شکر کیا ہے؟ اور کیسے ادا کیا جائے؟
شکریہ کا مفہوم اور ہمارا مجموعی رویہ کا تحلیل و تجزیہ
شکر کیا ہے؟ اور کیسے ادا کیا جائے؟
تحریر۔توصیف افتخار۔لاہور
لِيَاۡكُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖۙ وَمَا عَمِلَتۡهُ اَيۡدِيۡهِمۡؕ اَفَلَا يَشۡكُرُوۡنَ ( القرآن،36_35 )
زوال یافتہ معاشرے میں الفاظ تو پرانے ہی مستعمل رہتے ہیں لیکن ان کا مفہوم بدل دیا جا تا ہے، جس سے روح ختم ہو جا تی ہے۔ قرآنِ حکیم کی بہت ساری اصطلاحات میں ایک اصطلاح شکر بھی ہے۔ ہماری زبان اردو میں بھی لفظ شکر مستعمل ہے اور ہم نے قرآن حکیم کی اصطلاح "شکر" کا مفہوم بھی اردو کے "شکر" کے ہم معنٰی لے لیا ہے۔
کسی کے اچھے رویہ یا مہربانی پر ہم اظہارِ ممنونیت کے لیے لفظ شکریہ استعمال کرتے ہیں۔ اس تحریر کے ذریعے میں چاہوں گا کہ ہم "شکریہ" کا گہرائی میں تجزیہ کریں۔
درست تفہیم کے لیے ایک سادہ مثال سے آغاز کرتے ہیں۔ والدین اپنی اولاد پر مہربان ہوتے ہیں۔ اپنے اوپر تمام تکالیف جھیل کر اس کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اولاد کے ذمہ اپنے والدین کے اس سارے عمل پر ان کا ممنون رہنا بنتاہے۔
اب اس اظہارِ تشکر کا درست طریقہ کیا زبان سے شکریہ ادا کر کے فارغ ہو جانا ہے؟ یا کوئی فادر ڈے اور مدر ڈے منا کر، والدین کے ساتھ اپنی تصویراتارکرسوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے شکریہ ادا ہوتا ہے؟
ایک بچہ جو ماں باپ کا منہ تو بہت چومے، زبانی کلامی اظہارِ تشکر بھی کرے، مگر عملی طور پر نافرمانی کرے، تو کیا وہ شکرگزار کہلائے گا؟ تو گویا شکریہ کا تعلق کلی طور پرکسی لسانی، جذباتی اور سطحی عمل سے نہیں ہے بلکہ اس کی کامل شکل شعوری عمل ہے۔
شعوری عمل کیا ہے ؟
اوپر کی مثال کو ہی آگے بڑھائیں تو شعوری عمل سے مراد، والدین کے حکم برداری ہے۔ ان کی ذمہ داریوں میں ان کی معاونت اور نیابت ہے۔ اور ایک قدم اور آگے بڑھیں تو جو محبت و شفقت، التفات و مہربانی والدین نے آپ کے ساتھ رکھی نا صرف یہ کہ وہی ان کی طرف لوٹا دیں بلکہ انہی اخلاق حسنہ کو آگے اپنی نسل اور معاشرے میں منتقل کردیں تو یہ شکریہ ادا کرنے کا بہترین عملی طریقہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کائنات کے مظاہر پر غور کریں۔ اللہ جل شانہ نے سورج کو روشن کیا تو اُس نے اِس نعمت کو تمام مخلوقات ارضی کے لیے عام کر کے شکر ادا کیا اور دریاؤں کو پانی عنایت کیا تو انہوں نے اس نعمت کو تمام مخلوق کے لیے عام کر کے شکر ادا کیا۔ بادِ نسیم میں فرحت رکھی تو اس نے اسے عام کیا یہی شکر ہے۔ اشیاء اپنی زبانِ حال سے شکر اور تسبیح بیان کرتی ہیں۔
ایک اور مثال پر غور کریں۔ علم کا حقیقی منبع ذات الٰہی ہے، لیکن دنیا میں وسیلہ اساتذہ بنتے ہیں۔ اب ایک عالم اپنے علم پر اللہ تعالٰی اور پھر اپنے اساتذہ کا شکریہ صرف زبان سے کرے تو یہ سطحی عمل ہے۔
شکریہ کا صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ وہ نفع انسانیت کے لیے اپنا علم عام کرے۔ یہی علمائے ربانین اور اولیاء اللہ کا طریقہ رہا ہے۔ علم پر پیٹنٹ رائٹس اس سرمایہ داری کے دور کی اصطلاح ہے۔
اب جسے اللہ تبارک و تعالٰی مال و دولت سے نوازیں وہ شکر کیسے ادا کرے؟ کیا تسبیح پر کلمۂ شکر کی گردان شکر کا حق ادا کرتی ہے؟ نہیں بلکہ مذکورہ بالا اصول مدِ نظر رکھیں تو شکر کا طریقہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ مال انسانی نفع کے لیے خرچ کیا جائے۔ مضمون کے آغاز میں لکھی گئی آیت اللہ تعالٰی کی طرف سے اسی چیز کی طرف رہنمائی کر رہی ہے ۔ مال و دولت جمع کرنا، مال کی ہوس میں مبتلاء ہونا، اپنے نفع کی خاطر لوگوں کو محروم المعیشت کرنا ناشکری ہے۔ اور اس ناشکری کا نظام بنا لینا "فساد فی الارض" کہلاتا ہے۔ آج کے دور میں یہ نظام سرمایہ داریت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی قرآنِ حکیم میں جہاں بھی اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں اور انسانی ناشکری کا ذکر کرتے ہیں تو درحقیقت انسانی سماج میں ایسے انسانیت کش نظام بنانے والوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ o وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ أَفَلا يَشْكُرُونَ o (القرآن،36_72,73)
ترجمہ: اور ان کو ان کے قابو میں کردیا تو کوئی تو ان میں سے ان کی سواری ہے اور کسی کو یہ کھاتے ہیں۔ اور ان میں ان کے لئے (اور) فائدے اور پینے کی چیزیں ہیں۔ تو یہ شکر کیوں نہیں کرتے؟
اب یہ شکر زبانی کلامی نہیں ہے بلکہ اللہ کے انعامات کو مخلوقِ خدا کے لیے عام کرنے کی شکل میں ہے۔ اور درحقیقت اس کا نظام بنانے کی صورت میں ہے نہ کہ انفرادی انفاقِ مال کی شکل میں۔ کیونکہ انفاقِ مال کے طریقہ پر اللہ تعالٰی نے رہنمائی فرما دی:
الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا يُتۡبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًىۙ لَّهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَا۔(القرآن،2_262)
تر جمہ: جو لوگ اپنا مال خدا کے راستے میں صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں۔ ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس (تیار) ہے۔ اور (قیامت کے روز) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کہ مفہوم ہے کہ اس طرح مال خرچ کرو کہ دوسرے ہاتھ کو خبر بھی نہ ہو۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ احسان نہ رکھا جائے، دوسرے ہاتھ کو خبر بھی نہ ہو۔ انفرادی طور پر انفاق مال میں تو یہ ممکن نہیں، آپ احسان نہ رکھیں مگر مجبور تو آپ کا احسان مند ہو جائے گا۔ یہ صرف اسی طور پر ممکن ہے جب انفاق مال کا حکومتی نظام ہو۔
اب جسے اللہ تعالٰی حکومت و اختیار سے نوازیں تو اللہ کے اس انعام کا شکر ادا کرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں کہ حق نیابت ادا کیا جائے۔
اللہ کی مخلوق میں عدل و انصاف کا نظام جاری کیا جائے۔ طاقت معاشرے کے کمزور طبقہ کی طرف لوٹا دی جائے۔ یہی جذبہ تھا جس کا اظہار خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلافت ملتے ہی پہلے خطبہ میں کیا۔ اور فرما دیا کہ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے اور جو طاقتور ہےوہ کمزور ہے۔ظلم و جبر اور اشرافیہ پروری نا شکری ہے، اور اس کا نظام بنا لینا سرکشی اور عدوان ہے۔
اس سب کی روشنی میں اب ہمیں اپنے اجتماعی عمل اور قومی نظام کا جائزہ لینا ہے۔ کہیں ہم نے ناشکری کا اجتماعی رویہ تو نہیں اپنا رکھا؟ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ کہیں ہم نے سرکشی کا نظام تو نہیں بنا رکھا۔ اگر ایسےنظام بنارکھے ہیں تو یہ باقاعدہ منظم طور پر احکامِ الٰہی کی نافرمانی ہے۔با الفاظِ دیگر اللہ کی رضا کے بجائے اپنے مفاد پر مبنی نظام بنانا اللہ کی حاکمیت کو چیلنج کرنا ہے، شرک اور کیا ہوتا ہے؟
آج بتوں کا دور نہیں ہے۔ لیکن فرعونوں اور بتوں کے ذریعے جو نتائج لیے جاتے تھے وہ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں تو سچے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام سے برأت کا اعلان کرے۔ قرآن کی حقیقی تعلیمات کو سمجھے اور دورِ زوال کے علمی مغالطوں سے باہر نکلے۔ علمائے حق کی پیروی کرے۔
منعم حقیقی رب العالمین عطاء کردہ نعمتوں کو استعمال کرکےکامل وفادار بننا اور اور اس کے وفاشعاربندوں کی صف میں کھڑا ہو نا اور اس کی دشمن شیطانی قوتوں سے بےزاری ہی حقیقی شکر الہی ہے۔