معاشرے کی تشکیل میں عقیدہ آخرت کا کردار
معاشرے کی تشکیل میں عقیدہ آخرت کا کردار

معاشرے کی تشکیل میں عقیدہ آخرت کا کردار
تحریر: سلمان نواز۔ بہاولپور
آخرت کا مفہوم:
مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے، اپنے تمام اعمال کے احتساب اور اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا پر ایمان و یقین رکھنا، عقیدہ آخرت کہلاتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا!"دنیامیں اس طرح زندگی بسر کرو جس طرح اجنبی یا راہ چلتامسافر ہو"
انسان کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ وہ جو عمل(Action) کرتا ہے،اس کا ردِعمل (Reaction) ضرور ہوتا ہے، جیسے جس بھی درخت کا بیج (Seed) بویا جائے گا، اسی بیج کادرخت ہوگا۔ گیند کو اوپر ہوا میں پھینکا جائے گا تو وہ ضرور زمین کی طرف آئے گی۔ عقیدہ آخرت پے یقین سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ موت صرف جسم کو آتی ہے۔ مرنے کے بعد بھی روح کی ترقی جاری رہتی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ لفظ ’’الاٰخرۃ‘‘ قرآنِ مجید میں ایک سو تیرہ مقامات پر آیا ہے۔
عقیدہ آخرت کا عملی زندگی سے تعلق:
ہمارے اخلاقی رویوں کا سارا انحصار عقیدہ آخرت کے یقین پر ہے۔ جب کوئی فرد یا قوم یہ سوچ لے کہ دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہے اور اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔تو ذرا سوچیے کہ اس وقت کسی قوم کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے کسی قوم کا استحصال بھی کرنا پڑا تو وہ پیچھے نہیں ہٹے گی۔ جنگ عظیم دوم میں جاپان نے سفید جھنڈا لہرا دیا تھا اپنی ہار تسلیم کرلی تھی، لیکن امریکا نے دنیا کے سامنے اپنی طاقت کی دھاک بٹھانی تھی تو وہ اپنی حیوانیت سے پیچھے نہیں ہٹا۔ آدھا ادھورا بھی آخرت کا نظریہ انسان کو انسان نہیں رہنے دیتا۔ اَب اگر کوئی فرد یا قوم یہ خیال کرے کہ اس کے بعد ایک اَور زندگی بھی ہے، جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کے لیے جوابدہ ہونا ہے تو اس وقت اس کا سماجی کردار انسانیت کے فائدہ کے لیے ہوگا۔
سائنس دانوں کا نظریہ آخرت:
مادیت پرستوں ، دہریوں اور نام نہاد سائنس دانوں کا ایک گمراہ کن نظریہ یہی ہے کہ کائنات خود بہ خود وجود میں آئی ہے۔ کوئی ایسی طاقت موجود نہیں ہے جو اس کائنات کو چلارہی یا کنٹرول کررہی ہے۔ بیسویں صدی کے شروع میں زیادہ تر سائنس دانوں کا یہی نظریہ تھا۔ اس وقت سائنس دانوں کا یہ خیال تھا کہ مادہ فنا نہیں ہوتا، صرف شکلیں بدلتا ہے۔ اسی وَجہ سے اکثر سائنس دانوں کا دنیا کے ختم ہونے پر یقین نہیں تھا۔ اَب جدید تحقیقات کی روشنی میں سائنس کا رویہ بالکل بدل چکا ہے۔ مادہ ٹوٹ چکا ہے اور ریاضی کی ایک برانچ Thermodynamics کے قانون نمبر دو کے مطابق سورج کی توانائی آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ سورج کی حرارت ختم ہوجائے گی اور پورا نظامِ شمشی درہم برہم ہوجائے گا۔ سورۃ التکویر میں ہے: ’’ جب سورج بے نور ہوجائے گا اور جب ستارے ٹوٹ کر گر پڑیں گے‘‘۔ قرآن میں قیامت کے جو آثار و واقعات بیان کیے ہیں موجودہ سائنسی تحقیقات اسی طرف انسان کی رہنمائی کررہی ہے۔
عقیدہ آخرت کے انسانی زندگی پہ اَثرات:
عقیدہ آخرت کے ذریعے انسان کے اندر نیک کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ وہ خود کو جھوٹ بولنے اور دیگر برائیوں سے بچا کے رکھتا ہے۔ عقیدہ آخرت پر یقین سے انسان میں اچھے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ عقیدہ آخرت انسانی اعمال و اخلاق میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کے برعکس آخرت کا نظریہ نہ رکھنے والے کا رویہ بے نتھے بیل کی طرح ہوتا ہے۔جہاں چاہتا ہے منہ اٹھا کر چل پڑتا ہے۔جہاں سر سبز کھیت نظر آتے ہیں منہ مارنے لگتا ہے۔ وہ اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسروں کا استحصال کرتا ہے اور دنیا کی زندگی کے خوب مزے لوٹتا ہے۔ سورۃ محمدمیں ہے: ’’ یہ منکرینِ آخرت اس طرح کھا پی رہے ہیں اور مزے اُڑا رہے ہیں جس طرح جانور کھاتے پیتے ہیں اور ایسے لوگوں کا انجام یہ ہے کہ جہنم ان کا ٹھکانہ ہے‘‘۔ جو انسان آخرت پہ یقین رکھتا ہے اس کا ایک ایک عمل اللہ کی رضا اور فکر انسانیت کے لیے ہوتا ہے۔ وہ ایسی تربیت یافتہ جماعت کا حصہ بنتا ہے جو خدا پرستی اور انسان دوستی کی بنیاد پہ معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔
احتساب کا دن:
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ’’جو انصاف کے دن کا مالک ہے‘‘۔
ہر انسان یا قوم جو بھی اعمال کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دنیا یا آخرت میں جزا و سزا (جنت و جہنم )کی شکل میں ضرور دیتا ہے۔ اگر کسی وَجہ سے مثلاً وہ دنیا میں سزا سے بچ گیا یا جزا سے محروم رہ گیا، تو ایک دن ایسا ہوگا جب اسے اپنے اعمال کی پوری پوری جزا یا سزا ضرور ملے گی۔ اسے "یوم الدین" کہتے ہیں۔اور دنیا میں یہ کام اللہ تعالیٰ اپنے نائب اور خلیفہ انسان کے ذریعے لیتا ہے۔ اگر یہ انسان دوستی یا مفادِعامہ کے بجائے مفادپرستی ، گروہیت یا طبقاتیت کو نوازنے کے لیے ہو تو یہ بڑی کوتاہی ہے۔ اس لیے ’یوم الدین‘ ہے کہ جس میں حاکموں اور فیصلہ کرنے والوں کے غلط فیصلوں پر نظرثانی کی جائے۔
خدا نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے،جس کو جتنی نعمتیں یا عقل و شعور دیا ہے اس سے اس کے متعلق ہی پوچھا جائے گا۔قرآن میں ہے: ’’ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہےوہ سب اللہ کی ملکیت ہےاور جو کچھ تمھارے دلوں میں ہےوہ ظاہر کرو یا چھپائے رکھو،ہر حالت میں اللہ تعالیٰ اس کا حساب لے گا‘‘۔ (284;2) چناں چہ ایک نعمت انسان کو دی گئی اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔ جو نعمت ایک جماعت کو دی گئی اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔ جو نعمتیں انسانیتِ عامہ کو دی گئی ہیں ،ان کا حساب ساری انسانیت کو دینا ہوگا۔
احساس ذمہ داری:
انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک بات کو سمجھ لے تو پھر اسے عمل میں لانے اور اسے تکمیل تک پہنچانے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا رہے۔انسان کا جوہر یہی ہے کہ وہ خود سوچ کر اپنی ذمہ داری سے کام کرتا ہے۔ اگر انسان کو اس بات پے یقین ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ترقی کے تمام اسباب و سامان پیدا کردیے ہیں۔ وہ ان اسباب سے کام لے اور اپنے فرائض ادا کرے تو اس کی ترقی یقینی ہے۔ انسان کے عمل کا تعلق اس کے عقیدہ کے ساتھ ہے، جب کہ جیسا اس کا عمل ہوگا، ویسا ہی اس کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عقیدہ آخرت یہ احساسِ ذمہ داری پیدا کرنا چاہتا ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد کل انسانیت کی خدمت ہے، لیکن پہلے درجے میں قومی نظام کی تشکیل اور پھر بین الاقوامی اصلاح احوال کیے بغیر انسانیت کی ہمہ گیر اور جامع خدمت ناممکن ہے۔
ہمہ گیر تبدیلی کا پیش خیمہ:
جو معاشرہ عقیدہ آخرت پہ ایمان رکھتا ہے وہ خود کو ان تمام اعمال و افکار سے بچا کر رکھتا ہے جو انسانیت کے لیے روحانی یا جسمانی لحاظ سے نقصان دہ ہیں۔ یومِ آخرت پر ایمان ایک فرد کی ذاتی زندگی میں بڑی تبدیلی برپا کرتا ہےاور ذات میں انقلاب انسانی معاشرہ میں تبدیلی کا پیش خیمہ بنتاہے۔ آخرت پہ ایمان رکھنے والی جماعت نہ خود ظلم و استحصال کرتی ہے اور نہ ہی ایسی قوتوں کو برداشت کرتی ہے جو انسانیت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ بلکہ عدل ، مساوات، بھائی چارہ اور رواداری کی بنیاد پے معاشرے کی تشکیل میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتی ہے۔
آج عقیدہ آخرت ہم سے یہ تقاضا کر رہاہے کہ سرمایہ پرستی کے ان تمام بتوں کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دینا چاہیے جو لعنت سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں ہم پر جبراً مسلط کردی گئی ہے اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ضروری ہے جو صرف اور صرف اللہ کی رضا اور انسانیت کی خدمت کے لیے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول کریں۔ آمین!