عصر جدید میں مذہب کی ضرورت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عصر جدید میں مذہب کی ضرورت

    ایک مہذب معاشرے کی تشکیل و ترقی کیلئے ایک مذہب یعنی دین کا ہونا لازم ہے اس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کرے گا اس کا شیرازہ بکھر جائے گا.

    By Tahir shaukat Published on Sep 01, 2020 Views 3513

    عصر جدید میں مذہب کی ضرورت 

    تحریر : طاہر شوکت ۔ لاہور

     

     مذہب کا لفظ سن کر آج کے نوجوانوں کے ذہن میں یہ  تصور ابھرتا ہے : جیسے ایک شخص ہے کہ وہ نمازی ہو گا ، دنیا و ما فیھا ( یہ جہان اور جو کچھ  اس میں ہے ) سے بے خبر ہو گا ، وہ دنیا کی ترقی کو دین کے مخالف کہہ کر لوگوں کو اس سے روکے گا وغیرہ وغیرہ 


    انسانی وجود کی حقیقت: 

    انسان صرف ظاہری جسم کا نام نہیں بلکہ اس میں ایک اور قوت بھی ہے جو اسے متحرک رکھتی ہے اور اسے درجہ بدرجہ ترقی کی طرف گامزن کرتی ہے اور وہ روح ہے یعنی انسان جسم اور روح دونوں سے مرکب ہے . اسے مزید سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے انسان کی پیدائش پر غور کریں کہ اس کی پیدائش کیسے ہوئی ؟ 

     

    " انسان کی پیدائش " 

     انسان کی پیدائش حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی ۔ حضرت آدم پہلے انسان تھے جن کا وجود اس دنیا میں ممکن ہوا ،پھر حضرت حوا کی پیدائش ہوئی ۔ حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے مٹی اور پانی کے گارے سے پیدا کیا جب ان کی شکل بن گئی تو یہ ان کا وہ جسم تھا جو شکل و صورت تو رکھتا تھا لیکن اس کے اندر مٹی کے بنے ہوئے برتن کی طرح کوئی حرکت نہیں تھی ۔ اس بے جان جسم میں اللہ تعالیٰ نے  روح ڈالی جس کی حرارت سےجسم میں حرکت پیدا ہوئی ۔ اب اگر ہم ایک انسان کو دیکھیں تو ایک اس کا ظاہری جسم ہے جو شکل و صورت میں دوسروں سے مختلف ہے اور دوسری اس کی روح ہے جو بظاہر تو نظر نہیں آتی لیکن اگر وہ نکل جائے تو ہمارا جسم حرکت نہیں کر سکے گا ۔ اب اگر کوئی انسان چاہتا ہے کہ وہ سکون حاصل کرے تو اسے چاہیے کہ وہ روح کی غذا کا بندوبست کرے ۔ 

     

    جسم اور روح کی غذا و صحت 

    اب ہمیں دیکھنا ہو گا کہ جسم کیسے صحتیاب ہو گا اور روح کیسے ترقی کرے گی ۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارا جسم جن اجزائے ترکیبی سے بنا ہےاس کی پرورش انہی اجزا سے ہوگی۔ تو جسم کو مادی غذا اور روح کو اس سے متعلق غذا کی ضرورت ہوگی۔ اور یہ فطری اصول ہے کہ کوئی شے جس سے بنی ہو ، وہ اسی میں خوش رہتی ہے ۔

    اگر روح کی غذا دیکھی جائے تو روح غیر مرئی چیز ہے اس کی غذا روٹی پانی نہیں ہو سکتی کیونکہ روح کی پیدائش ان سے نہیں ہوئی۔روح کی غذا کو جاننے کے لیے اس کی پیدائش پر غور کرنا ہو گا کہ یہ کیسے بنی ؟ روح کو اللہ تعالی نے نور سے بنایا ہے۔ فرشتے اللہ کی نورانی مخلوق ہیں وہ کیا کھاتے ہیں ؟ ان کی غذا کیا ہے ؟ معلوم ہو گا کہ فرشتے کھانے پینے سے پاک ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ پیدا ہی نور سے ہوئے تو ان کی غذا بھی نور سے ہی ہو گی ۔

    فرشتے ہر وقت اللہ کی تسبیح بیان کرتے رہتے ہیں یہی ان کی غذا ہے ۔ روح کی غذا اللہ تعالی کی تسبیح و تحمید بیان کرنا اور تہلیل و تقدیس ہے ۔ 

     

    روح کے وجود اور غذا پر مذاہب میں اتفاق

    دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان سب نے انسانیت کو جسم کی غذا کے ساتھ روح کی غذا کا بھی بتایا۔ آج تک انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی قوم نے مجموعی حیثیت میں مذہب کا انکار کیا ہو ۔دنیا میں متعدد مذاہب موجود ہیں۔ان سب نے روح کی غذا کا اپنے وقت کے لحاظ سے جو تقاضا تھا اسے پورا کرنے کو کہا اور انسانوں کو جسمانی و روحانی طور پر ترقی کرنے کا نظام دیا ۔ انسانوں کی جسمانی ضرورت کے لیے بھی ایسے قوانین دیے کہ جس سے یہ دنیا جنت کا نمونہ بنی جس کے سبب انسانی روحانیت بھی پھلی پھولی اور انسان اپنے مقصد خلافت و عبادت کی ادائیگی میں بھی کامیاب ٹھہرے ۔ جب بھی کسی مذہب کی تعلیمات لوگ بھلاتے تو اللہ تعالٰی انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے بہتر نظام کی تشکیل پر ان کی رہنمائی فرماتے ۔ 

     

    دور جدید کا مغالطہ

     کہا جاتا ہے کہ آج کے اس جدید دور میں مذہب ضروری نہیں ہے کیونکہ مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں اس بات کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں لوگوں کی مذہب سے آگہی کی نوعیت کیا ہے ؟  اس کی تفصیل یہ ہے .

     1-ایک طبقے کو مذہب کی حقیقی تعلیم کا ہی پتہ نہیں ہے .

    2- کچھ لوگوں نے مذہب کو عبادات تک محدود کر دیا ۔ 

    3- جو لوگ مذہب کو جانتے ہیں ان میں جذباتیت اور فتنوں نے جگہ پکڑ لی ۔

    4- کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مذہب کی ضرورت صرف جنت کی نعمتوں کے حصول تک رکھی اور انسان کے معاشی اور معاشرتی تقاضوں کا انکار کیا ۔ 

    جب مذہب کے بارے میں ایسے ناقص تصورات سماج میں پائے جانےلگیں تو اس میں مذہب کا تو کوئی قصور نہیں وہ تو جامع فکر ؛ حسنہ فی الدنیا و حسنہ فی الآخرۃ کی بات کرتا ہے ۔ 

     

    نوجوان کا مسئلہ 

     آج ہمارا نوجوان اپنی انسانی ضرورتوں کی تکمیل نہ ہونے کے سبب پریشان ہے ۔ اس کی وجہ اس کے اوپر موجود سرمایہ دارانہ طاغوتی نظام ہے. اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان دو وقت کی روٹی کے لیے چوبیس گھنٹے مسلسل فکر مند ہے ۔ سارا دن کماتا ہے اور سکون سے بیٹھ کر کھا بھی نہیں سکتا ۔ 

     

    طاغوتی قوتوں کا عصری کردار 

     آج طاغوتی قوتیں انسانوں کو معاشی لحاظ سے نچوڑنے کے ایسے طریقے ایجاد کر رہی ہیں کہ عام انسانوں کو پتہ ہی نہیں چلتاکہ ان کو لوٹا جارہاہے اور وہ میڈیا کے جھوٹے پروپگنڈے کے ذریعے بے شعوری میں استحصال پسند قوتوں کے آلہ کار بنے ہوے ہیں . 

    سرمایہ داری نظام کی اگر بات کی جائے تو یہ کسی بھی صورت میں انسانیت کے لیے بہتر نہیں ہے . 

    باقی بچتے ہیں سوشلزم اور اسلامی نظام . ان میں سوشلزم ایک معاشی نظام ہے جس کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس میں دیگر خرابیوں کے ساتھ ایک خرابی یہ ہے کہ اس میں انسان کے لیے روحانی غذا کا تصور موجود نہیں . 

     

    دین اسلام ایک جامع فکر 

     دنیا میں صرف اسلامی نظام ہی ہے جو انسانوں کی نہ صرف جسمانی ضرورت پوری کرنےکا تصور رکھتا ہے بلکہ اس کے ساتھ روحانی پہلو کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ انسانیت کی مکمل ترقی کےلیے لازمی ہے کہ انسان کی جسمانی ضرورت کے ساتھ روح کی غذا کا بھی بندوبست کیا جائے۔ اور یہ مذہب کے جامع فکر کے بغیرکسی صورت ممکن نہیں .

     

    ہمارا کردار 

    اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسانیت کی مکمل ترقی ہو ، انسان جسمانی و روحانی طور پر پر سکون نظر آئے تو اس کے لیے ایسا نظام قائم کیا جانا ضروری ہے جو انسان کے جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں کو ساتھ لے کر چلے۔اس سے ہماری دنیا تو بہتر ہو گی ہی ، آخرت بھی سنور جائے گی . 

    اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم کو دین کا صحیح شعور اور علم عطا فرمائے اور درست راستے پر چلنے کی توفیق عطا کرے . آمین !

     

    Share via Whatsapp