توہینِ مذہب پر درست حکمت عملی (قرآنی تعلیمات کی روشنی میں)
بعض خلوص کے مارے بے بصیرت کبھی کسی ایک نامناسب جگہ پر اور کبھی کسی دوسرے غلط مقام پر مقدس نام ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔۔۔
عالمی سامراجی کی
طرف سے کم یا غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے خلاف نفسیاتی جنگ میں ایک ہتھیار توہینِ مذہب بھی ہے۔ مذہبی حلقے بہت جلد اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس پہلو سے بھی ہم ایک پیچیدہ
دور سے گزر رہے ہیں۔
ابھی گزشتہ روز ملک
کی ایک بڑی عدالت نے حکم دیا ہے کہ سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ المعروف حضرت داتاگنج
بخش کے مزار پر لگی کلمہ طیبہ والی روشنیاں بجھا دی جائیں کہ ان کا عکس زمین پر پڑتا
ہے۔
ہم ہر کھمبے اور دیوار
پر اللہ تعالیٰ کے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء گرامی طغروں، بینرز اور پھولوں
وغیرہ کی صورت سجاتے ہیں جگہ جگہ درود, صلٰوۃ، سلام لکھتے، سجاتے اور لہراتے ہیں۔حتّٰی
کہ بعض تو قبر کی سِلوں پر کلمہءِطیبہ شریف لکھ کر میت کے اوپر سے قبر بند کرتے ہیں۔
اور قرآنی آیات لکھی چھپی چادریں قبروں، مزاروں اور درباروں پر چڑھاتے، بچھاتے، لٹکاتے
ہیں۔
ہماری چاہت، تخیل
اور تصور کا کمال ہے کہ ہم کبھی بادلوں میں، کبھی جانوروں کے بالوں کی ترتیب میں، کبی
درختوں کی شاخوں میں، کبھی ہاتھ کی انگلیوں میں اور دستانوں اپنے پیارے اللہ کا نام
تلاش کرتے کرتے جوتوں کے تلووں میں، اور جانے کہاں کہاں اللہ کا نام ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی
فخر کرتے وجد میں آتے ہیں اور کبھی توہین سمجھتے غیض وغضب میں لیکن بے بس ہیں کہ قہرِدرویش
بر جانِ درویش۔
دشمن ہماری نفسیات
کو سمجھ چکے ہیں۔ اور ہمارا علاج انہوں نے ڈھونڈ لیا ہے۔ اور وہ ہے وقفے وقفے سے ایسے
اقدامات کرتے رہنا کہ جن سے ہماری "غیرتِ ایمانی" مجروح ہوتی رہا کرے اور
بار بار ایسا کرتے رہنا تاکہ اشتعال، غیظ و غضب، چڑچڑاپن ہماری سوچ بچار اور نفسیات
میں سرایت کر جائے۔
تمام وہ چیزیں جن
پر دوسروں کو الزام دینا ممکن ہوتا ہے انکی تلاش، انکی تشہیر اور ان پر احتجاجی مظاہرے
ہم بڑے جوش و خروش سے کرتے ہیں۔ البتہ جن احکامات خداوندی، فرائض شریعت اسلامی اور
اسوہءحسنہ و سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کی وجہ سے ہماری اجتماعی زندگی
برباد ہو رہی ہے اور جن حرام کاموں میں مبتلا ہوتے رہنے کی وجہ سے ہم دنیا بھر میں
ذلیل ورسوا ہورہے ہیں انکی بابت اپنے کردار میں کسی بہتری کی طرف توجہ دلائی جائے تو
ہم بد مزہ ہوجاتے ہیں۔
ایک نیا محکمہ تفتیشِ
جوتا بنواکر بھی یہ والی گھٹیا خباثت ختم نہیں ہوگی۔ اس کا واحد علاج تو انہیں نظر
انداز کرنا ہی ہے۔ یقین مانئے گا کہ اگر ہمارے مسلمان بھائی اس نوعیت کی توہینوں پر
مشتعل ہونے کی بجائے انہیں نظر انداز کر دیا کریں تو یہ طریقہ دشمن کو بہت زیادہ فرسٹریشن
کا شکار کردے گا۔ چونکہ انہیں تو مزہ ہی تب آتا ہے جب ہم جذبات اور اشتعال میں نروس ہو کر منہ سے جھاگ نکالتے اور شوروغوغا
کرتے ہیں۔
بعض سادہ لوح خلوص
کے زیر اثر کبھی کسی ایک نامناسب جگہ پر اور کبھی کسی دوسرے غلط مقام پر مقدس نام ڈھونڈتے
پھرتے ہیں اور پھر اِنکو سوشل میڈیا پر پھیلا کر توہین توہین کا اشتہار بناتے ہیں۔
جبکہ ایسی توہین والی چیزیں سوشل میڈیا کے کاروبار والے بطورِ خاص پھیلاتے ہیں کیونکہ
انکا یہ کاروبار ہوتا ہے کہ انکی رجسٹریشن ہوچکی ہوتی ہے اور پھر انکی چیز جتنی زیادہ
شئیرنگ میں آتی ہے اتنا ہی انہیں گوگل والوں کی طرف سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ یہ گوگل
کا ٹریفک بڑھانے کا طریقہ ہے۔"
در اصل اس طرح کی توہین آمیز ہتھکنڈے بالکل گالی گلوچ کی طرح ہیں۔
اگر گالی کے جواب میں آپ صبر اور خاموشی کے ساتھ بے اعتنائی کا رویہ اختیار کرتے ہیں
تو گالی دینے والے کا حال دیکھنے والا ہوتا ہے۔ اور بزرگوں کے بقول جب کوئی کسی کو
"گالی" دیتا ہے تو دراصل وہ خود گالی دینے والے پر لوٹ جاتی ہے۔ بشرطیکہ
جسے گالی دی گئی ہے وہ ردعمل نہ دے بلکہ اس گالی کے جواب میں بردباری تحمل اور خاموش
برداشت کا مظاہرہ کرے۔ پھر اس کا وبال اسے لے ڈوبتا ہے۔
اسی لئے اللہ رب العزت
نے سورۃ النور کے دوسرے رکوع کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ کسی بھی فحش اور غلیظ بات
کو مومنین کے درمیان پھیلانے کی رغبت رکھنے والوں کیلئے دنیا اور آخرت میں ذلیل ورسوا
کردینے والا عذاب ہے۔
سخت حیرت ہوتی ہے
کہ کس جرأت کے ساتھ ہمارے مسلمان بھائی اللہ اور رسول کی توہین والے عمل کو خود اپنے
ہاتھ سے دہراتے ہیں۔ دشمن تو یہ کرے گا لیکن یہ خود اپنے آپ دشمن کی حرکت کو دہرانے
کو اس کا تدارک سمجھتے ہیں؟ نہیں جانتے کہ گالی اور توہین کا دہرانا دُھرا گناہ ہے
اور ڈبل عذاب کا سبب بنتا ہے۔
کسی بڑے بزرگ کو جب
یہ بتایا گیا کہ فلاں شخص نے آپ کو "یہ" گالی دی۔ اس پر وہ بزرگ اپنے اس
ہمدرد مرید پر سخت خفا ہو کر فرمانے لگے کہ
"اُس نے تو گالی وہاں دی تھی۔ اور اے احمق،
مجھ تک تو اس گالی کو تُو اٹھا کر لایا ہے۔"
ایک ضرب المثل ہے
کہ بدتمیز اور جاہل کے ساتھ مقابلہ اور بحث کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے سؤر کے ساتھ کُشتی
لڑنا۔ وہ آپ کو گھسیٹتے ہوئے کیچڑ میں لے جائیگا جہاں خود اس کا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن
آپ کا حُلیہ مسخ ہو جائے گا۔
عملی توہین، گالی
اور بد زبانی ایک شیطانی عمل ہے جو کفار اور منافقین کی جانب سے مسلمانوں کو مشتعل
کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا تھا۔ اللہ رب العزت کی طرف سے اسے جاہلیت قرار دے کر مسلمانوں
کو اس کے جواب میں ایک پُر وقار رویہ اپنائے کا حکم دیا گیاہے۔ چنانچہ سورۃ الفرقان
کے آخری رکوع میں ارشاد ہے کہ جب جاہل ان (مسلمانوں اور اُس دَور میں صحابہ اکرام)
سے (بدتمیزی اور توہین کے ساتھ) مخاطب ہوتے ہیں تو وہ انہیں سلام کہہ کر ان سے الگ
ہو جاتے ہیں۔ اور اپنے رب کےلئے سجدے اور قیام میں لگ جاتے ہیں۔
اللّٰہ کریم ہمیں
دین کا درست فہم اور بصیرت عطاء کرے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے۔آمین