معا شرے کی تعمیر و تشکیل میں عدل کی اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • معا شرے کی تعمیر و تشکیل میں عدل کی اہمیت

    عدل کے معنی برابر تقسیم کرنے کے ہیں۔ مساوات کو قائم کرنا اور توازن کو برقرار رکھنے کے ہیں۔ مثال کے طور پر گوشت کے ٹکرے کو دو برابر حصوں میں اس طرح تقس

    By Salman Nawaz Published on Nov 05, 2024 Views 578

    معا شرے کی تعمیر و تشکیل میں عدل کی اہمیت

    تحریر: سلمان نواز۔ بہاولپور 


    عدل کا مفہوم 

    عدل کے معنی مساوات کے ہیں۔ مساوات کو قائم کرنا اور توازن کو برقرار رکھنے کے ہیں۔ مثال کے طور پر گوشت کے ٹکرے کو دو برابر حصوں میں اس طرح تقسیم کرنا کہ ذرہ برابر بھی فرق نہ رہے "عدل" کہلاتا ہے۔

    ترازو کے دونوں پلڑوں کا برابر ہونا عدل ہے۔ اگر ان میں تھوڑا سا بھی فرق ہوگا ہو تو وہ عدل نہیں "ظلم" کہلائے گا۔ عدل اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور وہ اپنے خلیفہ انسان کے ذریعے سے معاشرے میں عدل قائم کروانا چاہتا ہے۔ آپ اگر کائنات پر غور کریں تو کائنات کا سارا نظام عدل پر قائم ہے۔ عدل صرف انتظامی معاملہ میں ہی نہیں، بلکہ دین ِاسلام نے ہمیں زندگی کے ہر معاملہ میں عدل و انصاف سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔

    مولانا شاہ سعید احمدرائےپوری فرماتےہیں!

    "عدل کے نظام کا قیام فرض ہے۔ محض عبادات کو دین سمجھنا اور عدل کی سیاست سے الگ رہنا، ظلم کی مدد کرنا ہے۔ سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ تاکہ عوام کو معاشی مساوات حاصل ہو۔ طبقاتی معاشی نظام سے نجات ملے۔ غلامی سے آزادی، بنیادی ضرورت ہے۔ غلام قوم پورے دین حق پر عمل نہیں کرسکتی۔ جہاں حقوق انسانیت پامال ہوں اور مذہبی طبقہ جدوجہد نہ کرے، سیاسیات دین کو دنیا کہے، وہاں عذاب الٰہی آتا ہے۔ ذِلت اور مسکنت کا عذاب مسلط ہوتا ہے۔`

    اگر کسی معاشرے میں عدل نہ رہے تو وہ معاشرہ طبقاتیت اور گروہیت میں تقسیم ہو جاتا ہےجو کہ معاشرہ کے لیے بہت بڑی لعنت ہے۔ اس لعنت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں ظلم کا بول بالا ہوتا ہے اور معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوجاتا ہے ۔وہ زبان، ذات پات، نسل، عقیدہ اور مذہب کی بنیاد پر خود کو تقسیم کر لیتا ہے۔ اونچ نیچ اتنی عام ہو جاتی ہےکہ ظلم، ظلم لگتا ہی نہیں۔ امیر اور غریب کا فرق اتنا طول پکڑ جاتا ہے کہ غریب کیڑے مکوڑے لگنے لگتے ہیں۔ بے آسروں کا کوئی آسرا نہیں ہوتا۔ اور امیر اپنے سرمائے اور دولت کی بنیاد پر حکومت کو اپنی انگلیوں پر نچانا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی من پسند پالیسیاں بنا کر پوری قوم کا استحصال کرتے ہیں۔ اور لگے ہاتھ مذہبی طبقہ بھی اس گنگا میں اپنے ہاتھ دھوتا ہے۔ سرمائے کی ہوس اور لالچ کی خاطر قوم کو یہ باور کرواتا ہے کہ دولت کی تقسیم اللہ کی طرف سے ہے، صبر، شکر کرو اور خاموش رہو۔

    قرآن میں ارشاد ہے :

    "تم انصاف کرو ،اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے"۔ 

    "بے شک اللہ عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے"۔ 

    "تم انصاف کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے"۔ 

    "بے شک اللہ حکم دیتا ہے کہ عدل اور احسان (اچھاسلوک) کرنےکا"۔ 

    یہ قرآنی ہدایات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اللہ کو عدل کرنے والے بے حد محبوب ہیں۔ عدل کا تعلق انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی دونوں کے ساتھ ہے۔ فطری طور پر انسان عدل پسند ہے ۔ جیسے وہ خوداپنےساتھ عدل کو پسند کرتا ہے ویسے ہی اسے چاہیے معاشرے میں رہنے والے تمام انسانوں کے ساتھ عدل کرے ۔ اور ایک ایسے نظام کی تشکیل کرے جو عدل پر مبنی ہو۔ معاشرے کی سیاسی، معاشی اور سماجی روح عدل پر قائم ہو۔ تاکہ معاشرے کا ہر فرد ہر ادارہ مفادِعامہ کے لیے کام کرے ۔

    شیخ سعدی فرماتے ہیں:

    ’ مجھے اللہ کے انصاف پر اس دن سے یقین آگیا کہ جس دن میں نے دیکھا کہ امیر اور غریب کے کفن اور قبریں ایک جیسی ہوں گی"۔ 

    سیرت سے عدل کی مثالیں 

    ایک بار آپﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے لوگوں کا ہجوم تھا۔ ایک شخص آ کر منہ کے بل آپﷺ پر گر گیا، دست مبارک میں پتلی سی لکڑی تھی آپﷺ نے اس کو ہٹایا تو اتفاق سے لکڑی اس کے منہ پے لگ گئی اور خراش آگئی۔آپ ﷺ نے فرمایا:"مجھ سے انتقام لے لو" اس نے عرض کیا’یا رسول اللہ میں نے معاف کر دیا‘۔ 

    آپ ﷺ نے قبیلہ بنی مخزوم کی فاطمہ نامی عورت کی چوری سے متعلق سزا کی سفارش سن کرارشاد فرمایا:’تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک کر دیے گئے کہ ان میں کوئی طاقت والا چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کو سزا دی جاتی۔ بخدا! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ 

    خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجراسود کو نصب کرنے کا موقع آیا تو قبیلوں کے درمیان سخت لڑائی پیدا ہوگئی۔ ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ سعادت اسے حاصل ہو۔ یہ لڑائی اتنی بڑھ گئی کہ تلواریں میانوں سے باہرآگئیں۔ چار روز تک جھگڑا جاری رہا۔ پانچویں روز طے پایا کہ کل صبح جو سب سے پہلے حرم میں داخل ہوگا، اس سے اس لڑائی کا فیصلہ کرالیا جائے۔ اس رائے کو سب نےپسند کیا۔ صبح سب سے پہلے حرم میں حضور اکرم ﷺ داخل ہوئے۔ سب نے کہا یہ صادق اور امین ہیں، ہمیں ان کا فیصلہ منظور ہے۔

    آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اس پتھر کو ایک چادر میں رکھا جائے،ہر قبیلہ ایک نمائندہ منتخب کرے۔اور وہ سب نمائندے بیک وقت اس چادر کو اٹھا کر اس جگہ پہنچائیں جہاں حجر اسود نصب کیا جائے گا ۔سب نے اس پر عمل کیا۔اور جب چادر اس جگہ پہچ گئی۔ تو آپ ﷺ نے دست مبارک سےحجرا اسود کو اٹھا کر نصب فرمایا۔ اس طرح ایک سخت لڑائی آپﷺ کے عدل پر مبنی فیصلے سے رک گئی۔ 

    معاشرے کی تین بنیادیں 

    فکرو فلسفہ:

    معاشرے کی تشکیل میں سب سے اہم بنیاد اس کا فکر ہے۔ یہ فکر جتنا جامع اور وسیع ہوگا معاشرہ اتنا ہی خوش حال اور عدل پے مبنی ہوگا۔ معاشرے کے فکر کا تعلق وحدت انسانیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ کسی رنگ، نسل، گروہیت کی بنیاد پر نہیں۔

    معاشی عدل:

    معیشت میں عدل سے مراد دولت کی منصفانہ تقسیم ہے۔ یعنی ہر شخص سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے اور اس کی ضرورت کے مطابق اس کی ضرورت پوری کی جائے۔ تعاون باہمی کے ذریعے ایسے افراد جو کمزور ہیں ان کی صلاحیت کو پالش کیا جائے۔ ایسا معاشی نظام بنایا جائے، جس سے سرمایہ چند ہاتھوں میں جمع ہونے کے بجائے پورے معاشرے میں گردش کرے۔

    سیاسی عدل:

    معاشرے کے قیام میں سیاسی عدل کی بہت اہمیت ہے، جن معاشروں میں سیاسی عدل ہوگا، وہاں امن اور استحکام نظر آئے گا۔اِظہار رائے کی آزادی ہوگی۔ احتساب کا مکمل نظام موجود ہوگا۔ کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی۔ اجتماعی رویے مفادعامہ کی بنیاد پر ترتیب دیے جائیں گے۔ لوگوں کی جان مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ ایسے معاشرے کی بنیاد انسان دوستی ہوتی ہے۔ اگر آج ہم اپنے معاشرے کو مثالی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا، جس کی بنیاد "عدل" پر ہو۔

    Share via Whatsapp