انسان کی ترقی میں نظام کا کردار
انسان کی ترقی میں نظام کا کردار
انسان کی ترقی میں نظام کا کردار
عزم اعجاز۔لاہور
انسان اپنی ساخت کے اعتبار سے جسم اور روح کا مرکب ہے۔ ان دونوں کے ملاپ سے ہی انسانی زندگی کا وجود برقرار ہے۔ لہٰذا انسان کی ترقی اسی بات پر منحصر ہے کہ جسم اور روح کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ ان میں سے اگر کسی ایک میں بھی کمی ہے تو انسان کی ترقی رک جاتی ہے۔ انسانِ اول حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے لے کر آج تک انسانیت مسلسل ارتقا کے مراحل طے کر رہی ہے۔
انسانیت نے بہ حیثیت مجموعی کئی عروج و زوال دیکھے ہیں۔ انسانیت کی مجموعی تاریخ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ انسانی سماج میں معاشی خوشحالی، امن و سکون، سماجی مساوات، جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اور معاشرے میں انسانی ہمدردی، سچائی، تقویٰ وغيره وہ امور ہیں، جن کی بدولت انسان نے ترقی کی۔جب کہ سماجی ناانصافی، بھوک و افلاس، ظلم و جور، بدامنی و خوف، جھوٹ و بددیانتی، وہ امور ہیں جن کی وَجہ سے انسانیت تنزلی کا شکار ہوئی۔ جہاں آج تاریخی حقائق اِن امور کی وضاحت کرتے ہیں تو وہیں یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانِ اول سے لے کر آج تک جو احکامات خالقِ کائنات نے انسانیت پر اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعے نازل کیے تھے ان احکامات پر جن اقوام نے عمل کیا، انھیں ہمیشہ عروج حاصل ہوا۔ اللہ پاک قرآن حکیم میں انسانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم وَ الَّذِینَ مِن قَبلِکُم لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ ﴿ۙ۲۱﴾
ترجمہ: اے لوگو، اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا یہی تمھارا بچاؤ ہے۔
اللہ پاک نے جب انسان کو اس دنیا میں بھیجا تو ساتھ ہی بنی نوع انسان کی روح اور جسم کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اِن دونوں ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل بھی مہیا کیے۔ بلکہ ان وسائل کو بہم پہنچانے کے لیے مکمل نظام بھی دیا ہے۔
اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے:
الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الاَرضَ فِرَاشًاوَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّ اَنزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزقًا لَّکُمۚ فَلَا تَجعَلُوا لِلّٰہِ اَندَادًا وَّ اَنتُم تَعلَمُونَ (البقرہ،22)
ترجمہ: جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اُتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمھیں روزی دی ، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقّرر نہ کرو ۔
زمین کی پیدائش تو انسان کی پیدائش سے کئی لاکھ سال پہلے کی ہے۔ مگر اس زمین کو انسان کے قیام کے لیے ساکت کر دینا اللہ پاک کی اس بنی نوع انسان پر خاص رحمت ہے۔ اگر اس زمین میں ٹھہراؤ نہ ہوتا تو انسان اس دنیا میں سکون سے نہ رہ سکتا۔ زمین کا بچھونا ہونا انسان کو راحت مہیا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ زندگی کے دیگر امور سر انجام دے سکتا ہے۔ یعنی اس دنیا میں راحت کے ساتھ رہنا ہر انسان کا پیدائشی حق ہوا جو اللہ پاک نے انسان کے لیے مختص کیا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک نے انسان کے لیے تہ بہ تہ آسمان بنائے جن کے سائے میں انسان امن کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ یہ آسمانوں کا ہونا انسان کو اس کائنات کی بہت ساری منفی شعاعوں اور توانائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ورنہ انسان سورج کی تیز شعاعوں کا کبھی بھی متحمل نہ ہو سکتا۔
خالق کائنات کا تخلیق کردہ یہ نظام ارض و سما جو انسانوں کو امن اور سکون مہیا کرتا ہے، اس بات کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ انسانوں کی بقا اسی میں ہے کہ وہ اس دنیا میں امن و سکون کا سیاسی نظام قائم کریں جو انسانوں کو بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب عدل اور انصاف مہیا کرنے کا ضامن ہو ۔ اللہ پاک نے اس کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کو ایک نظم و ضبط کے تابع بنایا ہے۔ اِس وسیع و عریض کائنات کی کوئی شے بھی بغیر کسی نظام / ڈسپلن کے نہیں چل سکتی۔ اگر ایسا ہو جائے تو اِس کا ئنات کا پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ یہ نظم و ضبط ہی ہے جس کے تحت یہ سورج، چاند اور ستارے انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اِس بات کا مشاہدہ ہر انسان صبح و شام کرتا ہے۔ اللہ پاک کا یہ نظامِ کائنات انسان کو بھی اپنی زندگی میں اسی طرح کےنظام کو قائم کرنے اور اْس میں نظم و ضبط کی پابندی کی دعوت دیتا ہے۔
زندگی کا وجود پانی سے ہے۔ اللہ پاک نے تمام نباتات، حیوانات اور انسانوں کو پانی سے پیدا کیا۔ اسی لیے اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ انسانوں کے لیے آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس سے پیدا ہونے والی تمام چیزوں سے انسان استفادہ کرے۔ یعنی اللہ پاک نے بنی نوع انسان کی معاشی کفالت کے لیے روزی کا ایک مکمل نظام قائم کیا۔ یہ نظام تمام انسانوں کی معاشی ضروریات کو بلا تفریق رنگ ونسل مذہب پورا کرتا ہے۔ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انسانوں کے لیے یہ بات فرض ہے کہ وہ اپنے لیے اور اپنے جیسے اور انسانوں کے لیے ایک ایسا معاشی نظام تشکیل دیں جو اس دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرے۔
انسانی سوسائٹی کی بقا اور انسانوں کی ترقی اسی بات پر منحصر ہے کہ انسان عدل اور انصاف پر مبنی نظام تشکیل دے۔ جو اس بات کو لازم کرے کہ انسانی سوسائٹی میں موجود تمام انسانوں کو سیاسی امن اور معاشی خوش حالی ملے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو انسانیت اپنے اجتماعی فرائض کی ادائیگی سے غافل ہے اور اس رب کائنات کے اجتماعی نظام کی منکر ہے۔ اسی لیے بہ حیثیت انسان اور مسلمان ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم قرآنِ حکیم کی عادلانہ تعلیمات کی اساس پر ایک ایسی سوسائٹی تشکیل دیں، جہاں انسانوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ ہو۔ وہ سیاسی آزادی اور معاشی خوش حالی سے بہرہ ور ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں خود کو اعلیٰ انسانی اخلاق سے مزین کرنے کا ماحول بھی میسر ہو، تاکہ انسانیت کے تمام تر مادی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل ہوسکے، جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف اس دنیا میں ترقی کریں،بلکہ آخرت میں بھی اعلیٰ ترقیات سے ہمکنار ہوسکیں۔