اللہ مہربان کے نام سے دلی وابستگی کا اظہار
بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تفسیر
مفسرِ قرآن : مفتی عبد
الخالق آزاد رائے پوری ۔ لاہور
)شروع اللہ کے نام سے ، جو بے
حد مہربان، نہایت رحم والا ہے۔(
مسلمان جب بھی کوئی کام شروع
کرے تو اُسے اپنے آپ کو اللہ مہربان کے نام کے ساتھ دِلی وابستگی کا اظہار کرنا چاہئے۔
اس سے انسان شیطانی اثرات سے بچ جاتا ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ کی رحمت اور شفقت کے
سائے میں آجاتا ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے نام
کے ساتھ اپنے تمام کاموں کا آغاز کریں۔
بسم: ہر اسم اپنے مسمّٰی اور
مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ اسم ”اللہ“ ہمیں ذاتِ باری کے ساتھ وابستہ کرتا ہے۔ یہ
ذاتِ باری تعالیٰ کا اسم مبارک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ذاتِ باری تعالیٰ کا
ادراک نہیں کرسکتا، البتہ اس کا نام لے کر اُس کے ساتھ محبت اور وابستگی کا اظہار
کرسکتا ہے۔ اس لئے اللہ کے نام کے ساتھ دِلی وابستگی کا حکم دیا گیا ہے۔ اسم ”اللہ“: اپنے لفظی مفہوم میں جذب و
کشش اور محبت پر دلالت کرتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ”انسانی روحیں ”اللہ“ کے حضور کچھ اس طرح کھنچتی
ہیں، جیسا کہ مقناطیس کی طرف لوہا کھنچتا ہے۔“ (حجۃ اللّٰہ البالغہ) یہ
اسم مبارک انسانی روحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ انسان جتنا خلوصِ نیت اور پاکیزگی
کے ساتھ یہ پاک نام لیتا ہے اور عشق و محبت کے ساتھ اس سے وابستگی کا اظہار کرتا
ہے، اُتنا ہی وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے، جو دنیا اور آخرت کی
کامیابی کا سبب ہے۔
الرحمن: اللہ کے ناموں میں سے ایک
ایسا صفاتی نام ہے، جس کے زیراثر اس دنیا اور خاص طور پر انسانی روحوں پر اللہ کی
بے حد مہربانی ہوتی ہے۔ یہ مبالغے کا صیغہ ہے۔ دنیا کا نظام اللہ کے اسی بے حد
مہربان نام ”الرحمن“ کی وجہ سے چل رہا ہے۔ اللہ
کی رحمت وشفقت او رمہربانی سے ہی یہ کائنات اور اس میں موجود انسانیت قائم ہے۔
اسمِ اللہ کے بعد اُس کی صفت الرحمن کے ساتھ وابستگی انسان کی کامیابی کی دلیل ہے۔
الرحیم: یہ بھی اللہ کے ناموں میں سے
ایک ایسا صفاتی نام ہے، جو مبالغے کی حد تک شفقت اور مہربانی کا حامل ہے۔ اس اسم
سے نہ صرف دنیا، بلکہ آخرت میں بھی انسانیت کی کامیابی کے لئے ذاتِ باری تعالیٰ کےلُطف
و مہربانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
بسم اللہ پڑھنے سے انسان اللہ تبارک
و تعالیٰ کے حضور میں اپنے آپ کو پیش کرکے اُس سے دِلی وابستگی کا اعلان کرتا ہے۔
یوں ہر طرح کی خیر و برکت کا مستحق بن جاتا ہے۔ قرآن حکیم کی تلاوت سے پہلے اس کا
پڑھنا باعث ِبرکت ہے۔ اسی لئے سورتوں کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا گیا ہے۔ برکت کا ایک
پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف جذب و کشش سے انسانی روح و قلب میں تازگی پیدا
ہوجاتی ہے اور وہ زیادہ ہمت اور جذبے کے ساتھ قرآن حکیم کے انقلاب آفرین پیغام کو
سمجھتا او راُس کے ساتھ وابستہ ہوکر اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا
ہے۔