علماء حق اور صراط مستقیم - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • علماء حق اور صراط مستقیم

    دور حاضر میں جہاں کثرت سے مذہبی جماعتیں موجود ہیں اور شعلہ بیان عالم دین میڈیا کے ذریعہ عوام الناس میں سرایت پذیر ہیں درست رہنمائی کا معیار کیا ہو گا۔

    By توصیف افتخار Published on Jul 31, 2019 Views 2867

    علماء حق اور صراطِ مستقیم

    تحریر: توصیف افتخار، لاہور


    وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الْـهُدٰى وَيَتَّبِــعْ غَيْـرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُـوَلِّـهٖ مَا تَوَلّـٰى وَنُصْلِـهٖ جَهَنَّـمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيْـرًا ( سورة النساء 115) 

    ترجمہ: اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

    اللہ سبحانہ تعالٰی بے نیاز ہے اس نے دین حق اور اپنے انبیاء انسانوں کی رہنمائی کے  لیے نازل فرمائے۔ انبیاء اکرام نے انسانوں میں کام کرنے کے لیے ہمیشہ ایک جماعت قائم کی اس کی تربیت کا بندوبست کیا۔ نبی اکرم ؐ نے بھی جماعت صحابہ کی تربیت کی اور اس اعلٰی معیار پر پہنچایا کہ وہ جماعت اس قابل ہو گئی کہ پہلے قومی سطح پر دین حق کا غلبہ قائم کیا اور بعد ازاں اس پیغام انسانیت کو اقوام عالم میں پھیلایا اور دنیا کے ظالم نظاموں سے انسانوں کو نجات دی اور ان کے معاشروں میں عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کئے۔ صحابہ اکرامؓ جو معیار حق تھے انہوں نے نہ صرف انسانی معاشروں کو ظلم سے نجات دی بلکہ اپنے بعد آنے والے انسانوں کی تربیت کا بندوبست کیا۔ تابعین اور تبع تابعین نے نا صرف صحابہؓ کو معیارِحق جانا بلکہ دینی علوم و فنون کی ترویج و تخلیق میں قرآنِ حکیم اور سنت رسول کے بعد رہنمائی کا منبع سمجھا۔

    ہر سو سال بعد انسانی معاشرہ ایک تبدیلی سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ ہر آنے والی انسانی نسل پچھلی نسل سے کچھ مختلف اوصاف کی حامل ہوتی ہے اور دو سے تین نسل گزر جانے کے بعد لامحالہ ایک ایسی نسل وجود میں آتی ہے جس کا فکرو عمل تین چار نسل پیچھے کے انسانوں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ یہ فرق نا صرف فکروعمل میں نمایاں ہوتا ہے بلکہ انسانی معاشرہ اور ماحول بھی بدل جا تا ہے۔ اس بدلے ہو ئے معاشرہ میں نئے نئے قسم کے مسائل اور سہولیات پیدا ہوتے ہیں اس دور کے مسائل کے حوالے سے رہنمائی دینا علماء مجددین کے پیشِ نظر رہا ہے۔ ان علماء کے کردار کا بنیادی وصف و ہدف یہ رہا کہ نئی نسل کو علماء ربانی کی اس جماعت سے جوڑا جائے جس نے ہر دور میں صحابہ کے کردار کے موافق کام کیا۔

    مسلم معاشروں میں علماۓ حق کا یہ تسلسل دورِ زوال سے پہلے تک بہت نمایاں رہا۔ برِصغیر پاک و ہند میں اورنگزیب عالمگیر ؒ کے بعد پیدا شدہ دورِ زوال میں انگریز کے شب خون نے زوال کی رات کو مزید تاریک کر دیا۔ اس دور کے علماۓربانی نے  از روۓ اتباع اسوۂ صحابہ ظالم حملہ آور فرنگی قوم کے خلاف میدان جہاد کا انتخاب کیا۔ برصغیر پاک و ہند کی مسلم اور غیر مسلم تمام اقوام کی قومی آزادی کو فریضۂ حق سمجھا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔دور کے بدلتے ہو ئے تقاضے کے مطابق مسجد، مدرسہ اور خانقاہ چھوڑ کر میدان کارزار کو زیب و زینت بخشنا دینی فقاہت اور جماعتِ حقہ سے وابستگی کا نتیجہ تھا۔ انگریز کی غلامی قبول کرنا کسی طور بھی جائز نہیں سمجھی جا سکتی خاص طور پر جب وہ ایک ظالم حکمران ہو۔ اس سے بڑھ کر ظلم کا ثبوت کیا ہو گا کہ ایک معاشی طور پر خوشحال قوم جو کہ دنیا کی پیداوار کا 25 فیصد پیدا کر رہی ہو اسے لوٹ کھسوٹ کر کنگال کر دیا جاۓ۔ قحط کا شکار بنا دیا جائے اور جب یہاں سے انگریز گیا تو اس قوم کوایک مقروض قوم بنا گیا۔ 

    زوال کے اس دور میں انگریز نے سیاسی زوال اور معاشی بدحالی پیدا کرنے کے علاوہ فکری گمراہی پیدا کرنے کی بھی بنیاد رکھی۔ سیاسی غدار میر جعفر و میر صادق پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ فکری غدار، علماۓ سوء بھی پیدا کئے۔ جن کا مقصد فکری گمراہی پیدا کرنے کے لیے نئی نسل کو علماۓ حق سے کاٹنا تھا۔ پہلے ایسے علماء خریدے جو انگریز کی وفاداری کا دم بھرنے لگے اور اسی کی تبلیغ کرنے لگے۔ بظاہر اپنے آپ کو مسلمانوں کا ہمدرد کہا مگر مسلمانوں کو علماء حق سے کاٹنے کا کام کیا۔  اپنے فرنگی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے آزادی کی جنگ کو غدر ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے اور جدوجہد آزادی میں جانیں قربان کرنے والوں کو غدار قرار دیا۔ یہی فتنہ کی پہچان ہے کہ وہ علماۓ حق کے تسلسل سے کاٹتا ہے۔ اللہ اور رسول کا نام لے کر اپنے ساتھ جوڑتا ہے اور علماۓربانی کو جھٹلاتا ہے۔ پھر انگریز نے باقاعدہ ایسی جماعتیں پیدا کیں جو کہ دین میں غلو پیدا کرتی رہیں۔ ایسی جماعتوں کے بانیان اپنے آپ کو سچا و حق پرست جتلاتے ہیں اور حق ہے کیا ؟ وہ وہی ہے جو وہ بیان کریں۔ اور اس کو ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے دلائل دیں۔ یہ لوگ اپنے سے پچھلوں کو جھٹلاتے ہیں۔ اور دین کی نئی تشریح کرتے ہیں۔ اس انگریزی دورِ حکومت میں ہی ایک طرف ایسے جعلی پیر پیدا کئے گئے جنہوں نے دین  و عشقِ رسول کے نام پر اولیاء اللہ کے تشخص اور فکر وعمل کو نظروں سے اوجھل کر کے عرسوں اور میلوں کو دین کی شکل دے دی ۔ اور دوسری طرف ایسے علماء پیدا کۓ جنہوں نے قرآن اور حدیث کے نام پر علماۓ ربانین اور اولیاء اللہ کی نفی کردی اور دین کی من مانی تشریح شروع کر دی۔ 

    Share via Whatsapp