مثالی معاشرے کا قرآنی نقطہِ نظر - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مثالی معاشرے کا قرآنی نقطہِ نظر

    قرآنی تعلیمات کے مطابق وحدتِ انسانیت کا نظریہ،معاشی خوش حالی کی معیشت اور امن کی سیاست ایک مثالی معاشرے کی پہچان ہے۔

    By حافظ ایوُّب قاسمی۔مردان Published on Sep 07, 2020 Views 4490
    مثالی معاشرے کا قرآنی نقطۂ نظر
       تحریر: حافظ ایُّوب قاسمی۔مردان

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرتاً اجتماعیت پسند پیدا کیا ہے۔ انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے معاشرے کا محتاج ہےاِس لیے انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور  سماجی معاہدات کرتا ہے۔ سماجی  معاہدات سے  پہلو تہی انسانی زندگی کے لیے نا ممکن ہے۔ماہرینِ عمرانیات کسی بھی سماج کی تین بنیادوں کا ذکر کرتے ہیں۔
    ان بنیادوں میں نظریہ معاشرے  کے نظامِ حیات کاتعین کرتا ہے، مستحکم سیاست  بِلا امتیازاجتماعِ انسانی کےحقوق کا تحفظ کرتی ہے جب کہ معیشت دستیاب وسائل سےمادی احتیاجات کی  سہولت کے ساتھ تکمیل کرتی ہے۔ قرآنِ حکیم  انہی تین بنیادوں کی روشنی میں مثالی اور غیر مثالی سماجی تشکیل کا تعارف کراتا ہے۔
    نظریاتی بنیاد
    نظریہ ایک مستحکم سوچ کا نام ہے جو کسی سماج کےنظامِ زندگی کی سَمت متعین کرتا ہے ۔قرآنِ کریم  تمام انسانوں کو ایک وحدت  کی لڑی میں پرو دیتا ہے۔سورۃ الحجُرات کی آیت49 میں سب انسانوں کو ایک ماں باپ سے پیدا کیے جانے کا ذکر ہے۔  اللہ تعالیٰ انسانیت میں بَہ حیثیتِ انسان  تفریق روا نہیں رکھتاگویا انسانیت ایک ناقابلِ تفریق اکائی ہے۔معاشرے میں بھی اس کی نظریاتی عکاسی ہوگی۔ مخلوق کو اللہ کا کنبہ سمجھا جائے گا اور کسی کو فرعون یعنی خدا بننے کی اجازت نہیں ہوگی۔
    قرآنی نقطۂ نظر سے ایک مثالی معاشرہ اللہ تعالٰی کو حقیقی خالق و مالک مان کر اس کی مخلوق میں بَہ حیثیتِ انسان کوئی تفریق روا نہیں رکھے گا۔اس  کے نظریے میں بِلاامتیازکُل انسانیت کی ترقی کی وسعت موجود ہوگی۔
    قرآنِ کریم کے مطابق جس معاشرے کا نظریہ تفریقِ انسانیت اور فرقہ واریت پر مبنی ہو گا، وہ غیر مثالی معاشرہ ہو گا۔قرآنِ کریم سورۃُ القصص آیت4 میں انسانیت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کو  سرکش فرعونی نظام و معاشرے کا شیوہ قرار دیتا ہے اور اِس کو زمین میں فساد سے تعبیر کرتا ہے۔
    سورۃ الرّوم کی آیت30 میں اُن لوگوں کی طرح نہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے جنھہوں نے اپنے دین  میں پھوٹ ڈالی اور فرقوں میں بٹ گئے۔جس کا  نظریہ انسانیت کی تقسیم پر مبنی ہو،وہ مثالی معاشرہ نہیں کہلا سکتا بلکہ’’تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعَاً وَّ قُلُوْبَھُمْ شَتّٰی‘‘ (تم ان کو اکٹھے سمجھے ہو اور ان کے دل جدا جدا ہیں۔الحشر آیت 14)کے مصداق ایک  ہجوم اور بِھیڑ کہلائے گی۔
    پس مثالی معاشرے کا نظریہ اللہ تعالی کی حاکمیت اور بِلا امتیاز کل انسانیت کی ترقی  کا ہو گا اور جس معاشرے میں فرقہ واریت،تفریقِ انسانیت،طبقات اور انسانی خدائی کا نظریہ کارفرما ہو،وہ  ایک غیر مثالی معاشرے سے تعبیر ہو گا۔
    معاشی بنیاد
    معاشرتی تشکیل کے اُمور میں معیشت ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔
    کسی معاشرے کے معاشی نظام  کے پس منظر میں دراصل اس معاشرے کا نظریہ کار فرما ہوتا ہے۔ دینِ اسلام  کے نظامِ معیشت میں کار فرما فکر وفلسفہ انسانیت کے مادی وروحانی دونوں پہلوؤں کی ترقی کا احاطہ کرتا ہے۔اس لیے دینی معاشرہ مادی ضروریات کی بَہ سہولت تکمیل کے بعد افرادِ معاشرہ کی اخلاقی ترقی کا  انتظام  کرتا ہے اور انہی اخلاق کے نتیجے میں اجتماعیت اور  مفادِ عامہ کے اُمور کا قیام ممکن بناتا ہے۔
    قرآنِ کریم ایسے معاشرے کو مثالی معاشرہ قرار دیتا ہے جس کا نظامِ معیشت،  معاشی اطمینان اور فراوانیٔ رزق کا ذریعہ ہو نہ کہ لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنے۔
    قرآنی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے میں ایسے  معاشی نظام کا قیام لازمی  ہے جو اجتماعی خوشحالی کا سبب ہو  اوررزق کی فراخی پیدا کرے۔جس میں’’خَلَقَ لکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعاً‘‘ (زمین میں سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا۔سورۃ البقرہ آیت29)کے تناظر میں بنیادی انسانی حقوق فراہم ہوں،’’و رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِی مَا اٰ تٰکُمْ‘‘ (تم میں سے بعض کے درجے بعض سے بَلند کر دیے تاکہ تمھیں جو کچھ دیا ہے،اس سے آزمائے۔سورۃ الانعام آیت 165)کے نیتجے میں درجاتِ معیشت میں ایسا عادلانہ توزان ہو جس سے انسانیت اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی کرے مگر مفاد عامہ کی خلاف ورزی بھی نہ ہو ۔ اورسورۃُ الھمزہ  میں بیان کردہ اصول کے نتیجے میں کنزِ مال کی ممانعت موجود ہو۔
    سورۃ النحل کی آیت112 میں  اللہ تعالیٰ’’مُطْمَئِنّۃً یَاْتِیْھَا رِزْقَھَا رَغَداً مِّنْ کُلِّ مَکانٍ‘‘(ایک بستی تھی مطمئن،اس کے پاس اس کا رزق ہر جگہ  سے بافراغت آتا تھا) کے الفاظ میں مثالی نظامِ معیشت کا تعارف کراتا ہے ۔
    اللہ تعالٰی  اپنی نعمت کا ذکر کرتے ہیں کہ عادلانہ نظامِ معیشت کے قیام کے ذریعے قریش  کی معاشی بھوک اطمینانِ رزق میں تبدیل کر دی۔
    معاشی بنیاد پر قرآنِ کریم ایک غیر مثالی معاشرے کا تعارف بھی کراتا ہےکہ غیر مثالی معاشرے کا  نظامِ معیشت چند افراد کے فائدے اور لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات اور بھوک کا پیام ہوتا ہے۔ سورة النحل کی آیت ہے کہ جب کفرانِ نعمت کے نتیجے میں معاشرہ دینی نظامِ معیشت سے انحراف کرتا ہے تو معاشی بھوک اس کا احاطہ کرتی ہے۔
    پس قرآنی نقطۂ نظر کے مطابق جس معاشرے کا معاشی نظام اجتماعی معاشی خوش حالی اور رزق کی فراوانی پیدا کرے،وہ ایک مثالی معاشرہ ہو گا اور جس  معاشرے کا نظامِ معیشت انسانیت پر معاشی بھوک اور وسائل کا ارتکاز مسلط کر دے ، وہ ایک غیر مثالی معاشرہ  ہو گا۔
    سیاسی بنیاد
    حضرت امام شاہ ولی اللہؒ کے مطابق افرادِ معاشرہ کے مابین تعلقات اور حکومت و رعایا کے درمیان معاملات اور معاہدات کی درست نوعیت متعین کرنے کانام سیاست ہے۔(حجۃُ اللہ البالغہ،ج۱،ص ۴۴)
    قرآنِ کریم  ایسی سیاست کا متقاضی ہے جس  میں جمہوریت کی روح کار فرما ہو۔جمہوریت کی بنیاد شورائیت پر ہے اور شورائیت کے لیے شعوری رائے رکھنا ضروری ہے اور  رائے کی آزادی کا حق فراہم کرنا لازم ہے۔ 
    سورہِ آلِ عمران آیت نمبر138 میں نبی کریمﷺ کو اپنی جماعت سےاہم امر(سیاست و حکومت) میں مشورہ لینے اور عزم یعنی متفقہ فیصلے کے نتیجے میں عمل کرنےکے لیے اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔امام ابو بکر جصاص ؒ نے احکام القران میں اِسی آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ نبی کریمﷺ کے لیے (سیاسی نظام میں) مشورہ کرنا واجب تھا۔سورۃ النّحل کی آیت112 میں اللہ تعالیٰ  ایک ایسی مثالی بستی کا بیان کرتا ہے جس کی سیاست  امن کی تھی۔
    قرآنِ کریم کے نزدیک امن کی سیاست  معاشرے کے لیے ایک نعمت ہے۔سورۃ القریش  کی آیت 4میں قریش کی خوف کی حالت کو امن میں تبدیل کرنے،سورۃ القصص کی آیت5 میں اسی سیاست کی بنیاد پر کمزور  بنائے گئے لوگوں کو سردار بنانے اور سورۃُ النّور  کی آیت55 خوف کی سیاست کو امن کی سیاست میں بدلنے جیسی نعمت کا ذکر کیا گیا ہے۔جو سیاسی بنیاد پر ایک مثالی معاشرے کے تعارف پر مہرِ تصدیق ثبت  کرتی ہے۔
    قرآنِ کریم سیاسی بنیاد پر ایک غیر  مثالی معاشرے کا تعارف بھی کراتا ہے۔سورۃ النحل کی آیت112 میں  ایک ایسے غیر مثالی معاشرے کا بیان ہے جو کفرانِ نعمت کے نتیجے میں سیاسی بد امنی اور خوف میں مبتلا ہے۔سورۃُ القصص کی آیت4 میں فرعون کی سرکش سیاست کا ذکر ہے جو قتل و غارت اور فساد کے ذریعے معاشرے کا امن تباہ کر دیتا ہے۔
    مختصراً ایک مثالی معاشرے کی سیاست  حقیقی جمہوریت  پر مبنی ہوگی اور جان،مال ،عزت  کاتحفظ یقینی بنائے گی اور اسی کے نتیجے میں امن و امان کا قیام ہو گا جب کہ ایک غیر مثالی معاشرے کی سیاست بد امنی پیدا کرے گی اور معاشرے میں دنگہ و فساد کے ذریعے خوف قائم کرے گی۔
    مثالی و غیر مثالی معاشرے کے قرآنی نقطۂ نظر کو سمجھنے کے بعد بَہ حیثیت مسلمان اور بَہ حیثیتِ ایک ذمہ دار شہری ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں اور نتائج کا تجزیہ کرکے اصل محرکات کا ادراک حاصل کریں کہ ہمارے معاشرے میں سیاسی بد امنی،معاشی عدم استحکام،معاشرتی اضمحلال اور ذہنی انتشار کے بنیادی محرکات کیا ہیں۔
    قرآنی تعلیمات کے مطابق ہم ان معاشرتی مسائل کے بہترین ممکنہ حل کا ادراک کر سکیں اور اس حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔اِسی میں ہماری دنیوی و اُخروی کامیابی کا راز مضمر ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ کریم کو سمجھنے اور اس کی علمی و شعوری رھنمائی کے مطابق اعلیٰ اقدار پر انسانی سماج تشکیل  دینےکی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
    Share via Whatsapp