نظریہ قرآن اورامام شاہ ولی اللہ کا فکر ایک نظر میں! - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نظریہ قرآن اورامام شاہ ولی اللہ کا فکر ایک نظر میں!

    آج قرآن پاک کی تعلیمات کو حضرت امام شاہ ولی اللہ کے فکر و فلسفہ کی روشنی میں سمجھنے اور اس پہ عمل کرنےکی ازحد ضرورت ھے۔اسی میں زوال سے نکلنے کا حل

    By عدیل احمد Published on Jun 06, 2024 Views 539

    نظریہ قرآن اورامام شاہ ولی اللہ کا فکر ایک نظر میں

    تحریر؛ عدیل احمد ملک۔ راولپنڈی

     

    "ابو لہب کے دونوں بازو ٹوٹ گئے، اس کا مال اس کے کسی کام نہ آیا۔" (سورۃ اللہب آیات ۱,۲)

    ان آیات کی تفسیر میں امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر کے مطابق، حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کو جب ہم پڑھتے ہیں تو کچھ فکر انگیز باتیں سمجھ میں آتی ہیں!

    جب نظام بدلا جاتا ہے تو سب سے پہلے مروجہ نظام کو سیاسی شکست دی جاتی ہے، دوسرے نمبر پر معاشی نظام کی شکست اور پھر تیسرے نمبر پر اجتماعی فکر و فلسفہ کی بالادستی کا اعلان ہوتا ہے۔ ابوجہل کے نظام کی سیاسی شکست کا اعلان سورۃاللہب سے پہلے سورہ النصر میں کیا گیا۔ اس کے بعد سورۃ اللہب میں نظام کی معاشی شکست کا ذکر ہے۔ ابو لہب چوں کہ اس نظام میں خزانچی اور ابوجہل کے دارالندوہ کے معاشی نظام کا سرکردہ تھا، اس لیے فرمایا گیا کہ، "ابو لہب کے دونوں بازو ٹوٹ گئے، اس کا مال اس کے کسی کام نہ آیا"۔ اَب تیسری بات فاسد نظام کی فکری شکست یا انقلابی فکر کی بالا دستی کی ہے جو کہ عقیدہ توحید کی بات ہی ہے۔ سورۃ اللہب کے بعد سورۃ الاخلاص میں قرآن اپنی فکری بالادستی کی بات کرتا ہے کہ اللہ ایک ہے تمام باطل نظاموں سے بے نیاز، نہ عیسائی فلسفہ کے مطابق کسی کا باپ ہے نہ بیٹا اور نہ ہی کوئی بت یا نظام اس کے دیے ہوئے نظام کی ھم سری کرسکتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا فکر ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ نزول قرآن کے مقاصد میں صالح اجتماعیت کا قیام، فاسد معاشرت کا خاتمہ اور عادلانہ فلاحی نظام کا قیام سرفہرست ہیں۔ اسی لیے علمائے حق فرماتے ہیں کہ موجودہ دور میں اسلام کو سمجھنے کے لیے شاہ ولی اللہؒ کے فلسفہ سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ موجودہ سماجی و اخلاقی زوال سے نکلنے کا مکمل اور جامع فلسفہ ہے۔ 

    حضرت شاہ صاحب مسلمانوں کے سیاسی عروج اور زوال کے سنگم میں پیدا ہوے،  انھوں نے مسلمانوں کا سیاسی عروج بھی دیکھا اور زوال میں جاتے ہوئے حکمرانوں کو بھی دیکھا، ایسے حکمرانوں کو شاہ صاحب نے تنبیہ کی، ان کو نظام بدلنے کی تاکید فرمائی، ان کے نا سمجھنے اور تنبیہ نہ ہونے پر شاہ صاحب نے "فک کل نظام" کا انقلابی فلسفہ دیا کہ اس باطل نظام کو توڑنے کی جدو جہد کرو۔ ان سے پہلے کے جو مجدد یا صوفیا ہیں وہ ہمارے سیاسی عروج کے دور کے ہیں، اس لیے ان کی تعلیمات اصلاحی نوعیت کی ہیں، کیوں کہ مسلمانوں کا نظام قائم تھا، اس لیے صرف اصلاح اور تبلیغ درکار تھی۔ لیکن شاہ ولی اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دور میں پیدا فرمایا جب دینی تعلیمات پر مبنی نظام مغلوب ہو گیا، آزادی ختم اور قوم انگریزوں کی غلام بن گئی۔اس لیے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے باطل نظام کو توڑ کر دور کے تقاضوں کے تناظر اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق نئے نظام کی تشکیل کی مکمل تشریح کردی۔ نہ صرف فلسفہ دیا، بلکہ اس پر ایک ایسی بنیادی جماعت بھی تشکیل دی جو کہ مختلف ادوار میں عملی جدوجہد کرتی ہوئی آج کے دور تک قائم اور دینی نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ دین حق کا جامع نظریہ جو شاہ صاحب نے دیا، وہ علمی اور عملی جماعت کی شکل میں محفوظ ہے، اس پر آج تیز تر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی تبدیلی کے حقیقی فلسفہ کو چھوڑ کر ادھر ادھر سے کبھی اصلاح اور اسی سرمایہ دارانہ نظام کو اسلام کے قریب تر بتا کر الیکشن کے ذریعے جزوی تبدیلی کی بات کرنا، ہمہ گیر تبدیلی کو چھوڑ کر کسی ایک جزو مثلاً بے حیائی کو پکڑ کر اس کی اصلاح میں لگے رہنا یا نظام کے ایک جزو سود کو پکڑ کر اس کو تمام مسائل کی جڑ قرار دینا، اسلام اور سچے اولیاء اللہ کی تعلیمات سے غداری ہے اور عوام کی مخلصانہ کوششوں کو ضائع کرنا ہے۔

    لہٰذا قرآن کے نظریے کو سیرت النبی ﷺ، سیرت صحابہؓ، 12 سو سالہ نظام عدل کے پس منظر میں سمجھنا اور آج کے دور امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کی جماعت کی تعلیمات اور جدوجہد کے تناظر میں سمجھ کر اس پر عمل کرنا دین حق کا تقاضا ہے۔

    Share via Whatsapp