اے ایمان والو: اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ (التوبہ)
اسلام ایک مکمّل ضابطہ حیات ہے۔ اگر اسلام کا صحیح فہم ہوگا تبھی صحیح فائدہ حاصل ہوگا۔
اے ایمان والو: اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ (البقرہ)
تحریر: محمد عقیل وٹو، راولپنڈی
ذات باری تعالٰی نے انسان کو پیدا فرمایا اور ملائکہ کو حُکم دیا کہ انسان کو سجدہ کرو، تمام ملائکہ نے حکم بجا لایا سوائے ابلیس کے، ابلیس کو یہ زعم تھا کہ میں انسان سے بہتر ہوں اور زمین پر خلافت کا حقدار بنسبت انسان کے میں ہوں۔ اسی مقصد کے تحت وہ ہزاروں سال سے عبادات میں مشغول تھا لیکن درپردہ اس کو اقتدار کی ہوس تھی۔ زمین پر اپنی سلطنت بنانا چاہتا تھا لیکن جب اپنا خواب چکنا چور ہوتے دیکھا تو انسان دشمنی پر اتر آیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو بہکایا کہ فلاں درخت کا پھل کھا لو تو اللّٰہ کے مقرب بن جاؤگے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جنّت کا لالچ نہیں تھا بلکہ اس ذات باری تعالٰی کی قربت کا خیال گزرا اور جنون عشق میں وہ پھل کھا لیا، اب جب پھل کھاچکےتو حقیقت واضح ہوئی کہ
بے خیالی میں حکم عدولی ہو گئی ۔ چناں چہ اب فکر لاحق ہوئی کہ پروردگار ناراض ہے، اور جب ناراض ہوگا تو چاہے جنّت میں رکھے یا عرش کے نیچے سب بے معنی ہے۔ نعمت تسکین کا ذریعہ بھی تبھی ہے جب عطا کرنے والا راضی ہو۔ اپنی نادانی پر سخت نادم ہوئے اور فریاد کی کہ میں ظالم ہوں اور معافی کا طلبگار ہوں۔اور یہ دعاء مانگی
ربنا ظلمنا أنفسنا وان لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن من الخاسرين۔
اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کیا اور اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا رحم نہیں کرے گا پر تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔
تو خدا ئے کائنات نے زمین پر بھیج دیا اور حکم دیا کہ میری "خلافت" کی ذمہ داری نبھاؤ، امتحان میں کامیاب لوٹو اور جس قربت کے حصول کی خاطر غلطی کر بیٹھے ہو خود کو اس کا اہل ثابت کرو۔ حضرت آدم علیہ السلام کی غلطی ارادی غلطی نہیں تھی بلکہ لا علمی کا فعل تھا جس کے نتیجے کے متعلق آپ ہرگز آگاہ نہ تھے وگرنہ کبھی اس درخت کے قریب نہ جاتے۔
اُدھر ابلیس جو حسد اور کینہ کی آگ میں جل رہا تھا ، راندہ درگاہ ہونے کے بعد خدا سے قیامت تک کی مہلت مانگنے لگا، خدا نے مہلت دے دی اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ میرے وہ بندے جو عقل و شعور کا استعمال کریں گے اور جو احکامات اور اصول و ضوابط ان کو بتائے جائیں گے اُن کا صحیح فہم حاصل کر کے اُن پر کاربند رہیں گے وہ تمہارے چُنگل میں کبھی نہیں پھنس سکتے۔
اب چونکہ اللّٰہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیج کر ایک امتحان میں ڈالا تو اس حوالے سے رہنمائی بھی فرما دی، کیونکہ یہ بات انصاف کے منافی ہے کہ کسی سے کوئی امتحان مقصود ہو لیکن تیاری کے لوازمات مہیا نہ کیے جائیں۔ جیسے کوئی استاد ریاضی کی پڑھائی کرا کر بیالوجی کا امتحان نہیں لیتا بصورت دیگر فیل ہونے والے کا قصور نہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے زندگی گزارنے کے 2 طریقے تھے، ایک یہ کہ وہ ملائکہ کی طرح صرف حمدو ثنا میں مصروف رہیں اور مادی ترقی، سماجی و معاشرتی معاملات سے قطع تعلق زندگی بسر کریں۔ دوسرا یہ کہ وہ اس پہلو پر غور کریں کہ جب ایک اصل مخلوق (ملائکہ) موجود ہے تو اس کی نقل بنانے میں کیا حکمت ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی مصوّر اپنا نیا شاہکار پہلے سے مزید بہتر بناتا ہے اور جن رنگوں سے سابقہ شاہکار محروم ہوں نئی تخلیق میں وہ رنگ بھی بھرتا ہے۔ یعنی انسان میں حیوانی قوت کے ساتھ ساتھ عقل و شعور کا رنگ بھی بھر دیا گیا۔ تبھی تو اشرف المخلوقات کہلایا۔ اور خلیفہ خداوند یعنی قائم مقام قرار پایا، چناں چہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے اندر اپنے حاکم کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کی اور زمین پر انصاف قائم کرنا، لوگوں کی رزق کے وسائل تک رسائی، بُلند خُلق اور ایسے تمام عوامل پر محنت کی جو ربّ العالمین کی ذات کا مظہر ہیں۔ یقیناً آپ کوئی بھی چیز پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی آپ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی بلکہ آپ کا کردار تو اللّٰہ وحدہ لاشریک کے پیدا کردہ وسائل کے انتظامی امور سنبھالنا تھا۔ زمین کا نظام چلانے کے لیے ایک منیجر کا کام کرنا تھا جس کو احکام مل جاتے ہیں اور وہ اپنے اختیارات کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فیصلے کرتاہے، معاشرے کو بگاڑ سے بچانا اور کہیں کوئی بگاڑ پیدا ہو جائے تو اس کو درست کرناوغیرہ جیسی ذمہ داریاں نبھائے ۔
انسانی ارتقاء کا سلسلہ چلتا رہا، انبیاء آتے رہے اور پھر ایک وقت آیا جب ارشاد باری تعالی ہوا:
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمّل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لیے پسند کر لیا۔"
خدا نے دعویٰ کیا کہ دین اسلام ایک مکمل دین ایک مکمّل ضابطہ حیات ہے ایک بھرپور نعمت ہے، لیکن آج کے مسلمان کو اپنے مسائل کا حل دین میں نہیں ملتا بلکہ وہ دین سے بےزار نظر آتا ہے۔ تو کیا وہ خدا کے انصاف پر شک کر رہا ہے جس نے دنیا میں تو بھیج دیا لیکن رہنمائی میں کسر چھوڑ دی ؟ سیاست، معیشت، معاشرت، اخلاقیات، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایسے تمام عوامل جن کا ہماری زندگیوں سے براہ راست تعلق ہے،کیا ان کے لیے ہمیں کئی مختلف نظاموں سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے؟کیا دین اسلام ان کا احاطہ نہیں کرتا ؟ کیا دین اسلام صرف عبادات تک محدود ہے؟ اپنے آخری ایام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض احادیث میں اسی خطرے کی طرف اشارہ کیا تھا کہ مجھے تمہارے پھر سے مشرک یا کافر ہو جانے کا ڈر نہیں بلکہ تم انفرادیت اور دنیا و سرمایہ پرستی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
اور آج ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جس سے بچنے کی پیغمبر اعظم صلعم نے تنبیہہ کی تھی، جس پر کھینچ لانے کا ابلیس نے وعدہ کیا تھا۔
تخلیق آدم کے بعد جب خدا نے ملائکہ اور آدم ع کو روبرو کھڑا کیا اور ملائکہ سے کہا کہ فلاں فلاں چیز کے متعلق بتاؤ تمہارا کیا مشاہدہ ہے، جواباً ملائکہ نے اپنا عذر بیان کیا کہ اے پاک ذات ہم تو صرف وہی علم رکھتے ہیں جو تو نے ہمیں سکھلا دیا، اس سے زیادہ سوچنے سمجھنے، جانچنے پرکھنے، اور نفع نقصان کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے کی ہم اہلیت نہیں رکھتے۔ تب خدا نے حضرت آدم علیہ السلام سے پوچھا تم کیا علم رکھتے ہو ان چیزوں کے بارے میں تو حضرت آدم علیہ السلام نے اُس حکمت والے ربّ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت، جو ملائکہ اور آدم میں فرق کرتی ہی، عقل و شعور کا استعمال کیا اور اللہ وحدہُ لا شریک کے سکھائے گئے علم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا تجزیہ پیش کیا، چیزوں کی ماھیت کو دیکھتے ہوئے، اُن کے اثرات، نفع نقصان اور استعمال کے طریقوں پر اپنا خیال ظاہر کیا، اپنی سوچ کے وسیع دائرے میں تمام اشیاء کا با ہمی ربط اور انسانی وجود کے ساتھ تعلق کو دیکھتے ہوئے ایک موازنہ کیا اور اللہ کے حضوراسماء اشیاء کو پیش کر دیا۔ اسی اہلیت کی بنا پر ہی ملائکہ کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ اور جب انسان نے اپنی عقل کا استعمال چھوڑ دیا اور لکیر کا فقیر بن گیا تو وہ دنیا میں طاغوتی طاقتوں کا نشانہ بن گیا۔ اور لکیر بھی وہ جس کی سمت ہی غلط متعین کی گئی ہو، اگر دین حق کی لکیر کا فقیر بنا ہوتا تو کسی قابلِ ہوتا لیکن یہ انسان تو سرمایہ پرست نظام کی طرف کھینچی گئی لکیر پر دوڑے جا رہا ہے دوڑے جارہا ہے۔ اور جس صراط مستقیم کا قرآن نے حکم دیا اس کو پہچاننے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے ۔
آج کا مسلمان کہتا ہے دین میں، قرآن میں ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ یا وہ قرآن و دین کو صرف آخرت کی کامیابی سے جوڑتا ہے۔ یارسمی کاروائی کے لیے اس کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ قرآن جو ہمیں سکھاتا ہے کہ کیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی سیاسی فراست کے ذریعے فرعونی حکومت سے اپنی قوم کو آزادی دلائی۔ کیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی معاشی اور انتظامی بصیرت کا استعمال کر کے نا صرف اپنی قوم کو قحط سالی سے محفوظ رکھا بلکہ دیگر اقوام کو بھی رزق کے وسائل تک رسائی مہیّا کی، کیسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی دور اندیشی کی بنا پر جدید ترقیات سے قوموں کو متعارف کرایا، کیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خدا پرستی اور انسان دوستی کے نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے سماجی معراج کی بنیاد رکھی، اور کیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تمام زندگی ظلم مٹانے اور مظلوم کو انصاف دلانے، مساوات قائم کرنے میں وقف کردی۔ آج کے مسلمان کو سیرت کے پہلوؤں میں محض اپنی خواہشات کے مطابق کدو، مسواک، خوشبو سے زیادہ معلومات نہیں ملتیں ۔ اور وہ جو پورا قرآن حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ نظام کے اصول و ضوابط کی کتاب ہے، جس قرآن کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق (سیرت) کہا گیا، اُس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔
بنی اسرائیل کی تباہی کی بڑی وجہ یہی تھی، ان کے علماء کو جن احکام پر عمل کرنا آسان لگتا یا کسی پہلو سے ذاتی فائدہ حاصل کرنا مقصود ہوتا اس کو کھول کھول کر بیان کرتے اور جہاں ذاتی مفاد پر ضرب لگتی وہاں احکام یا تو چھپا لیتے یا معنی بدل کر اپنی مرضی کی تاویل و تشریح کرتے، اور عوام اپنی عقل و شعور کو پسِ پشت ڈال کر آمین کہہ دیتے۔
بالکل یہی سب کچھ آج اُمّت محمدی میں ہورہا ہے۔
چاہے انفرادی معاملات ہوں یا قومی و مُلکی مسائل، دین اسلام سب پہلوؤں پر ہماری رہنمائی کرتا ہے لیکن اگر دین کے حصے بخرے کر کے دین سے سیاست، معیشت، معاشرت کو نکال کرصرف عبادات تک محدود کر دیا جائے اور عبادات کا انداز بھی ایسا جس کا مقصد اللّٰہ کی عبادات میں پوشیدہ حکمت سیکھنا تو نہ ہو بلکہ دنیا میں دینی عمل سے لاتعلق ہوکر بزعم خود صرف جنّت کا ٹکٹ خریدنے کی نیت ہو، ایسی نمود کی عبادات جسمانی حرکات و سکنات تو ہو سکتی ہیں لیکن ان کی روح، اُن کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، شریعت کی مطلوبہ عبادات نہیں قرار پاسکتیں جیسے کوئی بےجان بت اپنے پوجنے والے کو نجات نہیں دلا سکتا ویسے ہی روح سے عاری عبادات مسلمانوں کو ظلم کے نظام کو مٹانے میں مدد نہیں دے سکتی۔اور قرب الہی کی منازل بھی طے نہیں کرسکتیں اور نصرت الہٰی بھی تبھی نازل ہوتی ہے جب احکام الہٰی کو پوری طرح عقلی سطح پر تسلیم کیا جائے اور ان کے نفاذ کے لیے اسوہ رسول اور سیرت صحابہ کرام کے مطابق جدوجھد کی جائے اور دین حق کی تعلیمات پر مشتمل معاشرہ قائم کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ انتشار ذھنی اور بے عملی اور بد عملی سے محفوظ فرمائے اور کل دین کی جامع رھنمائی سے انسانیت کو گمراہی اور مشکلات سے نکلنے کی راہ مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے آمین