قرآن حکیم کے پانچ بنیادی علوم - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قرآن حکیم کے پانچ بنیادی علوم

    امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے قرآن حکیم کو سمجھنے کے لئیے پانچ بنیادی علوم متعین کئیے ہیں اور انہی بنیادی علوم کی تفصیل پورے قرآن حکیم میں موجود ہے۔

    By طلحہ بن صبور Published on Jul 25, 2024 Views 851
    قرآن حکیم کے پانچ بنیادی علوم
    تحریر: طلحہ بن صبور۔ اوکاڑہ

    قرآن حکیم کل انسانیت کی جامع ہدا یت کا دستور ہے۔اس کا مخاطب انسانی اجتماع ہے۔ انسانی معاشرے کو کن اصولوں پر تشکیل دیا جائے ؟ اس کے کیا قواعد و ضوابط ہیں؟ اور وہ طریقہ کار جس کے ذریعے انسانی معاشروں کو درست خطوط پر تعمیر کیا جاتا ہے، اس سے قرآن حکیم آگہی دیتا ہے ۔ 
    امام شاہ ولی اللہ نےقرآن حکیم کے پانچ علوم متعین کیے ہیں۔ 
    پہلا علم:
    بڑا بنیادی مضمون معاشرے کی تشکیل کے حوالے سے قوانین کی نشان دہی ہے۔ وہ قوانین جو سوسائٹی کی تشکیل میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے قرآن حکیم کا ایک بہت بڑا حصہ ان احکام کو بیان کرتا ہے، جن کے ذریعے انسانی معاشرے کی تعمیر پیش نظر ہوتی ہے۔کون سے وہ احکام ہیں، جن کا بجا لانا ہرصورت میں معاشرے کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہے  اور کون سے وہ احکام ہیں، جن کی پابندی اس لیے ضروری ہے کہ ان میں معاشرے کی تباہی پنہاں ہے، جن سے احتراز اور بچنا بہت ضروری ہے۔ بعض احکام ایسے ہیں جن کو پسندیدہ احکام کہا جاتا ہے۔ احکام کا ایک حصہ ایسے کاموں کا ہے کہ جن کے کرنے کا انسانیت کو اختیار دیا گیاہے ، قرآن کے علوم میں سے ایک علم تو ان موضوعات سے تعلق رکھتا ہے ۔
    دوسرا علم:
    قرآن حکیم کا دوسرا بڑا موضوع مختلف غلط عقائد و نظریات رکھنے والے گروہوں کے ساتھ مکالمہ اور مباحثہ ہے اور ان کے نظریات کا تجزیہ ہے، ان کی غلطیوں کی نشان دہی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ سوسائٹی کی تعمیر و تشکیل کے حوالے سے ان رویوں کو سمجھا جائے، جن سے سوسائٹی میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے قرآن حکیم نے چار بنیادی گروہوں کا تعین کیا ہے،جس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ چار مختلف قسم کے رویوں کے حامل گروہ جو سوسائٹی میں موجود ہوتے ہیں، ان کے کردار کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ان کے رویوں کا جائزہ لینا ضروری ہے، تاکہ ایک اعلیٰ درجے کی انسانی سوسائٹی ان رویوں سے اجتناب کرسکے۔گویا یہ سوسائٹی کے وہ عناصر ہیں جو سوسائٹی کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ قرآن حکیم نے ان کو مختلف عنوانات سے ذکر کیا۔ ان گروہوں کی نفسیاتی ،سماجی نوعیتیں اسی طرح ان کے اخلاقی مسائل یا ان کےجو سیاسی اور معاشی مسائل ہیں، ان کو نمایاں کرنا مقصود ہے۔ اس حوالے سے یہود،نصاری،مشرکین اور منافقین کے عنوانات کے تحت ان امور پر گفتگو کی گئی اور  ایک بھرپور بحث اور مکالمہ کیا گیا ہے ۔
    تیسرا علم:
    اس کا تعلق انسانی معاشرے میں موجود اللہ تعالیٰ کے ان انعامات سے ہے، جن سے کل سوسائٹی کو مستفید کرنا منشا الٰہی ہے۔ اس لیے ان کا بھرپور تعارف کرایا گیا، تاکہ سوسائٹی کی تشکیل میں اس بات کو ملحوظ خاطررکھا جائے کہ ان انعامات سے واقفیت اور ان سے استفادہ کیا جائے ۔ بلاتفریق رنگ،نسل اور مذہب کےسوسائٹی کو اس سے مستفید ہونے کا موقع دیا جائے۔ ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے، جس میں کوئی بھی انسان ان نعمتوں سے استفادہ کرنے میں کوئی دِقت محسوس نہ کرے۔ اسے کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہو۔ ایسا نہ ہوکہ وہ انعامات صرف چند افراد یا کسی خاص گروہ تک محدود ہو جائیں۔ کل انسانیت کے لیے ان انعامات کا ذکر کر کے اس بات کو متعین کر دیا گیا کہ قرآن  ایسا نظام اور معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے ۔اہل قرآن نے یہ معاشرہ قائم کر کے دنیا کو دکھایا جس میں تمام باشندگان ریاست کو ان نعمتوں سے استفادے کا بھرپور موقع ملا۔ 
    چوتھا علم: 
    اس کا تعلق اس سے ہے کہ سوسائٹی کی تشکیل میں ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ کیوں کہ تاریخ کا علم سوسائٹی کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعے ہم گزشتہ اقوام کو اس نقطہ نظر سے پڑھتے اور دیکھتے ہیں کہ کیا وجوہات تھیں، جن کی وَجہ سے قوموں میں زوال آئے اور کون سے اسباب ہیں، جن کی وَجہ سے قوموں نے عروج حاصل کیے، کیوں کہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب اور اصول ایک جیسے ہوتے ہیں، کبھی بھی تاریخ اپنے گزشتہ طور، طریقے سے انحراف نہیں کرتی ۔ قرآن حکیم گزشتہ واقعات کے ذریعے موجودہ لوگوں کی ذہنی تشکیل کرتا ہے۔ ان کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے اور ایسے رویے جو سوسائٹی کی تباہی کا باعث بنتے ہیں، ان کو تاریخی تناظر میں سمجھاتا ہے۔
    پانچواں علم: 
    اس کا تعلق انسانی معاشرے کی تکمیل کے بعد ایک نئے دور کے آغاز سے ہے۔ انسان کے اس دنیا سے جانے کے بعد اور  جب یہ کائنات اپنے اختتام کو پہنچے گی تو اس کے بعد ایک عالمگیر احتساب کا نظام قائم ہوگا، جس کو قرآن حکیم یوم آخرت کہتا ہے۔ اس کے ذریعے بھی انسانوں کو ایک یاددہانی کرائی گئی کہ موت کا جو نظام ہے اور موت کے بعد کا ایک پورا جہان ہے، اس کے ذریعے ان کو مستقبل کے نتائج کے حوالے سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے کہ سوسائٹی کی تشکیل اگر اعلیٰ اصولوں پر ہوگی تو یقیناً اس کا مستقبل تابناک ہوگا ۔اور اگر اس کے برعکس طریقہ کار اختیار کیا گیا تو اس کے نتیجے میں ان کو سزاؤں کا سامنا کرنا پڑےگا ۔ 
    ان پانچ علوم پر قرآن مجید گفتگو کرتا ہے۔ان علوم کے ذیل میں اور بھی کافی علوم آ جاتے ہیں۔
    Share via Whatsapp