قرآن مجید کی تعلیم - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قرآن مجید کی تعلیم

    ہُوا یوں کہ وہ اندازِ تعلیمِ قرآن کہ جس سے صحابۂ کرام (رضی اللہ عنہم) میں اسلام کے عادلانہ نظامِ حکومت کو چلانے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ اسے بدل دیا گیا۔

    By Mubashar Hussain Published on Aug 17, 2020 Views 5647
    قرآن مجید کی تعلیم
    تحریر : مبشر حسین ۔ گوجرانوالہ

     قرآن حکیم کی تعلیم جس سے صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم اجمعین ) میں عادلانہ نظامِ حکومت چلانے کی صلاحیت پیدا ہوئی ، وہ اندازِ تعلیم و تربیت جب مسلمان جماعت میں کمزور ہوا تو دین کے عالمی غلبے کی نعمت سے ہمیں محروم ہونا پڑا ۔
    آج کے دور میں مسلمان جماعت کے غلبہ دین کے نظریہ سے بے شعوری کے علاوہ اس کے زوال کے اسباب میں قرآن کریم کے ساتھ تعلیم و تربیت کے تعلق میں کمی پیدا ہونا ہے ۔ 
    " اسباب زوال کی تفصیل " 
    1-قرآن کریم کامطالعہ بالعموم مادی ، فنی اور سائنسی تحقیق کے لیےکیاجا رہا ہے ۔ نظریہ عدل کی سوچ مفقود ہے ۔
    2-پروپیگنڈا کی قوت سے شہرت پانے والی شخصیات کی من پسند تعبیر قرآن پڑھ کر بلا تحقیق وتصدیق اس پر اعتماد کر لیا جاتا ہے جب کہ وہ ہدایت قرآنیہ اور روح عصر سے خالی ہوتی ہے ۔
    3 ۔ قرآن حکیم محض ثواب حاصل کرنے کی نیت سے پڑھ لیا جاتا ہے جب کہ اس کے نظریہ زندگی سے اعراض برتا جاتا ہے ۔
    4 ۔ کسی بھی پریشانی اور مسئلہ کے حل کے لیے محض دَم درود اور عملیات کو کافی سمجھا جاتا ہے ۔ نظام ظلم کے خاتمے کی جدوجہد نہ کرنے پر مطمئن رہا جاتا ہے حالانکہ پریشان کن مسائل اسی غفلت کے گناہ سے جنم لیتے ہیں ۔
    5 - عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات پیدا کردی جاتی ہے کہ قرآن کی تعلیم صرف عُلماء اور بزرگ ہی  سمجھتے ہیں ۔ عام لوگوں کے یہ بس کی بات نہیں ہے ۔
    6 - قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات محض قصے کہانیاں سمجھے جاتے ہیں اور ان سے نصیحت و رہنمائی کا حصول چھوڑ دیا جاتا ہے ۔حالانکہ قرآنی قصص ہردور کےاجتماعی مسائل حل کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔                                      
      " قرآن حکیم کی تعلیم خود قرآن کی زبان سے " 
    قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اس کے نزول کے مقاصد کو متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے جن کے فہم سے انسانی جدوجہد اور مسلمان جماعت کی ذمے داریاں سمجھ میں آتی ہیں ۔ جن میں سے چند یہ ہیں :- 
    اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ  ؕ  اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ  ؕ  (سورۃ البقرہ،121)
    جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ، وہ اسے پڑھتے ہیں جیسے اسے پڑھنے کا حق ہے ، وہی لوگ ( درحقیقت ) اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ 
    ایک جگہ ہے :
    یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ (سورۃ النساء،26)
    اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے ( احکام کی ) وضاحت کردے اور جو ( نیک ) لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں ، تمہیں ان کے طریقوں پر لے آئے ۔ 
    اسی سورت کی آیت نمبر 82 میں ہے : 
    اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا ° 
    کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ! اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بکثرت اختلاف پاتے ۔
    سورہ طٰه میں ہے : 
    وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا وَّ صَرَّفۡنَا فِیۡہِ مِنَ الۡوَعِیۡدِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ اَوۡ  یُحۡدِثُ لَہُمۡ ذِکۡرًا ° (الآیہ112)
    اور اسی طرح ہم نےاس ( وحی ) قرآن کو عربی کی شکل میں نازل کیا ہے اور اس میں تنبیہات کو طرح طرح سے بیان کیا ہے ، تاکہ لوگ پرہیزگاری اختیار کریں یا یہ قرآن ان میں سوچ سمجھ پیدا کر دے ۔ 
    سورۃ الانبیاء میں ہے :
    لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ  اِلَیۡکُمۡ  کِتٰبًا فِیۡہِ ذِکۡرُکُمۡ ؕ اَفَلَا  تَعۡقِلُوۡنَ °  (الآیہ،10)        
    یقیناً ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں تمہارے لیے نصیحت ہے۔ کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے؟ 
    سورۃ الفرقان میں ہے :
    وَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ لَمۡ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمۡیَانًا ° (الآیہ،73)
    اور جب وہ اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کیے جاتے ہیں ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گر پڑتے ۔
    سورۃالاحزاب میں ہے :
    لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ  فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ  لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ  کَثِیۡرا ° (الآیہ،21)
    حقیقتاً تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو ۔
    سورہ ص میں ہے :
    کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ  لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ  اُولُوا الۡاَلۡبَابِ °(الآیہ،29)
     یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ پر اس لیے اتاری ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقل رکھنے والے نصیحت حاصل کریں ۔
    سورۃ الدخان میں ہے :
      فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ °ا(الآیہ،58)
     بس ہم نے آپ ہی کی زبان میں اس  ( قرآن )  کو آسان کر دیا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔
    سورہ محمد میں ہے :
    اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا  °(الآیہ،24)
    کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے ( لگے ہوئے )  ہیں ۔
    سورۃ القمر میں ہے :
    وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ  لِلذِّکۡرِ  فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ °(الآیہ،17)
    اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا ہے ، کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟
    سورۃالجمعہ میں ہے :
    ھوَ الَّذِیۡ  بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ  رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ  یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ  اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ  یُعَلِّمُہُمُ  الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ (الآیہ،2)
     وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں ، انہی میں سے ایک رسول ( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجے ، وہ انہیں اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں ، اُن ( کے ظاہر و باطن ) کو پاک کرتے ہیں ، انہیں کتاب ( قانون شریعت )اور حکمت ( اجتماعی نظم ) کی تعلیم دیتے ہیں ۔
                                                                           " قرآنی حکیم کی تعلیم کی ضرورت " 
       
    ان آیات قرآنیہ سے یہ رہنمائی ملتی ہےکہ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہو کہ جس میں قرآن مجید کے غلبہ دین ؛ خاتمہ ظلم اور قیام عدل کے نظریہ پر تعلیم کا درست نظام ہو ، جس سے نہ صرف ذاتی و خاندانی زندگی کے نظم میں بہتری آئے بلکہ نظامِ ریاست چلانے کی صلاحیت بھی پیدا ہو ۔ 
    " انسان کا مقصد تخلیق " 
    انسان کا مقصد تخلیق مندرجہ ذیل آیات مبارکہ سے واضح ہوتا ہے : 
     سورۃالبقرہ میں ہے :
    وَ  اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ (الآیہ،30)
    اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔  
    سورۃ ص میں ہے :
    یٰدَاوٗدُ  اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ (الآیہ،26)        
    اے داود ( علیہ السلام ) ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ (حاکم و منتظم ) بنایا ہے ، پس تم لوگوں کے درمیان حق (انصاف ) کے ساتھ فیصلے کرو ۔ 
    " بطور نتیجے کے آخری بات " 
     جب تک ہمارے ملک کا تعلیمی نظام جو غلام قوم کے لیے بنایا گیا تھا ، تبدیل نہیں ہوتا اور قران کے عادلانہ نظریہ کے تحت تشکیل نہیں پاتا اس وقت تک قومی سطح پر مسائل میں نہ کمی واقع ہوگی اور نہ ہی حل ہوں گے ۔
    Share via Whatsapp