تفریقِ انسانیت: قدرتی ہے یا مصنوعی؟
آج کی دنیا جن بے شمار مسائل کا سامنا کررہی ہے، اُن میں سے ایک سنگین مسئلہ طبقاتیت یعنی غیرمنصفانہ تقسیم دولت ہے اوراس وَجہ سے انسانیت کے اندر ۔۔۔۔۔

تفریقِ انسانیت: قدرتی ہے یا مصنوعی؟
تحریر: خالد زمان، بنوں
آج کی دنیا جن بے شمار مسائل کا سامنا کررہی ہے، اُن میں سے ایک سنگین مسئلہ طبقاتیت یعنی غیرمنصفانہ تقسیم دولت ہے اوراس وَجہ سے انسانیت کے اندر تفریق ہے۔ کہیں مال ودولت کی فراوانی ہے، تو کہیں فاقہ کشی کی اذیت ہے۔ کوئی آسائشوں میں گم ہےتو کوئی دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے۔ کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم۔ اس امر کاافسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس اہم مسئلے کا مذہبی تعلیمات کی روشنی میں حل پیش کرنے کے بجائے مال ودولت کی اس غیرمنصفانہ تفریق کو "قدرتی نظام" قرار دے کر اس کی حمایت کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ بڑھتی ہوئی غربت اور مال ودولت کی افراط وتفریط قدرتی ہے؟ آئیے اس سوال کا جواب قرآنِ مجید کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ کی طرف سے رزق کی ضمانت:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ۔ (سورۃ ہود: 6)
ترجمہ:"زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔"
یہ آیت صاف طور پر بیان کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے رزق کی ذمہ داری لی ہے۔ انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے اور اگر وہ اپنی خلافت کو اللہ کی تعلیمات کے مطابق قائم کرے تو کسی انسان کو بھوک یا محتاجی کا سامنا نہ ہو۔ غورکریں تو معلوم ہوگا کہ چند ہزار لوگ دنیا کی 60 فی صد دولت پر قابض ہیں ۔اور دنیا کی 60 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔
پوری دنیا اور وطنِ عزیز میں قائم اس ظالمانہ نظام میں ہر سال لاکھوں انسان صرف بھوک یا بھوک سے جُڑی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس بات کا ثبوت ہے کہ مال ودولت میں اس قدر افراط وتفریط اللہ کے قدرتی نظام کا حصہ نہیں، بلکہ انسان کے بنائے ہوئے استحصالی نظام کا نتیجہ ہے۔
بنی آدم کی عزت اور فضیلت
اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا"(سورۃ الإسراء، آیت 70)
ترجمہ:"ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، انھیں خشکی و تری میں سوار کیا، پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری دی۔"
اس آیت میں انسانیت کی اجتماعی عزت و تکریم کی بات کی گئی ہے، بلاتفریق رنگ، نسل، قوم یا حیثیت کے۔ مگر آج کا معاشرہ اس تعلیم سے کوسوں دور ہو چکا ہے۔ افسوس کہ دنیابھر میں اور خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں اس ظالمانہ نظام کی موجودگی میں ایک غریب کی عزت کا معیار امیر کے پالتو کتے سے بھی کم تر ہے۔ جب کہ قرآن مجید ہر انسان کو عزت و شرافت کا مستحق قرار دیتا ہے۔
کیا وسائل معیشت میں اس قدر فرق قدرتی ہے؟
کچھ لوگ اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں:"انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ۚ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا"۔ (سورۃ الإسراء، آیت 21)
ترجمہ:"دیکھو! ہم نے بعض کو بعض پر کیسے فضیلت دی ہے..."
یہ فضیلت دراصل "آزمائش" ہے، برتری نہیں۔قرآن مجید درجات معیشت کا تو قائل ہے طبقات کا نہیں۔ یہ درجات کسی کو احساسِ برتری دینے کے لیے نہیں، بلکہ ہر ایک کو اس کے دائرہ اختیار میں آزمانے کے لیے دیے گئے ہیں۔ اگر معیشت کے درجات قدرتی تفریق کا جواز ہوتے تو قرآن، مساوات، عدل اور انسان دوستی کی تعلیم نہ دیتا۔
ہاتھ کی انگلیوں کی مثال کا جواب:
اکثر کہا جاتا ہے کہ "ہاتھ کی انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، تو انسان بھی برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟"
یہ بات بہ ظاہر درست معلوم ہوتی ہے، اگر غور کریں تو ہر انگلی کا اپنا کردار ہے، اپنی اہمیت ہے اور ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق خون ملتا ہے۔ان پانچ انگلیوں کے میلاپ سے ایک مضبوط مٹھی بنتی ہے۔ اسی طرح انسانوں میں فرق کردار، صلاحیت یا ذمہ داریوں کا ہوسکتا ہے، مگر عزت اور حقوق کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ جب معاشرے کے تمام افراد یکجا ہوتے ہیں تو ایک باعزت، مضبوط قوم بنتی ہے۔
موجودہ اس ظالمانہ نظام میں انسانیت کی حیثیت:
آج کی دنیا میں چند مخصوص طبقے تمام وسائل اور فیصلوں پر قابض ہیں اور عوام کی اکثریت کو بے اختیار اور بے حیثیت سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ یہ جسم کے غیرضروری اعضا ہیں (vestigial organs)۔ یہی وَجہ ہے کہ عدل، مساوات اور بھائی چارہ محض کتابی باتیں بن کر رہ گئی ہیں۔
ادارہ رحیمیہ علوم قرانیہ ہمیں اس شعوری تفہیم کی طرف بلاتا ہے کہ انسان کی عزت، رزق اور بقا کا تعلق کسی طبقاتی نظام سے نہیں، بلکہ اللہ کے مقرر کردہ مساوی انسانی حیثیت سے ہے۔ یعنی حق معیشت میں برابری ایک مسلمہ فطری اصول ہے۔ اور یوں دین اسلام ہر فرد کو یہ موقع فراہم کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو آزمائے۔اور اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اس کے بندوں کی بھلائی میں صرف کرے ہمارا دین طبقاتیت کے خاتمے کی جانب مائل کرتا ہے۔ ادارہ اسی دینی تعلیم سے نوجوانوں متعارف کرانا چاہتا ہے تاکہ مایوسی ختم ہو اور غلبہ دین درست فکر اور نظریہ کی بدولت قومی و ملی مسائل حل کرنے استعداد پیدا ہو۔ یہ ہمارا تاریخی اعزاز ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں نے یہاں عادلانہ نظم حکومت قائم کیا اور اس خطے اور مسلمانوں کی ترقی میں بنیادی کردار اداکیا اللہ ہمیں ادارہ رحیمیہ سے جُڑے رہنے اور اصل تعلیمات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نتیجہ:
تفریقِ انسانیت یعنی غیرمنصفانہ تقسیم دولت کوئی قدرتی اَمر نہیں، بلکہ انسان کے بنائے ہوئے غیر منصفانہ نظام کا نتیجہ ہے۔ اسلام انسانیت کے احترام، مساوات اور عدل کا دین ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ظاہری فرق کو جواز نہ بنائیں، بلکہ ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جس میں ہر انسان کو اس کا حق ملے، اور ہر فرد عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزار سکے۔