نظام ظلم پر غورو فکر کی ضرورت یا اندھی تقلید
نظامِ ظلم میں حق اور باطل کی تمیز کرنا اس وقت مشکل ہوتا ہے جب عوام بغیر تحقیق اور اندھی تقلید کی وجہ سے باطل کی صف میں غیرارادی طور پرکھڑےنظرآتے ہیں۔
نظام ظلم پر غورو فکر کی ضرورت یا اندھی تقلید
تحریر: حسنین خان۔ دوبئی
نوجوان اپنے روایتی جوش وجذبات اور دوراندیشی نہ ہونے کے سبب عموماً جذبات کی رو میں اتنا بہہ جاتے ہیں کہ اچھے اور بُرے میں فرق کرنا بھول جاتے ہیں۔ہرعہد اور ہر زمانہ انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔لیکن اکثریت نظام کے پیدا کیے ہوئے مایوس کن حالات کے سبب جدوجہد یا اس سے پہلے مقاصد پر غور کرنے کے بجائے خواہشات کو خدا بنالیتے ہیں ۔
خواہش میں غوروفکر کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ ان کے اندر غور وفکر کاعنصر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے-جبکہ غورو فکر انسان میں سطحی جذباتیت اور وقتی جوش کے بجائے تحمل اور استقامت پیدا کرتا ہے ۔
ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اپنی رائے اور خواہش یا جذبات کے مطابق بات کسی سے سن لیں تو بس اس پر سر دُھننے لگتے ہیں۔اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ محض سر دُھنتے اور وقتی نعروں اور جذباتی اُبال سے کسی بڑے مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا اور سیرت النبی صلی اللّہ علیہ وسلم اور انبیا علیہم السلام کی جدوجہد کا مطالعہ اس کی گواہی دیتا ہے۔
ہمارا دین جس کو لے کر آج ہم جذبات کی رو میں غلط روش پر گامزن ہیں، وہ عقل و شعور سے کام لینے کا حکم دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے :
فَإِنَّهَا لَا تَعۡمَى ٱلۡأَبۡصَٰرُ وَلَٰكِن تَعۡمَى ٱلۡقُلُوبُ ٱلَّتِي فِي ٱلصُّدُورِ ٤٦ (سورہ حج ـ46)
ترجمہ: حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔
سو جو شخص اپنے جذبات کے پیچھے چلتا ہے تو وہ عقل و خرد سے کیسے کام لے سکتا ہے۔ ایسے لوگ تو انسانی سطح زندگی تک پہنچے ہی نہیں،محض حیوانی سطح پر زندگی بسر کرتے ہیں، بلکہ چوپایوں سے بھی بدتر ہیں۔ اس لیے کہ حیوانات کم از کم اپنے جبلی تقاضوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ اسی لیے دینِ اسلام جگہ جگہ عقل سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ شَرَّ ٱلدَّوَآبِّ عِندَ ٱللَّهِ ٱلصُّمُّ ٱلۡبُكۡمُ ٱلَّذِينَ لَا يَعۡقِلُونَ ٢٢ (سورہ انفال ـ22)
ترجمہ: اللہ کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین یقینا وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔
چلیں، اَب واضح کرتے ہیں کہ شروع میں جو بات لکھی تھی کہ "کاش نبی پاک ﷺکے دور میں پیدا ہوتے"، کی وَجہ کیا تھی۔
اگر ہم تاریخ کے کسی بھی عہد کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جن لوگوں نے عقل و خرد سے کام نہیں لیا وہ ہمیشہ باطل(ناکام لوگوں) کی صف میں کھڑے ملے ہیں، اگرچہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم حق پر ہیں۔ اگر ہم حضرت موسی علیہ السلام کے دور کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جو لوگ محض جذبات اور اپنے آباؤ اجداد کے دین یا نظام کے پروپیگنڈے کے پیچھے رہے ہیں وہ فرعون کے حمایتی نظر آئیں گے۔ اگرچہ انھیں نظر آرہا تھا کہ فرعون ایک ظالم حکمران ہے، لیکن سمجھنے سے قاصر تھے۔جب بھی مشاہدہ کریں تو یہی دیکھنے کو ملےگا کہ جنھوں نے عقل سے کام نہیں لیا، بلکہ اپنی عیاشیوں میں مگن رہے۔ وہ ھی خسرالدنیا والآخرۃ کے شکارطبقے میں شامل ہوئے نظر آئے۔
بالکل اسی طرح اگر ہم نبی پاک کے دور کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت و رسالت کا اعلان نہیں کیا تھا، اس وقت آپﷺ مکہ میں ایک عقل مند ودانش ور، امین وصادق اور اچھے انسان سے جانے جاتے تھے۔ لیکن جب آپﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا؛ تو لوگوں نے آپﷺ کوجادوگر اور کاہن وساحر جیسے معیوب القابات سے مشہور کرنے کی کوشش کی، تاکہ لوگ آپﷺ کے قریب نہ آئیں اور آپﷺ کی باتیں نہ سنیں۔ اور اس طریقے سے اس وقت کے بالادست طبقے نے نوجوانوں کو جذبات کی رو میں بہا کر آپﷺ پر طرح طرح کے ظلم کروائے اور اس وقت جو طائف کے نوجوان تھے جو سمجھتے تھے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے دین اور نظام کا دفاع کر رہے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی، لیکن وہ شعور نہیں رکھتے تھے۔
تو آج نوجوان کوغور کرنا چاہیے کہ ہم پس ماندہ کیوں ہیں ،کیا ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں یا ہم میں صلاحیت نہیں ہے ، کہیں ہمارا رویہ وہی تو نہیں جو انبیائے کرام علیہم السلام کے دور کے مخالفین کا تھا کہ جنھوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر حق کی مخالفت کی اور عقل سے کام نہ لیا ۔یعنی اپنی صلاحیتوں کو نہ پہچانا کہ وہ دنیا کی قیادت کے لیے اس وقت تک اہل نہیں ہوسکتے جب تک وہ مفادپرست اور خودغرض سرداروں کا ساتھ نہیں چھوڑتے-
جب خدا کا وہ ضابطہ قوانین جو ٹھوس حقائق اپنے اندر رکھتا ہے ان کی طرف آتا ہے تو عقل سے کام نہ لینے والے اس کو جھٹلا دیتے ہیں اور جس انقلاب کا اس میں ذکر کیا گیا ہے اس کی ہنسی اڑانے لگتے ہیں۔اگر آج ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم واقعی حق کے ساتھ کھڑے ہیں تو ہمیں اس چیز پر نظر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے کہ آیا ہم عقل و خرد سے کام لے رہے ہیں، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا رہے ہیں، گروہی مفادات اور اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کرسوچ رہے ہیں یا سرمایہ دارانہ مفاد کے ترجمان میڈیا کے بہاؤ میں بہہ رہے ہیں؟ بنیادی طور پر، جب ہم بغیر غوروفکر کے اندھی تقلید شروع کرتے ہیں تو بالواسطہ طور پر سرمایہ دارانہ اور ظلم کے نظام کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔ اور ہمارا کردار ایک آلہ کار سے زیادہ نہیں ہوتا، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں میں سوال اُبھارنے کی صلاحیت کو اجاگر کیا جائے، تاکہ وہ سچائی تک پہنچ سکیں اور اس ظلم کے نظام کا نعم البدل ڈھونڈ سکیں۔