سورۃ الفاتحہ کی اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سورۃ الفاتحہ کی اہمیت

    سورۃ الفاتحہ قرآنِ حکیم کے مضامین کا خلاصہ ہے۔ قرآنِ حکیم میں انسانی زندگی کی تعمیر و تشکیل کے جتنے امور بیان کیے گئے ہیں، ان کا اللہ کے سامنے ......

    By طلحہ بن صبور Published on Nov 02, 2024 Views 247

    سورۃ الفاتحہ کی اہمیت

    تحریر: طلحہ بن صبور۔ا وکاڑہ 

     

    سورۃ الفاتحہ  قرآنِ حکیم کے مضامین کا خلاصہ ہے۔ قرآنِ حکیم میں انسانی زندگی کی تعمیر و تشکیل کے جتنے امور بیان کیے گئے ہیں، ان کا اللہ کے سامنے پیش کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے، خالق اور مخلوق کے تعلق کا درست دائرہ اور پھر مخلوقات کے درمیان انسانی حقوق کی ادائیگی کا درست طریقہ کار اور ان دونوں دائروں میں انسان کو اللہ سے کیسے اور کیا مانگنا چاہیے،اس مانگنے کا صحیح طریقہ بھی اس سورت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سورت کے دو حصے ہیں، "اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ایک حصہ میرے لیے ہے اور ایک حصہ میرے بندوں کے لیے ہے"۔

     

    حضرت شیخ الہندمولانا محمودحسنؒ نے اس سورت کے بارے میں یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اس سورت کا ایک نام تعلیم مسئلہ بھی ہے، یعنی اللہ سے سوال کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ اس سورت کو اُم الکتاب بھی کہا گیا ہے، یعنی یہ قرآنِ حکیم کی بنیادی تعلیمات کی نمائندہ سورت ہے اور اس کے ذریعے سے قرآنِ حکیم کے نزول کے مقاصد کو اصولی درجے میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی اس سورت میں انسانی معاشرے کی تشکیل اور ترقی کے لیے جس نظامِ عدل کی ضرورت ہے، اس کی طلب کی گئی ہے اور اس نظامِ عدل کے قیام کے لیے واضح فکر اور اس کے غلبے کے لیے انبیائےکرام علیہم السلام والے راستہ اور طریقہ کار کی درخواست کی گئی ہے اور انسانیت مخالف طبقات کے راستے سے بچنے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔

     

    سورۃ الفاتحہ، یعنی وہ سورت جس سے قرآن حکیم کا آغاز ہورہا ہے۔ بنیادی سورت ہونے کی وَجہ سے اس کو الاساس بھی کہا گیا ہے اور اسی طرح اس کے اَور نام بھی ہیں۔ اُم الکتاب کا مطلب قرآنِ حکیم کی بنیاد۔ اس سورہ کے جو مضامین ہیں وہ بہت ہی بنیادی مضامین ہیں۔ سورہ فاتحہ قرآنِ حکیم کے تمام مضامین کا ایک قسم کا نچوڑ اور خلاصہ ہے، اسی بنا پر اس کی اہمیت کی وَجہ سے اس کو مستقل طور پر نماز کا جزو بنا دیا گیا۔ نماز کی ہر رکعت میں،خواہ کوئی بھی نماز ہو، فرض ہو سنت ہو یا نفل ہو، اس سورہ کی تلاوت ہوتی ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل ہوتی ہے، اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری بنیادی عبادت کا یہ ایک لازمی جزو ہے۔ اس سورہ کے بارے میں رسول اللہﷺنے ایک حدیث قدسی بیان کی کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ اس سورہ کے مضامین میرے اور بندے کے درمیان تقسیم شدہ ہیں، یعنی اس سورت میں آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ اس میں بندے کا ہے اور ظاہر ہے بندے کا جو حصہ ہے وہ ایک سوال اور ایک دعا کی شکل میں ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ بندے نے جو کچھ مانگا اسے عطا ہوگا، تو جو پہلا حصہ ہے اس میں اللہ کی حمد و ثنا ہے تو یہ خالص اللہ کا حصہ ہے اور دوسرے حصے میں اللہ سے درخواست ہے دعا ہے اس لیے وہ بندے کا حصہ ہے۔ یہ بھی گویا اللہ تعالیٰ کا اس انسان کے حوالے سے ایک بہت بڑے انعام کا تاثر دیتا ہے کہ اللہ نے کس طرح اپنی ایک مخلوق کو اس سورہ کے حوالے سے اہمیت دی ہے، حال آں کہ اللہ کی بہ طور خالق کے مخلوق کے ساتھ جو نسبت ہے وہ کوئی نسبت بنتی نہیں ہے، خالق اور مخلوق کی کیا نسبت ہوگی، لیکن اس انسان کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے یہ بات ذکر کی گئی ہے اور یہ انسان کا بہت بڑا شرف ہے، اس سے پوری کائنات میں اللہ کی نظر میں اس انسان کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا سورت الفاتحہ انسان سے یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ انسان غیر کو چھوڑ کر صرف اور صرف ایک ذاتِ واحد اللہ کا ہوجائے جو اس کی ہر قسم کی ضروریات پوری کرنے اور ترقی کے راستے پر چلانے والا ہے، یہی انسان کے لیے بہت بڑا شرف ہے۔

     

    Share via Whatsapp