اسلام اور کفر سماجی تناظر میں
اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے اس نظریے کو اپنانے کا مقصد انسانی زندگی ترقی کی معراج تک پہنچ سکے۔کفر وہ رکاوٹ ہے جو انسانی ترقی کی راہ میں حائل ہے۔
" اسلام اور کفر سماجی تناظر
میں"
تحریر ؛ شیر افضل خان ، کراچی
اس دور کے دو معروف نظام سرمایہ داریت
اور اشتراکیت سماج کے حقیقی مسائل اور انسان کی مکمل فطری ضروریات پورا کرنے میں ناکام
ہوگئے ہیں ۔ ان نظاموں کی خرابی نے انسانوں کو بھوک اور افلاس میں مبتلا کیا ، جنگی
ماحول کو جنم دیا ، جس کی مثال مشرق وسطی ، ایشیا و افریقہ اور تیسری دنیا کے ممالک
ہیں جہاں انسانی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے ۔ ان ممالک کے قومی وسائل کو وہاں کی اشرافیہ
اور سرمایہ دارانہ نظام کے موجد ممالک لوٹ کھسوٹ کے ذریعے لے جا رہے ہیں ۔
دین اسلام کی حیثیت
دین اسلام امن کا داعی ہے
اور یہ انسانی سوسائٹی کے مسائل حل کرنے آیا ہے مگر آج دنیا میں اسلام کا غلبہ نہیں
ہے جب کہ دنیا میں ایک دور ایسا گزرا ہے کہ اسلام کے سیاسی و معاشی غلبے کے نتیجے میں
، دنیا امن و سکون اور خوشحالی میں تھی ۔ انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق میسر تھے ۔
ریاستی اداروں نے عدل و انصاف کی اساس پر انسانی مسائل حل کیے ۔ جس کی مثال خلافت راشدہ
کے عہد سے لے کر خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت کے عروج کے دور تک کی تاریخ ہے ۔
مسلمانوں کے زوال کے اسباب
مسلمانوں کے عروج سے زوال
میں آنے کے اسباب میں سے بنیادی سبب یہ بنا کہ
انہوں نے اللہ پاک کی بھیجی ہوئی ہدایت قرآن حکیم سے رہنمائی لینی چھوڑ دی
۔دور کے بدلتے حالات کو سنجیدگی سےنہیں لیا جس کا فائدہ دشمنوں نے اٹھایا اور سیاسی
شکست دے دی ۔
مغرب کے فکری حملے کی صورتیں
فکری نقصان کی غرض سے مستشرقین
( دین اسلام اور اس کے غلبے کے دور پر اعتراضات کرنے کے لیے تیار کیے جانے والے ذہین
جدید دانشور طبقے ) کے ذریعے سے اسلام کی اصل تاریخ بدل دی گئی۔ اپنی مرضی کی تاریخ
اور کتابیں لکھوا کر / ترجمے کروا کر باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے تعلیمی نظام میں رائج
اور عوامی حلقوں تک پہنچائیں گئیں ۔ اپنے من پسند علماء کے ذریعے سےقرآن حکیم کی آیات
و احادیث کو ان کے اصل محل اور مقام سے کاٹ کر پیش کرایا گیا جس کے نتیجے میں نئے فرقے
اور گروہ وجود میں آئے ، ان کے آپس کے اختلافات کی آمیزش سے معاشرے میں انارکی و فساد
پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کیے گئے ۔ لیکن علماء ربانین اور ان کے جانشین حضرات علمائے
حق ، دشمنان اسلام کی ان سازشوں سے مسلسل باخبر رہے ، ان کے مذموم ارادوں کو ناکام
بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے اور اپنی جان و مال تک کا نذرانہ اس مقدس راہ میں
پیش کرتے رہے ۔
تعارف موضوع
پیش نظر موضوع میں
• اسلام اور کفر کا مفہوم ،
سماج میں اس کے رونما ہونے والے اثرات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے ۔
• اسلام
اور کفر کی حقیقی تعریف اور ان کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے ۔
اسلام اور کفر سماجی تناظر
میں
مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم
کا ارشاد گرامی ہے :
" قرآن مجید نے امم و اقوام
سابقہ کا تذکرہ بار بار کیا ہے ۔ صرف اس لیے کہ قانون ہدایت و شقاوت کے نتائج پر انسان
کو توجہ دلائی جائے ۔ جابجا ان اقوامِ عظیمہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آنے والی اقوام
سے زیادہ قوی و مستحکم تمدن رکھتی تھیں لیکن جب انہوں نے احکامِ الٰہیہ کو پس پشت ڈال
دیا اور خدا کی حکومت میں رہ کر اس سے بغاوت و سرکشی شروع کر دی تو کوئی انسانی سعی
اور تلاشِ فلاح ان کو ہلاکت و بربادی سے نہ بچا سکی ۔ یہاں تک کہ آج ان کے آثار ( نشانات
) بھی دنیا میں باقی نہیں رہے ۔
مفہومِ اسلام
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً.( البقره ، 2: 30 )
ترجمہ’’ اللہ پاک نے فرشتوں
سے فرمایا ؛ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘۔
اللہ پاک نے انسان کو اپنا
خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا اور اسے اپنی تمام پیدا کردہ مخلوقات میں سب سے افضل
یعنی اشرف المخلوقات کا درجہ عنایت کیا تاکہ یہ زمین پر اللہ کا نائب ہونے کی حیثیت
سے اپنی ذمہ داری سر انجام دیتے ہوئے تمام مخلوقات کی خدمت کرے ۔ بہتر و منظم طریقے
سے وسائل کی عادلانہ تقسیم کرے اور ظالم قوتوں کو برسر اقتدار آنے سے روکے کیونکہ ان
قوتوں کا غلبہ انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے ۔
انبیاء و رسل کی آمد
انسانی شعور کی آبیاری کے لیے اللہ پاک
نے ہر دور میں اپنے رسول اور پیغمبر انسانوں کی رہنمائی وہدایت کےلیے بھیجے تاکہ انسانی
عقل بلند و بالا ہو کر شعوری بنیادوں پر خالق حقیقی کی وحدانیت کو سمجھتے ہوئے اس کائنات
کی حقیقت کو سمجھ سکے اور عقلی طور پر یہ اقرار کرے کہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کی ذات
کے اس کائنات کا کوئی اور خالق نہیں یعنی اللہ پاک کو معبود برحق تصور کرے اور اس کی
بندگی کرے ، اس کی کتابِ مقدس قرآن حکیم کو ہدایت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے عمل کرے ۔
قرآن کریم کا تقاضا
قرآن حکیم اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا
کرتا ہے کہ وہ سوسائٹی میں اس کی فکر رائج کریں جس سے انسانی مسائل حل ہوں ، انسانی
وقار بلند و بالا ہو ، انسانی سماج ایک کنبہ
کی شکل میں رہن سہن اختیار کرے اور ایسا معاشرہ ترتیب دے جس میں ایسی صفات کا اظہار
ہو جس سے انسان کا کردار ، حقیقی طور پر اشرف المخلوقات والا ظاہر ہو ۔
اسلام کا مفہوم
اسلام کے معنی سلامتی کے ہیں یعنی ایسا
مذہب جس کی پناہ میں امن ، سکھ ، چین اور سکون و آرام ملے ۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ
بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
ترجمہ ”وہی (اللہ) ہے جس
نے اپنے رسول حضرت ( محمد ﷺ ) کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان
پر غالب کر دے ، چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو ۔ “
پیغمبر دوعالم محمد مصطفیٰ
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآنی فکر کی اساس پر عرب معاشرے کی تشکیل نو کی اور
ایک مربوط و منظم ، باشعور اجتماعیت کا قیام عمل میں لائے جس کے ذریعے سے عرب سوسائٹی
کو زوال شدہ حالت سے نکال کر کامیابی و کامرانی کی راہ پر گامزن کیا اوراسی کو بنیاد
بنا کر پوری دنیا میں قرآنی اساس پر انقلابات برپا کیے ، ایک ایسا عدل و انصاف کا صالح
نظام تشکیل دیا جس نے انسانی معاشرے کے ، انفرایت سے لےکر بین الاقوامی سطح تک کے مسائل
حل کیے ۔ اسلام سوسائٹی میں کفر و طاغوت کے نظاموں کو ختم کرکے عدل و انصاف کی اساس
پر نظاموں کو قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ انسانیت ترقی کی معراج کو پہنچے ۔
کفر کا مفہوم
الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدُّواعَن
سَبِیلِ اللہِ اَضَلَّ اَعمَالَھُم ( سورہ محمد ، آیت نمبر 1 )
ترجمہ: ”جن لوگوں نے کفر
کیا ( صرف دشمنی کے سبب اس تعلیم سے انکار کیا ) اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا ، اللہ نے ان کے اعمال اکارت ( ضائع ) کردیے
۔“
امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی رح
نے سورہ محمد کی آیت نمبر ؛ 1 کی تشریح میں کفر کا مفہوم اور معنیٰ تفصیل سے بیان فرمائے
ہیں ۔
الَّذِینَ کَفَرُوا ”جن لوگوں
نے دشمنی کی راہ ، سے انکار کیا “ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآنی انقلاب کی تعلیم
کو ماننے سے انکار کر دیا اور سوچ سمجھ کر اس کی مخالفت کرنے لگے ۔
وَصَدُّواعَن سَبِیلِ اللہِ ” لوگوں کو اللہ کی راہ پر چلنے سےروکا “ انہوں
نے قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے والے انقلابیوں کے لیے ایسے حالات پید اکردینے کی کوشش
کی کہ وہ اس تعلیم پر آزادی کے ساتھ عمل نہ کرسکیں ۔ مثلاً ان کے خلاف طرح طرح کی افواہیں
اور غلط فہمیاں پھیلائیں ، تکلیفیں دیں ، بائیکاٹ کیا ، انہیں قید کیا بلکہ بعض کو
قتل کردیا ۔ جب یہ انقلابی ( صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ) ان مصیبتوں سے بچنے
کے لیے اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ کر دوسرے ملک میں چلے گئے تو وہاں بھی ان کا پیچھا
نہ چھوڑا اور وہاں سے گرفتار کر کے لانے کی کوششیں کیں ۔
اَضَلَّ اَعمَالَھُم ” اللہ
تعالیٰ نے ان رجعت پسندوں ( غلط طرز فکر و عمل والے ) کے اعمال اکارت کردیے“
یہ لوگ اپنی ان کاروائیوں
سے جو وہ ان مسلم انقلابیوں کے خلاف کر رہے تھے ، کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور قرآن
حکیم پر لوگوں کے اجتماع کو روک نہ سکے ۔ اب جو انہوں نے جنگ کے ذریعے سے انقلاب کو
روکنے کی کوشش کی تو یہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔ اگر رجعت پسندی کے مقابلے
میں یہ انقلابی طاقتور نہ ہوئے تو رجعت پسندی تمام دنیا پر چھا جائے گی اور انسانیت
کو تباہ کردے گی ۔
کافر کا مفہوم
قرآن حکیم دین کے غلبے کی
اپنی اس فکر کے مخالفین کو کافر شمار کرتا ہے جو قرآنی فکر ( ظلم کے سسٹم کے خاتمے
اور نظام عدل کے قیام ) کے معاشرے میں ، غالب آنے کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور سوسائٹی میں اس اعلی فکر کی حاکمیت قائم نہیں ہونے
دیتے ۔ یہ وہ گروہ ہے جو اپنی مفادپرستی و خودغرضی کی اندھی ہوس میں مبتلا ہو کر ،
اللہ پاک کے پیدا کردہ وسائل کو اپنی جاگیر سمجھتا اور تمام انسانوں کو اپنا غلام اور
حقیر جانتا ہے ۔ اس کی مثال حضور اکرمؐ کے دور میں سردارانِ مکہ ابوجہل ، عتبہ ، شیبہ
وغیرہ اور قیصر روم و کسریٰ ایران تھے ، جنہوں نے اللہ پاک کے بھیجے ہوئے رسولؐ اور
ان کی تیار کردہ جماعت صحابؓہ کومٹانا چاہا تاکہ قرآنی فکر کی اساس پر سوسائٹی کی تعمیر
نہ ہو سکے اور یہ ظالم قوتیں ہمیشہ خودغرضی و مفاد پرستی کی ہوس میں مبتلا رہتے ہوئے
، تمام انسانوں کی بربادی و تباہی کا سبب بنیں ۔
کفر کے غلبے کے سماج پر اثرات
قرآن حکیم نے مذکورہ بالا
گروہ سے جہاد کرنا فرض قرار دیا اور ان کا قلع قمع سوسائٹی کی ترقی کے لیے لازمی قرار
دیا ہے ، ان کا بنایا ہوا ظالمانہ نظام معاشرے کے تمام طبقات کے لیے ناسور ہے ، اسے
مٹانا ہی مقصد اصلی ہے ۔
اس نظام کے ذریعے یہ گروہ
معاشرے سے انسانی شعور ختم کرتا ہے ، ان کی عقل سلب کرتا ہے ، انہیں ذہنی و جسمانی
غلام بناتا ہے ، رجعت پسندی کو فروغ دے کر معاشرے سے بےراہ روی اور انتشار کی فضا قائم
کرتا ہے تاکہ تمام انسان خوف کی کیفیت میں مبتلا رہیں ، سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے
ذریعے معاشرے کے وسائل پر قبضہ کر کے عوام الناس کو معاشی طور پر کمزور کر دیتا ہےجس
سے سوسائٹی میں بھوک و افلاس اپنا ڈیرہ ڈال لیتی ہے ، انسانوں کی سیاسی و معاشی آزادی
سلب ہو جاتی ہے اور عام انسانوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ سرمایہ ہی اصل ہے باقی تمام
چیزیں اس کے زیرِدست ہیں ۔معاشرے میں یہ فکر رائج کرائی جاتی ہے کہ جس کے پاس سرمایہ
ہے وہی معتبر اور بڑا آدمی ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور اُس کو ہی یہ حق حاصل
ہے کہ وہ اس زمین پر خوش وخرم زندگی بسر کرے ۔ اس سے معاشرے میں جہاں تمام شعبے متأثر
ہوتے ہیں وہیں انسانوں میں لالچ ، حق سلبی ، تملق ، جاہ پرستی ، خودغرضی ، وعدہ خلافی
، جھوٹ ، فریب اور بد اخلاقی جیسے امراض جنم لے کر معاشرے کو تباہی و بربادی کی جانب
دھکیل دیتے ہیں اور انسانی زندگی اسی غلامانہ ذہنیت میں مبتلا ہو کر جمود کا شکار ہوجاتی
ہے ۔ معاشرے میں عدل و انصاف کی جگہ ظلم عام ہو جاتا ہے اور اس کے اثرات انسانی زندگی
کے تمام شعبوں میں واضح نظر آتے ہیں ، سوسائٹی کے معزز شعبے سیاست ، معیشت ، تعلیم
بلکہ دیگر تمام شعبے بھی اپنی افادیت کھو دیتے ہیں ، صرف بالا دست طبقہ کا ہی فائدہ
ہو تا ہے ، باقی سوسائٹی کے تمام افراد کی بربادی ہوتی ہے ۔ اس طرح کے فرسودہ نظاموں
کے سماج میں بُرے اثرات سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ قرآن حکیم سابقہ تباہ شدہ معاشروں
کا تذکرہ محض اس لیے کرتا ہے کہ اس سے آنے والے تمام انسان سبق حاصل کر سکیں ، زوال
پذیر معاشرے کے اسباب اور ترقی یافتہ معاشرے کی خصوصیات کا شعوری بنیادوں پر تجزیہ
کر کے فیصلہ کرسکیں کہ کس راستے پر چلنا ہے ؟ کن اصولوں پر معاشرہ ترتیب دینا ہے جو
تمام انسانوں کی فلاح کا ضامن بنے ۔
اسلام کے سماجی اثرات (قرآنی
شعور انقلاب)
جب اللہ پاک نے ان ظالم قوتوں
کو برباد کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اپنی مخلوق کو ان کے سرکش نظام سے آزادی دلانے کے
لیے انبیاء و رسل بھیجے ۔ انبیاء علیہم الصلاۃ
والسلام نے اپنے ادوار میں سوسائٹی کے پسے ہوئے طبقے کے حق میں ظالم قوتوں کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی
بلکہ ان قوتوں کا خاتمہ اپنی زندگی کا بنیادی مقصد قرار دیا جس کے نتیجے میں معاشرے
سے رائج ظالمانہ نظام ختم ہوا اور انسانیت کو نجات ملی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے وقت کے بادشاہ نمرود کے ظالمانہ نظام کے
خلاف ، انسانیت کی آزادی کے لیے جدوجہد کی جس پر نمرودی نظام نے انہیں مختلف طرح سے
اذیتیں دیں ، پورے شہر کے لوگوں کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی آگ
کی نذر کر دیا مگر اللہ پاک کی ذات نے انہیں نجات دی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے
دور کے ظالم بادشاہ فرعون ، اس کے معاشی پیروکار قارون ، مذہبی پیشوا ھامان کے خلاف
کلمۂ حق بلند کیا اور ان کے بنائے ہوئے ظلم پر مبنی غلامی کے نظام سے بنی اسرائیل کو
آزادی دلانے کی بات کی ۔ پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وسلم نے
اپنے دور کی ظالم قوتوں کو منظم حکمت عملی کے تحت ، نظم و ضبط کی حامل جماعت کے ذریعے
مغلوب کیا اور ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جس کی مثال آج تک دنیا میں نہیں ملتی ۔
حضور اکرمؐ نے تمام انسانوں
کے لیے عدل و انصاف کا نظام قائم کیا ۔ انسانی عقل کی غذا شعور کو معاشرے میں عام کیا
۔ ان کی ذہنی صلاحتیوں کو وسعت دے کر انہیں معاشرے کا صاحب فکر اور باکردار انسان بنایا
۔ انسان آپس میں تعاون باہمی کے اصول کے تحت زندگی بسر کرنے لگے ۔ حق تلفی اور ظلم
کے عادی انسان فطری طرز معاشرت کو اپنانے کے بعد انسان دوست بن گئے اور ایک دوسرے کی
ضرورتوں کا خیال کرنے لگے ۔ پورا معاشرہ رفاہیت عامہ کا پیش خیمہ بن گیا اور ترقی کے
منازل طے کرتے ہوئے جمود سے نکل آیا ، کئی صدیوں تک نہ صرف انسان بلکہ دیگر مخلوقات
نے بھی وسائل سے اپنا حق حاصل کیا۔
سیاست کی معاشرتی اہمیت
انسانی زندگی کے تمام مسائل
و معاملات کو معاشرے میں سیاست کے ذریعے سے منظم کیا جاتا ہے ۔ معاشرے میں موجود قیادت کا یہ فریضہ بنتا
ہے کہ وہ تمام انسانوں کی جان و مال ، امن و امان ، تعلیم ، صحت ، نکاح ، زبان وغیرہ
بلکہ تمام بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرے ۔
معیشت کی معاشرتی اہمیت
کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار
اس قوم کی ملکی معیشت یعنی وسائل پر ہے ۔ اللہ پاک نے وسائل دولت جو ظاہر و پوشیدہ
ہیں ، سب اس نے اپنی تمام مخلوق کےلیے پیدا فرمائے ہیں ۔ درست معاشی نظام کے ذریعے
سے ان وسائل کو تمام انسانوں پر خرچ کیا جانا چاہیے تاکہ اللہ پاک کی مخلوق بھوک و
افلاس کا شکار نہ ہو جائے مگرجب مفاد پرست اور ظالم قوتوں کا غلبہ ہو جاتا ہے جس سے
بھوک و افلاس ، بداخلاقی و بدکرداری ، بےحیائی و عصمت دری اور غربت کی وجہ سے انسانی
اعضاء بلکہ انسانی زندگی کی خرید وفروخت پیدا ہو جاتی ہے ۔
امام شاہ ولی اللہ محدث دیلویؒ
فرماتے ہیں : ” ملکی نظام کے فساد کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے ؛
ایک طبقہ ملکی وسائل پر قابض
ہوکر عوام کی معاشی زندگی کو تنگ کردے "- معاشیات کودرست کرنے کا اصل مقصد یہی
ہوتا ہے کہ عام انسانوں کی زندگی میں بہتری اور آسانیاں لائی جائیں تاکہ اس کے ذریعے
سے انسانی معاشرے کے مسائل حل کیے جائیں ۔
مولانا عبیداللہ سندھی فرماتے
ہیں :
” قرآن
حکیم انسانیت کی ترقی کے لیے ایک صالح فکر پیش کرتا ہے جس میں زندگی کے تمام پہلو آجاتے
ہیں ۔ اس کے ذریعے سے انسانی سوسائٹی کی معاشی اصلاح بھی ہوتی ہے اور معادی ( آخرت
کی ) تیاری بھی ۔ اس فکر کو ماننے والی جماعت دنیا میں سر بلند ہوکر انسانی سوسائٹی
میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرتی ہے ۔ وہ غریبوں اور بے کسوں کی ہر قسم کی انسانی
ضرورتیں پوری کرنے کا ذمہ لیتی ہے ، انہیں تمام معاشی مصیبتوں سے بچاتی ہے تاکہ انسان کا خدا تک پہنچنے
کا راستہ آسان ہوجائے ۔ اس انصاف اور خدا پرستی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد
کی زندگی میں اس کا راستہ صاف ہوجاتا ہے , اس کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی ۔ یہ
جماعت اتنی بڑی ذمہ داری صرف اس لیے اپنے سر لیتی ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ انسانیت کی
خدمت خدا پرستی کا لازمی جزو ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس خدمت کا بدلہ دنیا کے مال و
دولت یا عزت کی شکل میں لینا اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتی ۔“
اگر ہماری یہ سمجھ صحیح ہے
کہ قرآن حکیم انقلابی پروگرام دیتا ہے تو پھر مسلمان کسی زمانے میں بھی اس انقلاب سے
غافل نہیں ہوسکتے ۔
ہماری ذمہ داری
پیش کردہ موضوع " اسلام
اور کفر سماجی تناظر میں" سے موضوع نگار کا مقصود یہ ہے :
دین اسلام انسانی زندگی گزارنے کا ایک
مکمل نظریہ حیات ہے ۔ انسان کی پیدائش سے لےکر اس کے مرنے کے بعد کی زندگی کے تمام
مراحل اسی نظریہ کے تحت تشکیل پاتے ہیں ۔ انسان فطری طور پر جن ضروریات کو حاصل کرنا
چاہتا ہے وہ اسی نظام کے ذریعے سے ہی ملنا ممکن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم انسانی معاشرے
کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیاست و معیشت کا انسانی زندگی
کی ترقی و کامرانی میں بڑا عمل دخل ہے ۔دین اسلام ہمیں صحیح نظریے کے تحت سماجی تنظیم
کی دعوت دیتا ہے جس کی پاسداری میں ہی انسانی ترقی کا راز پنہاں ہے ۔ آج ہمارے معاشرے
میں اس دین کو محض چند رسومات تک ہی محدود کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے آج اس دین کے
ماننے والوں کی تعداد کڑوروں میں ہونے کے باوجود بھی مسائل کا شکار ہے ۔ دراصل انسانی
معاشرے کے وسائل پر قابض طبقات کا پیدا کردہ سرمایہ دارانہ نظام کفر پر مبنی ہے ۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ نظریہ اسلام
کو جن اقوام نے تسلیم کیا انہوں نے اپنے معاشرے کی اساس اسی فکر و فلسفے پر رکھی اور
زوال سے نکل کر وہ پوری دنیا میں امن کے داعی بن کر چھاگئے جبکہ ہم زوال در زوال کی
سمت چلے جارہے ہیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کفر کے مفہوم کو اس دور کے حالات و واقعات
کی روشنی میں گہرائی میں سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے سبب کفر کے نتیجے میں ظلم کی
تمام صورتوں کے خلاف مزاحمتی کردار ادا کیا جا سکے ۔