قرآنِ کریم کے نزول کا مقصد اور جماعتِ حقہ کے ساتھ وابستہ رہنے کی اہمیت
قرآن کریم کے نزول کے مقصد کو سمجھ کر شعور حاصل کرنا اور پھر جماعت حقہ کے ساتھ وابستہ رہ کر صبر سے عمل صالح کرنا
قرآنِ کریم کے نزول کا مقصد اور جماعتِ حقہ کے ساتھ وابستہ رہنے کی اہمیت
تحریر: عزیز اللہ تاج، راولپنڈی
قرآنِ مجید آفاقی ،ابدی اور ہدایت والی کتاب ہے۔ اس کے قوانین تاقیامت آنے والی اقوام کی لیے ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زوال زدہ معاشروں کو ظلم کے اندھیروں سے نکال کر عدل، انصاف، عروج اور روشنی کی طرف لے کر جانے کے لیے واضح احکامات بیان فرمائے ہیں اور پھر انبیا علیہم السلام نے ان احکامات پر عمل کرتے ہوئے ہمارے لیے واضح، دو ٹوک اور سنت(راستہ) متعین فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے جماعت صحابہؓ کی مدد سے حجاز کو آزادی دِلا کر رہتی دنیا کے لیے ایک نمونہ پیش کیا۔ اور پھر آپؐ کی جماعت صحابہ ؓنے بین الاقوامی نظام قائم کر کے نبوی مقصد کی تکمیل کی۔الغرض! اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید کھلی دلیل کے ساتھ آچکی ہے تو اَب ہم پر یہ لازم ہے کہ قرآن کریم کی ان تعلیمات کو سمجھیں ، معاشروں کا تجزیہ کریں اور ان کے مسائل حل کرنے کی طرف بڑھیں۔
قرآن کریم کے نزول اور انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
هُوَ ٱلَّذِيٓ أَرۡسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلۡهُدَىٰ وَدِينِ ٱلۡحَقِّ لِيُظۡهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِ.(سورۃ الصف،09)
ترجمہ: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے تمام ادیان(نظاموں) پر غالب کردے ۔
یعنی قرآن کی تعلیمات( دین حق)اور نبی کریم ﷺکی بعثت دنیا میں اس لیے ہوئی کہ اس کو تمام ادیان(باطل نظاموں )پر غالب کردیں۔ایسے میں ہم پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ ہم بھی اپنے معاشرے کا تجزیہ کرکے، اس کے مسائل کا حل پیش کریں اور دین اسلام کی تعلیمات کو پہلے قومی اور پھر بین الاقوامی دنیا میں غالب کریں۔
قرآن مجید میں دوسری طرف آیا ہے:
لَآ إِكۡرَاهَ فِي ٱلدِّينِۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشۡدُ مِنَ ٱلۡغَيِّ(سورۃ البقرہ،256)
ترجمہ: زبر دستی نہیں دین کے معاملے میں بے شک ہدایت کا راستہ گمراہی سے الگ ہوچکا۔
قرآن کریم کی تعلیمات ہماری راہ نمائی کرتی ہیں کہ کسی بھی معاشرے کا تجزیہ کرنا ہو کہ وہ معاشرہ عدل پر مبنی ہے یا ظلم پر تو وہاں پر ہمیں دو عناصر کو دیکھنا ہوگا ، جس طرح سورۃ قریش میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ٱلَّذِيٓ أَطۡعَمَهُم مِّن جُوعٖ وَءَامَنَهُم مِّنۡ خَوۡف.(سورۃ القریش،04)
(ترجمہ) وہ جس نے انھیں بھوک سے ( بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔
یعنی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وہاں بھوک ہے یا خوش حالی ہے اور دوسری طرف خوف ہے یا امن ہے ۔ یعنی معاشی و سیاسی صورتِ حال سے معاشرے کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ معاشرہ عدل پر مبنی ہے یا ظلم پر۔ اگر بھوک اور افلاس ہے تو وہاں ہمیں مستحکم معاشی نظام لانا ہوگا اور دوسری طرف اگر سیاسی طور پر خوف وہراس کی فضا قائم ہے تو وہاں ہمیں امن و امان کا ماحول قائم کرنا ہوگا۔ دوسری جانب ہم قرآن مجید کی مکمل تعلیمات کا مطالعہ کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں معاشروں کی حقیقی آزادی ، عدل پر مبنی نظام ، سیاسی امن اور معاشی خوش حالی جیسے شعبہ جات پر نظر ثانی کرنی ہوگی اگر وہ معاشرہ غلامی، ظلم پر مبنی نظام، سیاسی خوف اور معاشی بھوک پیدا کررہا ہے تو قرآن ہماری راہ نمائی کرتا ہے کہ اس معاشرہ کو تبدیل کرکے ایک عادلانہ نظام قائم کیا جائے، جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اے اللہ اس سوسائٹی (مکہ) کو ایک پر امن شہر بنا دیجیے اور اس کے لوگوں کی معاشی حالت درست فرمادیجیے۔
جماعت حقہ کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
مُّحَمَّدٞ رَّسُولُ ٱللَّهِۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ(سورۃ الفتح،29)
ترجمہ: محمد الرسول اللہ ﷺ اور ان کی جماعت۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کا نظریہ اعلیٰ ہونے کے ساتھ جماعت کے رفقا اور مکمل جماعت کا ہونابھی لازم ہے۔ جماعت حقہ کا نظریہ کل عالم انسانیت کی فلاح کا نظریہ ہو اور اس میں رفقائے کار کی مکمل تربیت کا نظام موجود ہو۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَكُونُواْ مَعَ ٱلصَّٰدِقِينَ (سورۃالتوبہ،119)
ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کھلی کتاب اور دلائل کے ساتھ مکمل نازل ہوچکی ہے۔ اَب اس نظریہ اور جماعت کے ساتھ وابستگی اور عمل صالح کرنا، وقت کی اولین ضرورت ہے۔ سورۃ العصر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہی جماعت کامیاب ہے جو قرآن کریم کے مکمل پروگرام پر یقین رکھتی ہو اور پھر اس سمت میں عمل صالح کرتی ہو اور پھر حق کے اس مشن کے لیے ڈٹی رہے اور صبر کرے ، ان شاء اللہ کامیابی یقینی ہے جو جماعت اسی سمت میں عمل پیرا ہو گی-اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
كَتَبَ ٱللَّهُ لَأَغۡلِبَنَّ أَنَا۠ وَرُسُلِيٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٞ (سورۃ المجادلہ،21)
ترجمہ: اللہ لکھ چکا کہ ضرور میں غالب آؤں گا اور میرے رسول بےشک اللہ قوت والا عزت والا ہے۔
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
كَم مِّن فِئَةٖ قَلِيلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةٗ كَثِيرَةَۢ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۗ(سورۃ البقرہ،249)
ترجمہ: بہت دفعہ چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے بڑی جماعت پر غالب آئی ہے۔
دوسری جانب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَإِنَّ حِزۡبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡغَٰلِبُونَ (سورۃ المائدہ،56)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ اور کے رسول کو اور جماعت حقہ کو دوست بنائے تو وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے اور اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے۔
جب جماعت اعلیٰ نظریہ رکھتی ہے اور اس کے لیےوہ رفقائے کار کی تیاری اور تربیت کر رہی ہے تو اس کو بہت سی مشکلات اور سخت حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ جتنا بڑا نظریہ ہوگا اتنا ہی اس کی تیاری میں وقت صرف ہوتا ہے۔ اس لیے رفقائے کار کو ہمت اور حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے اور حق اور سچ جماعت سے وابستہ رہنا چاہیے اور صبر سے کام لینا چاہیے، کیوں کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ بھی یہ سوال کرتے تھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کی مدد بہت قریب ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جماعت حقہ کے ساتھ وابستگی نصیب فرمائے اور ہماری غلطی اور کوتاہیوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اور ہمیں اللہ تعالیٰ توفیق اور طاقت دے کہ ہم زیادہ سے زیادہ دین کے غلبےکے لیے کردار کریں۔