انسانی معاشرہ اور نظامِ حکومت
انسان نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے جیسے تمام انسانوں کے لئے ایک مربوط نظامِ حکومت کے ذریعے ایک صالح معاشرے کی تعمیر و تشکیل کرتا ہے .
انسانی معاشرہ اور نظامِ حکومت
عابد حسین کولاچی، اسلام آباد
بنی نوع انسان نے روزِ اول سے لے کر اب تک ایک طویل اور کٹھن سفر طے کرتے ہوئے اپنا وہ مقام نمایاں اور واضح کر دیا ہے، جس کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ " جو کچھ میں جانتا ہوں آپ نہیں جانتے "(1)۔ بنی نوع انسان میں اللہ تعالیٰ نے ایسی علمی، عقلی اور عملی صلاحیتیں پیدا فرمائی ہیں، جن کی بنا پر یہ انسان نہ صرف اپنے لیے، بلکہ اپنے جیسے تمام انسانوں کے لیے ایک مربوط نظامِ حکومت کے ذریعے ایک صالح معاشرے کی تعمیر و تشکیل کرسكتا ہے، جس کے ذریعے تمام انسانیت کے طبعی، روحانی اور سماجی تقاضوں کو پایہِ تکمیل تک پہنچايا جاسكتا ہے۔
انسانی معاشرتی ادوار
انسان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنا ارتقائی سفر اجتماعی طور پرایک دوسرے سے باہمی مشاورت اور معاہدات کی صورت میں طے کیا ہے، جس میں اجتماعیت کے سب سے چھوٹے یونٹ( ایک گھر کے اجتماع جس میں میاں بیوی کے معاہدہ نکاح سے ایک اجتماعیت کا ایک درجہ وجود میں آتاہے ) سے لے کر سب سے بڑے (بین الاقوامی اجتماع جس میں مختلف اقوام جو آپس میں باہمی مشاورت اور تعاون سے اپنے اپنے معاملات کو حل کرنے کے لیے معاہدات طے کرتی ہیں) وجود میں آتاہے ۔ بنیادی طور پر انسانی اجتماع چار مختلف ادوار سے گذرا ہے، جس میں گھریلو و دیہاتی، شہری، قومی اور بین الاقوامی دور شامل ہے، جن کو امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ارتفاقات کا نام دیا ہے۔
نظامِ حکومت کا قیام
ہر بدلتے ہوئے دور میں نئے پیداواری رشتوں کے ساتھ انسانی اجتماع کو نئے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جن کو پورا کرنے کے لیے نئے معاہدات کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ان معاہدات کی پاسداری بغیر کسی نظم و ضبط اور قوانین کے ممکن نہیں ہے۔ اور انسانی اجتماع کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے ایک صالح نظامِ حکومت کا قیام ضروری اور لازم ہے۔ کیوں کہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے انسانی اجتماع کو بغیر کسی حکومت کے چلایا نہیں جا سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا نائب (خلیفہ) بنایاہے اور بعض کے بعض پر درجے بلند کیے، تاکہ انسان کو اپنے دیے ہوئے حکموں میں آزمائے(2)۔ یہی ایک واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر حکمرانی کر کے ان کی دیکھ بھال کرتا ہے، ان کی رہائش اور کھانے، پینے کا بندوبست کرتا ہے، ان کی داد رسی کرتا ہے، ان کے علاج معالجے کا نظام بناتا ہے اور ان کے درمیان سیاسی معاشی اور سماجی ضرورتوں کے پیش نظر عدل و انصاف پر مشتمل کچھ قواعد و ضوابط وضع کرتا اور ان پر عمل درآمد کا باقاعدہ نظام بناتا ہے۔ تا کہ معاشرے میں کوئی بھی انسان اپنی ضروریا ت کو پورا کرنے سے محروم ہوکر بدامنی، خوف و ہراس، چوری ڈاکا، لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوکر دوسرے انسانوں کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ اور اگر کوئی انسان تمام ضروریاتِ زندگی کے پورا ہونے کے باوجود بھی محض خواہشات کی بنا پر حرص و ہوس کی لالچ میں آکر کسی کا حق مارتا ہے، چوری کرتا ہے، ڈاکا ڈالتا ہے یا کسی کو قتل کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کے بھی واضح قوانین اور طریقہ کار کا پورا نظام بناتا ہے۔ تاکہ انسانی معاشرے کو کسی بھی قسم کے ظلم اور زیادتی سے بچاکر ترقی دلائی جائے۔ در اصل یہی وہ بڑا کام اور امانت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سونپا ہے، جس کا بوجھ اور ذمہ اٹھانے سے آسمان، زمین اور پہاڑوں نے بھی انکار کر دیا تھا اور اس سے ڈر گئے تھے اور انسان نے یہ بوجھ اٹھا لیا۔ (3)
صالح جماعت کی ضرورت
ہم پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کسی بھی انسانی اجتماع کو بغیر کسی حکومت یا اتھارٹی کے چلایا نہیں جا سکتا۔چاہے وہ اجتماع کسی ايک گھر پر مشتمل چھوٹا اجتماع ہو یا مختلف اقوام پر مشتمل ایک بین الاقوامی اجتماع ہو۔ نظامِ حکومت کو بنانے اور چلانے کے لیے ہمیشہ سے ہی ایک ایسی جماعت کی ضرورت پڑتی ہے، جس میں مخلص، باصلاحیت، ایمان دار، صالح، عقل مند اور شعور تربیت یافتہ اعلیٰ درجے کے انسانوں کا ہونا ضروری ہے جو اپنی خواہشات اور مفادات کو حتی کہ اپنی جان کی بھی قربانی دے کر بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب کے تمام انسانیت کے لیے عدل کی بنیاد پر انسانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرکے اللہ کے سامنے سر بہ سجود ہوتی ہے، جس کےبارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور یہی اللہ کی جماعت ہے" (4) یہی وہ جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات کی روشنی میں معاشرے کی تعمیر و تشکیل کرتی ہے، جس میں اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں، جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، جن میں نبی اور صدیق اور شہید اور صالح شامل ہیں جو اچھے رفیق ہیں (5)۔ یہاں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کی جماعت بنانا لازمی ہے جو اچھے رفیق ہوں اور انسانی بھلائی کے نیک کام کرتے ہوں اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے ہوں(6)۔ چوں کہ یہ جماعت اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ کرتی ہے اور یہ جماعت کسی سے اجر نہیں مانگتی اس کا اجر تو اللہ پر ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے(7)۔ نہ کہ معاشرے میں موجود مختلف قوموں کے وسائل پر قابض ہو کر بیٹھتی ہے۔
انسان دشمن شیطانی کردار
یہی وہ بلند مرتبہ ہے جو اللہ نے انسان کو عطا فرمایا ہے، جس پر شیطان کو غصہ تھا اور اللہ کے سامنے اپنے دلائل پیش کر رہا تھا اور اللہ سے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا ہے (8)۔ اور آگ مٹی سے اونچی ہوتی ہے اس لیے شیطان نے انسان کی عظمت کا انکار کر دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان نے ہر دور میں انسانیت کو اپنے مقام سے گرانے اور اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش كی، اسی شیطان نے خواہش پرست اور انسان دشمن رویوں کے حامل افراد کے ذریعے انسانیت کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں شیطان صفت انسان نظامِ حکومت میں شامل ہوکر اجتماعِ انسانی پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ تب انسانیت کو رنگ و نسل، ذات پات، اونچ نیچ اور مذہبی عداوت میں مبتلا کر کے محض اپنی خواہشات کی بنا پر دوسرے کو حقیر بنا کر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں اور ان کو جہالت اور ظلم کی اندھیری راتوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس سے انسانیت کی نہ صرف عزت نفس پا مال ہوتی ہے، بلکہ بنیادی ضروریاتِ زندگی سے بھی انسانیت محروم ہوجاتی ہے۔ تاریخ میں نمرود، شداد، ہامان اور فرعون کی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جن کا تذکرہ قرآنِ حکیم نے بھی کیا ہے۔
عبادات کی ضرورت و اہمیت
ایک صالح جماعت کی کامیابی کے لیے نظم و ضبط، عزم وہمت اور اعلی اخلاق کا ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ تا کہ یہ جماعت نظامِ حکومت کی ذمہ داری اور امانت کا حق ادا کرنے لیے اور شیطانی رکاوٹوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت اپنے آپ کو تیارپائے۔ اور کوئی بھی جماعت تب تک اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا نہیں کرسکتی، جب تک وہ کسی تربیتی نظام سے نہیں گذرتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمان جماعت پر عبادات کے نظام کی پابندی لازم کردی اور فرمایا رات کو قیام کر مگر تھوڑا سا حصہ کم کر دے، آدھی رات یا اس سے تھوڑا سا حصہ کم کر دے یا اس سے زیادہ کردے(10) اور جگہ جگہ پر فرمایا نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اس جماعت کی تربیت کی جائے۔ کیوں کہ کسی بھی انسان یا جماعت کی تربیت کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے لازمی اور ضروری ہوتی ہے، ورنہ وہ جماعت اپنے مقصد سے ہٹ کر خواہشات کے تابع ہوکر شیطانی بہکاوے میں آجاتی ہے۔ اس جماعت کا مقصد صالح معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے ایسے نظامِ حکومت کا قیام ہے ،جس میں ایسے اعلیٰ قوانین و احکامات کی حکمرانی ہو جو قرآنِ حکیم کے سوا کوئی پیش ہی نہیں کرسکتا۔ اس لیے قرآن کا شعور ہر انسان اور جماعت کے لیے لازمی اور ضروری ہے اس لیے اللہ نے فرمایا اور قرآن کو ٹھہر ٹھہرکر پڑھا کر (11)۔ جس میں کل انسانیت کے لیے خیر اور بھلائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان پر اللہ کی عبادت کرنا فرض ہے، ورنہ اللہ کو انسان کے سجدوں کی کیا ضرورت، خود انسان کو اللہ کے حضور سجدوں کی ضرورت ہے۔
حوالہ جات
۱۔ القرآن(2:30) ۲- القرآن (6:165) ۳- القرآن (33:7)
۴۔ القرآن (58:22) ۵۔ القرآن (4:69) ۶- القرآن (3:3)
۷۔ القرآن (26:10) ۸۔ القرآن (38:76) ۹۔ القرآن (38:82)
۱۰۔ القرآن (73:2،3) ۱۱- القرآن (73:4)