عقیدہ رسالت اور اس کے تقاضے
رسالت کے معنی ہیں اللہ کا پیغام پہنچانا۔ تمام رسولوں پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔۔۔۔

عقیدہ رسالت اور اس کے تقاضے
تحریر: سلمان نواز۔ بہاولپور
رسالت کے معنی ہیں اللہ کا پیغام پہنچانا۔ تمام رسولوں پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو دنیا میں اس لیے بھیجا کہ وہ لوگوں کو اللہ کے احکام پہنچائیں، نیکی اور سچائی کا راستہ دکھائیں۔ہمارا ایمان ہے کہ رسول سب کے سب خدا کے مقبول بندے اور اپنے دور کے بہترین انسان تھے۔ یہ سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہو کر حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوتا ہے۔
عقیدہ توحید کے داعی
عقیدہ توحید کے اولین داعی انبیائے کرام علیہم السلام ہوتے ہیں۔ وہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کے خدائے واحد کی غلامی میں لاتے ہیں۔ آپ ﷺ اور آپ کی جماعتِ صحابہؓ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ توحید کا عملی کردار تھے۔ آپ ﷺ نے واضح اور دو ٹوک اعلان کیا کہ کسی ابوجہل، کسی قیصر، کسی کسریٰ، کسی پتھر، کسی قبر اور کسی عمارت کی کوئی پوجا نہیں۔ عبادت صرف اور صرف اللہ کی ہے اور اسی کا انسانوں کے لیے نظام ہے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اس بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراطِ مستقیم پر چلایا اور مرکز الٰہی سے جوڑا۔ اس لیے انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے ساتھ عقیدہ رسالت پر بھی ایمان ضروری ہے۔
نبی کریم ﷺ کی بعثت کا مقصد
"بعثتُ لأٔكسرَ شوكةَ كِسْرَى و قَيْصَرَ"۔ مجھے کسریٰ (ایران) اور قیصر (روم) کی طاقت کو توڑنے کے لیےبھیجا گیاہے۔
آپﷺ کی بعثت کا مقصد قیصروکسریٰ کے نظاموں کا خاتمہ تھا۔ اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کا مقابلہ نمرود سے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے تھا۔ نمرود وفرعون صرف دو شخص نہیں، بلکہ دو کردار ہیں، جنھوں نے اپنے ملکوں کے معاشروں میں نظام ظلم قائم کیا ہوا تھا۔ انسانی وسائل پر ان کا قبضہ تھا۔ انسانوں کو انسان نہیں، بلکہ گدھے اور بیل کی طرح سمجھتے تھے۔ انسانیت لاچار اور بےچارگی کی حالت میں تھی۔ تمام انبیاؑ کا مقصد خالص اللہ کی بندگی قائم کرنا، سرکش وطاغوتی قوتوں اور مذہبی اجارہ دار طبقوں کا خاتمہ کرنا تھا۔
عقیدہ رسالت کا معاشرتی تقاضوں سے تعلق
معاشرے کو ہر قسم کے ظلم سے پاک کرنا اور عدل کا قیام عقیدہ رسالت کا بنیادی تقاضا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وہ (نبی کریم ﷺ) ان کو نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے، ان سے بوجھ اُتارتا ہے اور ان بندشوں کو جو ان پر تھیں (جن میں وہ دَبے اور جکڑے ہوئے ہیں کاٹتا ہے۔) پس جو لوگ اس پر ایمان لائے، انھوں نے اس کی حمایت کی اور مدد کی اور اس قرآن کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ ( الاعراف ؛ 157)
پروہت شکن فکر
عقیدہ رسالت کے نتیجے میں جو پہلا تقاضا انسانی سوسائٹی میں پیدا ہونا چاہیے وہ ایسی سوچ یا نظریات ہیں جو جھوٹے خداؤں، جھوٹی رسومات، اندھی تقلید اور باطل مذہبی پیشواؤں کے تسلط کو توڑنے والے ہوں۔ جتنے بھی انبیاءؑ آئے سب نے بت پرستی کو توڑا اور قوم کے جھوٹے خداؤں کا انکار کیا، حق کی طرف دعوت دی اور سچے خدا کی پہچان کروائی۔یہ انقلابی سوچ ہے جو باطل عقائد کے خلاف معاشرے کو توحید اور عدل کی بنیاد پر بدلنا چاہتی ہے۔
سماج کا فاسد طبقہ
جو طبقہ انسانیت کی ترقی میں رکاوٹ بن جائے، مال واسباب، وسائلِ رزق اور علوم میں اپنی اجارہ داری قائم کرکے عوام کو بے شعور بنائے، عوام کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے اور عوام کی بھی ذہنیت بن جائے کہ ان کے بغیر خدا کا قرب حاصل نہیں کیا جا سکتا تو یہ فاسد طبقے عوام کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ پھر ان کا اگلا درجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ خود کو، خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں تو ایسے حالات میں انبیائے کرامؑ اس قسم کے بت توڑنے میں اجتماعی کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی ذہن کی تربیت کرکے اسے بلند کرتے ہیں۔ خدا اور بندوں کے درمیان ہر قسم کی رکاٹوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔
تاریخی تسلسل
وہ فکر یا نظریہ جو ترقی کرتا ہوا آگے نہیں بڑھتا، یعنی اگر اس کا کوئی تاریخی تسلسل نہیں، تو ایسا فکر کمزور ہوتا ہے۔ اعلیٰ اور اونچی فکر کبھی بھی اپنے تسلسل سے کٹی ہوئی نہیں ہوتی۔ کسی بھی اعلیٰ فکر یا نظریہ کی سچائی کا پیمانہ اس کا تاریخی تسلسل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر علاقہ ہر بستی میں اپنا پیغام پہنچانے والے بھیجے،جنھوں نے انسانیت کو خداپرستی اور انسان دوستی کا سبق پڑھایا۔ یہ سلسلہ اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جس طرح ایک ہار کا موتی، دوسرے موتی سے جڑا ہوتا ہے یا جس طرح زنجیر کی ایک کڑی دوسری کڑی سے جڑی ہوتی ہے۔ اس طرح ہر نبی نے اپنے سے پہلے انبیائے کرامؑ سے اپنا تعلق جوڑا۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک تمام انبیائے کرامؑ تاریخی تسلسل کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں اپنے دادا حضرت ابراہیمؑ کی دعا کا نتیجہ ہوں۔
ختم نبوت
حضرت محمدﷺ نے فرمایا : ’’ بنی اسرائیل کی سیاست، ان کے انبیائے کرامؑ کیا کرتے تھے جب کبھی کوئی نبی فوت جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، بلکہ خلفا ہوں گے پس وہ بہت ہوں گے۔‘‘
آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے، اَب کوئی نبی نہیں آئے گا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری اور انبیاؑ کی مثال اس مکان کی سی ہے جو نہایت عمدہ بنایا گیا ہو اور اس میں صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو تو وہ اینٹ میں ہوں۔‘‘ یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمارت مکمل ہو چکی ہے۔ اَب کوئی جگہ باقی نہیں، جسے پُر کرنے کوئی نبی آئے گا۔
معاشرے کی ترقی میں عقیدہ رسالت کا کردار
جتنے بھی انبیائےکرام ہیں، سب نے انسانیت کی ترقی کے لیے جدوجہد کی۔ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک سب نے انسان کی کردار سازی اور معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا۔ تدریجاً یعنی آہستہ آہستہ انسانیت نے ترقی کی منازل طے کیں۔ آپﷺ نے نہ صرف انسانیت کی ترقی کا فلسفہ دیا، بلکہ تیرہ سال مکہ میں جماعت کی تیاری اور پھر مدینہ میں قومی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کی تربیت انسانی معاشرہ کی ترقی پر کی، جنھوں نے آگے چل کر بین الاقوامی انقلاب برپاکیا اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرایا۔
عقیدہ رسالت کا تقاضا
آج عقیدہ رسالت کا تقاضا ہے کہ ہر اس سوچ، فکر ونظریہ اور ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا چاہیے جو انسانیت پر ظلم قائم کیے ہوئے ہے اور انسانیت میں سماجی، سیاسی اور معاشی تقسیم کےعلمبردار ہیں، ہرطرح کے مالی وعلمی وسائل پر قابض ہیں۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عقیدہ رسالت کی اصل روح کو سمجھنے میں مدد دے، ہمیں اپنے اجتماعی کردار کی ادائیگی کا فہم اور توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین