اعلیٰ فکرونظریے کی اساس پر معاشرتی تشکیل کی ضرورت
انسانی تاریخ نے دیکھا ہےکہ بغیر کسی اعلیٰ نظریے اور پروگرام کے ایک قوم کے دوسری قوم پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی کشمش نے انسانیت کو عذاب میں مبتلا کیا
اعلیٰ فکرونظریے کی اساس پر معاشرتی تشکیل کی ضرورت
عابد حسین کولاچی، کراچی
اجتماعی حوالے سے جائزہ لیں تو ہر قوم ایک فکر و نظریہ رکھتی ہے، جس کی بنیاد پر اپنا تمدن تشکیل دیتی ہے ۔اجتماعی مسائل کا حل پیش کرتی ہے ۔ معاشرتی امور کو چلانے کا ایک عملی ڈھانچہ تشکیل دیتی ہے ،جن اقوام کا فکر و نظریہ اپنے دائرے تک محدود رہتا ہے ، اپنی قوم سے آگے ان کاکوئی تصور نہیں ہوتا ،ایسی اقوام رجعت پسندی میں مبتلا رہتی ہیں۔ وہ جزوی طور پر کچھ ترقی کرجاتی ہیں، مگر ان قوموں کے پاس کوئی مثبت اور جامع پروگرام اور نظریہ نہیں ہوتا۔ ایسی اقوام یا تو تنہا رہ جاتی ہیں یا پھر دوسری قوموں کے آگے سر جھکا لیتی ہیں۔ طاقت ور اقوام ایسی قوم کو غلام بنا لیتی ہیں۔انسانی تاریخ نے دیکھا ہےکہ بغیر کسی اعلیٰ نظریے اور پروگرام کے ایک قوم کے دوسری قوم پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی کشمکش نے انسانیت کو نہ صرف ترقی سے روکا ہے، بلکہ زوال کی طرف دھکیلا ہے۔
اسی تناظر میں مسلم دورِحکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بڑی واضح نظر آتی ہے کہ مسلمانوں میں نہ صرف کل انسانیت کا اعلیٰ نظریہ اور جامع فکر موجود ہے، بلکہ عملی طور پر اس کو نافذکرنے کی حکمت عملی بھی ہے۔ حضور اکرمﷺ کل انسانیت کے لیے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے۔ آپؐ نے دینِ اسلا م کی صورت میں کل انسانیت کے لیے اعلیٰ فکرو فلسفہ دیا،جس کی اساس پر قومی اور بین الاقوامی نظام بنا ۔آپؐ کی جماعت نے دنیا کی تمام اقوام کو آزادی دِلائی ، انسانیت کو زوال سے نکالا۔اس اعلیٰ فکرو نظریے پر قائم تمدن نے 1000 سالہ دور تک کل انسانیت کے نہ صرف مسائل کا حل پیش کیا، بلکہ ترقی کی راہ پر بھی گامزن کیا۔
جب سے مسلم اجتماعیت نے دینِ اسلام کے اعلیٰ فکر اور نظریے پر عملی نظام بنانے میں لاپرواہی برتی ہے، تب سے ایسے بین الاقوامی نظام غلبہ پاچکے ہیں، جن کوانسانیت سے کوئی سروکار نہیں، جس کا مرکز و محور صرف اور صرف سرمایہ ہے اور اس سرمایہ داری نظام کی بھاگ دوڑ سرمائے سے شروع اور سرمائے پر ختم ہوتی ہے،جن ممالک میں یہ نظام غالب ہے، وہاں مخصوص افراد کے پاس بے انتہا دولت ہے اور انسانوں کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ جدید سرمایہ داری کے اس انسان دشمن نظام نے انسانیت کو پستی اور ذِلت کی طرف دھکیل دیا ہے۔
جب بھی کوئی قوم اپنے قومی اور اجتماعی فکر و نظریے سے دور ہوجاتی ہے تو اس قوم کے اندر ایمان دار قیادت پیدا نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ قوم پر بے ایمان، تملق پسند،مفادپرستوں کا ٹولا مسلط رہتا ہےاور اقتدار کی طاقت سے معاشرے کو زوال پذیر رکھتا ہے۔ ایسے مفادپرستوں کا ٹولا اپنے عیاشی کے ساز وسامان کے لیے قوم کے محنت کش طبقوں پرظالمانہ ٹکیسز لگاتا ہے،جس سے قوم قومی سوچ سے بھی عاری ہوجاتی ہے اور دو وقت کی روٹی کی بھاگ دوڑ میں دن رات مشقت اُٹھاتی ہے۔ یوں قوم اپنا وقار اور عزت کھو دیتی ہے اور اس پر بھوک ، بدحالی اور خوف و ہراس کی کالی چادر چھا جاتی ہے ، مہنگائی اور قحط کے عذاب میں مبتلا رہتی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ وطنِ عزیز پاکستا ن کا تحلیل و تجزیہ کریں کہ اس کی معاشرتی حالت کیسی ہے؟اقتدار پر فائز لوگ کس سوچ کے حامل ہیں اور عوام کے مسائل کے حل کرنے کا کون سا اور کتنا بڑا پروگرام رکھتے ہیں؟اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کریں کہ کیا ہم اعلیٰ فکر و نظریہ کی بنیاد پر باصلاحیت ایمان دار قیادت پیدا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے!آج ہمارے نوجوان کو غور وفکر کرنا ہوگا،وہ اِنفرادیت سے نکلے ، اجتماعی بنیادوں پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرے، دینِ اسلام کے اعلیٰ فکرونظریہ کا شعور حاصل کرے ، اس کے فروغ کی جدوجہد کرے ،منظم قوت بنے۔ قومی حالت بدلنے کا یہی راستہ ہے،ورنہ معاشرہ روزبروز تباہی کی طرف بڑھ رہا ہےاور یہ تباہی اِنفرادی نہیں اجتماعی ہے۔