیق آدم
انسان جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنا کر اس کرہ ارض پر بھیجا، اس کی بناوٹ و ساخت تمام مخلوقات سے الگ ہے۔ اس کی عقل کا معیار، اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، کائنات کی تمام اشیا کے متعلق اس کا فہم و ادراک الگ ہے۔ جسمانی حوالے سے اس کی ساخت اور روحانی حوالے سے اس کا معیار الگ ہے۔ اس کے نفس کے تقاضے ، جذبات کی بیدبھاؤ، احساسات کی دنیا ، سوچنے سمجھنے غور وفکر کرنے کے زاویے الگ ہیں۔
پہلی خصوصیت
سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور پیدا ئش قابل غور اور باعث فخر ہے ۔ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود پیدا کیا اور پھر حضرت بی بی حواعلیہ السلام کو پیدا کیا، جس کے بعد جوڑوں کی شکل میں صبح و شام انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ جاری ہوا اور زمین پر اس مخلوق ،حضرتِ انسان کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ انسان کی پیدائش اور پرورش سے لے کر اس کے مرنے تک تمام زندگی بسر کرنے کے طور طریقے ان کا رہن سہن ،اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، بات کرنا، سمجھنا،سمجھانا اورسفر کرنا تمام مخلوقات سے الگ اور منفرد ہے۔ زندگی بسر کرنے کی ضروریات بھی الگ ہیں۔
دوسری خصوصیت
اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمینی وسائل اور دیگر مخلوق چرند و پرند، دھات و آلات کے استعمال کا کنٹرول انسان کے اختیار میں دے دیا ہے۔کوئی بھی مخلوق کسی بھی مخلوق کو اپنی مرضی سے اپنے تابع نہیں بناسکتی۔ مگر انسان جس کو بھی چاہے، اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ اپنے تابع بناسکتا ہے، اپنا کام کروا سکتا ہے۔ زمین میں موجود قدرتی وسائل کا استعمال کرتا ہے۔زمین پر فصل اُگاتا اور جان دار کو بھی اپنے استعمال میں لاتا ہے۔کچھ جان دار کو اپنی خوراک بناتا ہے، کچھ سے کام کرواتا ہے اور کچھ کو سفر میں استعمال کرتا ہے۔ یہ تمام انتظامات اکیلا ایک انسان نہیں کرسکتا، ہمیشہ سے اسے دوسرے انسانوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ انسان کی پیدائش کے بعد کی صورتِ حال پر ہی غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کتنا کمزور اور محتاج ہے۔ اپنی خوراک، لباس و مکان اور زندہ رہنے کے لیے اپنے ماں،باپ اور دیگر افراد کا محتاج ہوتا ہے جو اس کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور معاشرے میں رہنے کے طور طریقے آداب و تہذیب سکھاتے ہیں۔ بڑے عرصے بعد ہی وہ اس قابل بنتا ہے کہ اپنی خوراک اور لباس و مکان کا خد و خیال اور انتظام خود کرتا ہے اور معاشرے میں دیگر انسانوں کی طرح رہنے کے قابل بنتا ہے۔اسی طرح باقی ضروریات تعلیم و تربیت، علاج ومعالج ، نکاح، شادی بیاہ، لین دین اور پھر مرنے کے بعدکفن دفن میں بھی دوسروں کا محتاج ہے۔
تیسری خصوصیت
ہر ایک انسان کی ضروریات کے لیے تمام وسائل کے ساتھ ساتھ دوسرے انسان بھی ہر وقت اس کی ضروریا ت کو پورا کرنے کے لیے موجود ہیں۔ کیوں کہ اس انسان کی بڑی عزت اور احترام ہے۔ اس لیے کسی بھی انسان کی کسی بھی ضرورت سے محرومی اللہ پاک کو گوارا نہیں۔ اس کی مثال ماں کی محبت اور خدمت کے جذبے سے محسوس کی جا سکتی ہے جو اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے۔ اور اللہ تو اپنے بندوں سے ایسی ماں سے 70 گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود فرمایا: ہم نے انسان کو بڑا عزت والا بنایا ہے۔
چوتھی خصوصیت
اللہ پاک نے انسان کو اپنا نائب اور خلیفہ بھی بنایا ہے۔ خلافت کا منصب و مقام اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا۔ کیوں کہ ہر چیز نے اس ذمہ داری سے انکار کیا،مگر انسان جو ظالم اور جاہل ہے اس نے اس ذمہ داری کو لے لیا۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ اعلیٰ مقام و مرتبہ،شان و شوکت اس حضرتِ انسان کو عطا کیا ہے جوکسی اور مخلوق کے حصے میں نہیں آیا۔
پانچویں خصوصیت
حضرت آدم علیہ السلام کو ایسے علوم سیکھائے جو اللہ کی تمام مخلوق سے زیادہ ایک مقدس مقام رکھنے والی مخلوق ملائکہ کے پاس بھی نہیں تھے ۔ اور پھر حضرت آدم علیہ السلام نے ان اشیا کے نام بتا کر ملائکہ کے اس سوال کا جواب دیا جو انھوں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق پر اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھا تھا، جس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ جوکچھ میں جانتا ہوں آپ نہیں جانتے اور پھر ملائکہ سے سجدہ کروایا اور پھر اس بات کا بھی اظہار کروایا کہ اس انسان کو اپنے اس مقصد میں کامیاب بنانے کے لیے اس کی مدد کی جائے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا ہے۔ مگر شیطان جس سے انسان کی یہ عظمت دیکھی نہ گئی اور اللہ کے سامنے آ کھڑا ہوا اور اپنے ناپاک ارادوں کا اِظہار کیا اور انسان کے ساتھ دشمنی کا اعلان کیا اور تاقیامت اللہ سے مہلت مانگی کہ وہ اپنے ارادوں اور اپنے عمل سے انسان کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنے گا پھر دیکھتے ہیں یہ انسان کس طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے شیطان کو اجازت اور مہلت بھی دی اور پھر فرمایا جو بندے تیرے بہکاوے میں آکر اللہ کی نافرمانی کریں گے وہ تیرے ساتھ جہنم کی آگ میں جائیں گے اور جو اللہ کے بندے اللہ کا حکم مانیں گے وہ جنت میں جائیں گے۔