علم اور شعور کے نمائندہ حواسِ خمسہ کے ذریعے معرفت کی منازل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • علم اور شعور کے نمائندہ حواسِ خمسہ کے ذریعے معرفت کی منازل

    انسان کے حواسِ خمسہ (Five Senses) صرف جسمانی احساسات کے لیے نہیں بلکہ علم اور شعور کے مختلف مراحل کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔ علم محض جاننے کا نام نہیں

    By محمد اویس خٹک Published on Mar 07, 2025 Views 274
    علم اور شعور کے نمائندہ حواسِ خمسہ کے ذریعے معرفت کی منازل
    تحریر : محمد اویس خٹک ۔ برلن، جرمنی

    انسان کے حواسِ خمسہ (Five Senses) صرف جسمانی احساسات کے لیے ہی نہیں، بلکہ علم اور شعور کے مختلف مراحل کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔ علم محض جاننے کا نام نہیں، بلکہ اس کے کئی درجے ہیں جو سننے (Hearing) سے شروع ہوکر چکھنے (Tasting) تک جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو ہمیں نہ صرف حقیقت سے آشنا کرتا ہے، بلکہ اسے ہمارے وجود کا حصہ بھی بنا دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی ان حواس کو مختلف مقامات پر بہ طور علامت استعمال کیا گیا ہے۔ 
    آئیے ان مراحل کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
    1۔ سننا (To Hear) اطاعت (Obedience)
    یہ معرفت کا سب سے پہلا درجہ ہے، جہاں انسان کسی چیز کے بارے میں سنتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ یہ Passive Perception ہے،یعنی کسی چیز کو تسلیم کرنا، چاہے وہ اسے مکمل طور پر سمجھ میں آئے یا نہیں۔
    قرآنی مثال:
     سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ واُولٓئک هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ۔ (سورۃ النور 51)
    "اور وہ کہتے ہیں، ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔" 
    یہ وہ مرحلہ ہے، جہاں انسان سچائی کو مان لیتا ہے، چاہے وہ مکمل طور پر اس کی حکمت کو نہ سمجھتا ہو۔
    2۔ دیکھنا (To See) سمجھنا (Understanding)
    دوسرا درجہ دیکھنے کا ہے۔ یہ سننے سے ایک قدم آگے ہے، کیوں کہ یہاں پر انسان صرف مانتا نہیں، بلکہ چیزوں کو دیکھ کر ان کے بارے میں غور و فکر بھی کرتا ہے۔ Seeing clarity دیتا ہے اور شعور (Consciousness) پیدا کرتا ہے۔
    قرآنی مثال:
    وَتَرَىٰهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ۔ (سورۃ الاعراف 198) 
    "تم انھیں دیکھو گے کہ وہ تمھاری طرف دیکھ رہے ہیں، مگر وہ حقیقت میں نہیں دیکھتے۔" یہاں "دیکھنا" محض ظاہری نظر نہیں بلکہ بصیرت (Insight) کو ظاہر کرتا ہے۔ کچھ لوگ آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے۔
    3۔ سونگھنا (To Smell) اس کی اصل کو محسوس کرنا (Feeling the Essence)
    یہ وہ مرحلہ ہے، جہاں انسان صرف سمجھتا ہی نہیں، بلکہ کسی چیز کی اصل (Essence) کو محسوس بھی کرتا ہے۔ یہاں شعور سطحی نہیں رہتا، بلکہ وہ دل اور روح میں سرایت کرنا شروع کر دیتا ہے۔
    یہ اس بات کی علامت ہے کہ کچھ چیزیں دیکھی یا سنی نہیں جاتیں، بلکہ صرف دل اور روح میں محسوس کی جاتی ہیں۔
    4۔ چھونا (To Touch) اس سے جُڑنا (Active Interaction)
    جب کوئی چیز صرف سمجھی یا محسوس نہیں کی جاتی، بلکہ اس کے ساتھ براہِ راست تعامل (Interaction) کیا جاتا ہے، تو وہ حقیقت کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ اس مرحلے پر علم محض نظریاتی (Theoretical) نہیں رہتا، بلکہ عملی (Practical) بن جاتا ہے۔
    یہ وہ مقام ہے، جہاں حقیقت کا تجربہ اتنا قریبی ہوجاتا ہے کہ وہ وجود کا حصہ بننے لگتی ہے، جیسے پانی کو ہاتھ سے چھونے کا احساس۔
    5۔ چکھنا (To Taste) مکمل معرفت (Best Level of Knowing) 
    علم کا آخری اور سب سے گہرا درجہ چکھنے کا ہے۔ جب انسان کسی چیز کو چکھ لیتا ہے، تو وہ نہ صرف اسے جانتا ہے، بلکہ وہ اس کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ یہ Absolute Knowledge ہے،جہاں کوئی چیز مکمل طور پر وجود میں ضم ہوجاتی ہے۔
    Taste کا مطلب محض تجربہ (Experience) نہیں، بلکہ مکمل حقیقت کا سامنا (Direct Encounter) کرنا ہے، جو علم کے سب سے بلند درجے کی علامت ہے۔
    نتیجہ: حواس سے معرفت کی تکمیل 
    یہ پانچ مراحل بتاتے ہیں کہ کیسے علم اور فہم (Understanding) سننے سے شروع ہو کر چکھنے تک کا سفر طے کرتے ہیں:
    صرف سن کر مان لینا  (Hearing) اطاعت (Obedience)
    Understanding (سمجھنا) Seeing (چیزوں کو دیکھ کر شعور حاصل کرنا، لیکن اگر بصیرت نہ ہو تو دیکھنے کے باوجود نہ دیکھ پانا۔)
    Smelling( اصل کو محسوس کرنا) Feeling the Essence (کسی چیز کی گہرائی کو محسوس کرنا۔) 
    Touching( متحرک تعامل) Active Interaction (حقیقت کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرنا۔)
    Tasting(کامل معرفت) Complete Knowing (حقیقت کو مکمل طور پر اپنا لینا۔) 
    یہی وہ سفر ہے جو کسی بھی علم کو ہمارے وجود کا حصہ بناتا ہے اور یہی انسان کے سیکھنے اور جاننے کی حقیقی منازل ہیں۔
    یہی اصول کسی بھی علم، تجربے، یا سچائی کو سمجھنے کے لیے لاگو کیا جا سکتا ہے، خواہ وہ سائنسی تحقیق ہو، فکری ترقی، یا روحانی آگہی۔ علم ایک مسلسل سفر ہے،ہم سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، تجربہ کرتے ہیں اور آخرکار مکمل طور پر اسے اپنا لیتے ہیں۔
    "سننے سے چکھنے تک کا یہ سفر درحقیقت سیکھنے، سمجھنے اور جاننے کا سب سے قدرتی طریقہ ہے!"
    Share via Whatsapp