ولی اللہی تعلیمات کی روشنی میں سماج کی تشکیل کی ضرورت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ولی اللہی تعلیمات کی روشنی میں سماج کی تشکیل کی ضرورت

    آج اگر وطنِ عزیز اور دیگر ممالک کا جائزہ لیا جائےتو پوری دنیا کا Global Villageہونے کے باوجود اس میں ہمیں تقسیم ہی تقسیم نظر آتی ہے۔...

    By Salman Nawaz Published on May 12, 2025 Views 331

    ولی اللہی تعلیمات کی روشنی میں سماج کی تشکیل کی ضرورت

    تحریر: سلمان نواز۔ بہاولپور


    آج اگر وطنِ عزیز اور دیگر ممالک کا جائزہ لیا جائےتو پوری دنیا کا Global Villageہونے کے باوجود اس میں ہمیں تقسیم ہی تقسیم نظر آتی ہے۔ جب کہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ پوری کائنات کو بنانے والی صرف ایک خدا کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات میں تو وحدت ہے، پھر دنیا ہمیں بٹی ہوئی کیوں نظر آتی ہے؟ جب اس دنیا کا خالق و مالک ایک ہے تو یہ دنیا کیوں علاقے، رنگ، مذاہب اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہے؟ کیا یہ تقسیم خداکی پیدا کردہ ہے یا فرعون صفت انسانوں کی؟ اور اگر یہ طبقاتی نظام انسان کا بنایا ہوا ہے تو اس سے جان چھڑوانے کی دین فطرت نے کیا راہ نمائی دی ہے؟

    آپﷺ نے فرمایا:خیرالناس من ینفع الناس۔ "تم میں سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔" 

    اس پوری کائنات میں انسانوں میں جو ایک چیز مشترک ہے وہ ہے ’’انسانیت‘‘۔ قرآن کا موضوع بھی انسان اور انسانی معاشرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت اور زمین پر نظام خلافت کے قیام کے لیے پیدا کیا ہے ۔ کیوں کہ عبادات کا اصل مقصد انسانیت کی بھلائی کے لیے نظامِ عدل کی تشکیل ہے ۔ پھر تمام انسانوں کو ایک نقطہ پہ اکٹھاکرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام انسانوں کو انسانوں کی مشترک انسانی اقدار کے ساتھ جوڑا جائے۔ جو کہ درج ذیل ہیں:

    1۔ وحدت فکر:

    وحدت فکر کا مطلب ہے کہ تمام افراد یا طبقات کو سیاسی امن، سماجی عدل اور معاشی خوش حالی جیسے عالم گیر اصولوں پر یکجا کیا جائے تاکہ معاشرت میں ہم آہنگی، برابری اور انصاف قائم ہو۔ اس میں ہر شخص کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور اس کے مطابق کسی بھی فرد کی حیثیت یا طبقہ کو اس سے مختلف نہیں سمجھا جائے۔ انسانیت کی بنیاد پہ تمام انسان برابر ہیں خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں۔

    کسی قوم، رنگ اور زبان کی بنیاد پر پہچان کا ہونا، اس سے تو کسی کو کوئی انکار نہیں۔ اس پہچان کی بنیاد پہ خود کو دوسروں کے مقابلے میں افضل و برتر سمجھنا اور باقی سب کو حقیر جاننا، زوال یافتہ قوموں کا شیوہ رہا ہے۔ انسان دنیا میں کہیں بھی رہتا ہو۔ بنیادی ضرورتیں سب کی ایک جیسی ہیں،جیسے ہر انسان کو پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہ کچھ چاہیے، یعنی بھوک ہر انسان کو لگتی ہے، ہر انسان نکاح کو پسند کرتاہے، شادی ذمہ داری کا نام ہے۔ جو ہر انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔

    اسی طرح طبقاتی فکر، تقسیم پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسی قوم، گروہ یا طبقہ جو خود کو دوسروں سے بہتر اور باقیوں کو حقیر سمجھنے لگ جائیں زوال کا شکار ہوجاتے ہیں، یعنی مفادِ عامہ کے نظریے کو چھوڑ کر آپنے آپ کو یہ سمجھنے لگ جائیں کہ اَب انہیں کسی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ خود کو عقل کل سمجھ بیٹھیں ۔ وہ کنوئیں کے مینڈک کی طرح اپنی محدود دنیا اور اپنے طبقاتی فکر کو سب سے جدا اور الگ سمجھتے ہیں۔


    2۔ کل انسانیت کا ترجمان سکول آف تھاٹ:

    اگر غور کیا جائے تو ہر قوم نے اپنے آپ کو اپنے ہی دائرہ میں بند کیا ہوا تھا۔ عیسائی، یہودی، ایرانی اور ہندوستانی سب اپنے آپ میں گم تھے،لیکن اسلام نے وحدت انسانیت کی بنیاد پے سب کو یکجاکیا۔ ایک ایسا قومی اور بین الاقوامی نظام دیا ،جس کی روح وحدتِ انسانیت ہے۔ قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ اپنا تعارف ’’الحمداللہ رب العٰلمین‘‘،"تمام اقوام عالم کا پالنے والا" سے کرواتا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کسی خاص علاقہ، خاص طبقہ یا خاص قوم کے لیے نہیں، بلکہ کل انسانیت کے لیے ہے ۔  قرآن وحدت انسانیت کی بات کرتا ہے، جس کی بنیادپر تمام قوموں کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔


    3۔ فطرت انسانی کی ترجمان، اخلاق اربعہ کی عالمگیریت:

    امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمایا: اللہ نے مجھے اپنے فضل سے یہ بات سمجھائی ہے کہ تمام تر نیکیوں کا منبع چار بنیادی عادات اور اخلاق ہیں، ان میں طہارت، اخبات الیٰ اللہ، سماحت اور عدالت ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت انھی چار اخلاق کی دعوت دینے اور ان پر قومی و بین الاقوامی نظاموں کی تشکیل کے لیے ہوتی ہے۔ اور ان پر نازل ہونے والی شریعتیں انھی چار اخلاق کی تفصیلات ہیں اور وہی ان شریعتوں کا محور و مرکز ہیں۔ ان چار اخلاق کے مجموعے سے پیدا ہونے والی مرکب حالت اور کیفیت کو ’’ فطرتِ انسانی ‘‘ کہا جاتا ہے۔     وہ چار اخلاق یہ ہیں:

    الف۔ طہارت:

    طہارت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ظاہری و باطنی صفائی، پاکیزگی کے ہیں ۔ طہارت کا تعلق صرف جسم سے ہی نہیں، بلکہ نظریہ اور عقیدہ سے بھی ہے۔ یعنی ایک ایسے نظریہ اور عقیدہ پہ سماج کی تشکیل کرنی ہے جو انسانیت کی بھلائی کے لیے ہو۔ طہارت اصل میں تیاری کا نام ہے،جس میں نیت اور جسم دونوں شامل ہیں۔ زوال زدہ معاشرہ کو زوال سے نکال کر عروج کی طرف لے جانے کی جو تیاری درکار ہے یہ اصل میں طہارت ہے۔

    ب۔ اخبات الیٰ اللہ:

    جب جسم و روح خود کو کسی بڑے انسانی مقصد کےلیے تیار کرلیں تو ضروری ہے کہ خدا کی ذات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ وہ کبھی بھی غیراللہ کے سامنے نہیں جھکے گا۔ اس کا اٹھایا ہو ایک ایک قدم اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے ہوگا۔ اخبات الیٰ اللہ کے ذریعہ ہی اس کے اندر بہادری ، حریت ، جرات اور بلند ہمتی والی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ 

    ج۔سماحت:

    یہ ایک ایسا خلق ہے، جس کے ذریعے انسان دوسروں کے ساتھ نرم دلی، معاف کرنے اور برداشت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ سب سے بڑا کام انسانیت کی خدمت ہے اگر کوئی خود کو اس کام کے لیے تیار کر لے گو اس نے خود کو خدا کے آگے جھکا دیا اور بلند نفسی یہی ہے کہ کوئی بھی کام رائے کلی اور مفادِ عامہ کے خلاف نہ کیا جائے۔

    د۔ عدالت:

    سماجی نظام کی تشکیل کے لیے بنیادی اہمیت اسی خلق کو حاصل ہے۔ رائے کلی اور مفادِعامہ کی سیاست اسی خلق کے ذریعے ہی ممکن ہے،جس معاشرے میں عدل نہیں ہوگا وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ 

    اخلاق اربعہ کی اہمیت:

    یہ وہ اخلاق ہیں جنھیں دنیا کا کوئی شخص خواہ وہ افریقا کے جنگلوں میں رہنے والا ہو یا یورپ کی چمک دمک میں یا ایشیا میں ان کا انکار نہیں کرسکتا۔ یہی وہ اخلاق ہیں جن کی تکمیل سے انسانیت کو ترقی ملتی ہے۔ آج اگر دنیا کا جائزہ لیا جائے تو چینیوں کا فلسفہ اخلاق ہو یا ہندوؤں کا مذہبی فکر یا ایرانیوں کا نظام حیات یا یونانیوں کی حکمت اور قدیم مصریوں کا مذہب کسی نہ کسی صورت ان اخلاق کو اپنے اندر پیدا کرنے اور ان کی ضد سے بچنے کی تاکید ملے گی۔

    پاکستانی معاشرہ کی ضرورت:

    آج وطنِ عزیز میں زوال کی بد ترین شکل موجود ہے  اور ان حالات میں ان اخلاق اربعہ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ آج اس چیز کی ضرورت ہے کہ ان اخلاق کی بنیاد پہ ایک جماعت بنائی جائے ۔ جماعت کے ہر ہر فر د کی تربیت کی جائے  اور ان اخلاق اربعہ کی روشنی میں قومی نظام تشکیل دیا جائے ۔ واحد یہی وہ اخلاق ہیں جن کے ذریعے وحدت انسانیت کی بنیاد پہ بین الاقوامی نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ 

    آپﷺ رحمت العٰلمین ہیں ۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ میں بھی یہی اخلاق پیدا کیے۔ اوراسی بنیاد پہ قومی نظام قائم کیا اوربین الاقوامی نظام کی بنیادیں استوار کیں۔ آپﷺ کے بعد آپ ؐ کےصحابہ کرامؓ نے عملاً بین الاقوامی نظام قائم کیا۔ 

    آج ضرورت ہے کہ آپﷺ کی اس سنت کو زندہ کیا جائے اور ان اخلاق کی روشنی میں بین الاقوامی نظام قائم کیا جائے، تاکہ آپ ﷺ کی رحمت سے پوری دنیا مستفید ہو۔

    Share via Whatsapp