سرمایہ داریت: عروج، زوال اور متبادل کی ناگزیر ضرورت
سرمایا دارانہ نظام اب دنیا کی معاشی اور سیاسی حققق دینے سے قاصر ہے اس لیے وہ جنگوں اور دشت گردی کا سہارا لے کر اپنا وجود قائم کیے ہوئے ہے

سرمایہ داریت: عروج، زوال اور متبادل کی ناگزیر ضرورت
عادل بادشاہ- مانسہرہ
پانچویں سے پندرہویں صدی تک یورپی ممالک میں جاگیردارانہ نظام کا دور تھا، جسے تاریخ میں "تاریک دور" (Dark Ages) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دوران جاگیردار اور کلیسا کے علمبردار (پوپ) مل کر عوام پر حکومت کرتے تھے۔ یہ نظام نہ صرف اقتصادی استحصال پر مبنی تھا، بلکہ اس میں مذہبی جبر بھی شامل تھا۔ وہ جاگیرداروں کی زمینوں پر قبضے کو "خدائی منشا" قرار دیتے تھے اور عوام کی غربت کو بھی "الہی مشیت" سے منسوب کرتے تھے۔ یہ مذہبی جواز دراصل مذہب سے انکار کا باعث بنا۔
پندرہویں صدی کے بعد جب یورپ میں جاگیردارانہ نظام کمزور ہونے لگا، تو یہ طبقہ نئے تجارتی اور صنعتی کاروبار میں داخل ہوگیا۔ یہ نیا طبقہ تجارت اور صنعت کے نام پر عوام کا استحصال کرتا رہا۔ اس دور کو "مرکنٹائل اِزم" کہا جاتا ہے، جو بعد میں جدید سرمایہ داری کی بنیاد بنا۔ جب یورپی طاقتوں کو معدنیات، خام مال، نئے بازاروں اور سستی مزدوری کی ضرورت محسوس ہوئی، تو انھوں نے اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر ایشیا، افریقا اور عرب دنیا کے وسیع علاقوں کو نوآبادیات میں تبدیل کیا۔ یہ عمل نہ صرف اقتصادی استحصال، بلکہ ثقافتی اور تہذیبی تباہی کا باعث بھی بنا۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگیں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے نہیں، بلکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کے قدرتی وسائل کو تقسیم کرنے اور ان پر قبضہ جمانے کے لیے یورپی ممالک کے درمیان لڑی گئیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہونے والا "سائکس-پیکو معاہدہ" اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یورپی طاقتیں کس طرح عرب دنیا کے وسائل کو آپس میں تقسیم کررہی تھیں۔ یہ معاہدہ عرب ممالک کی خودمختاری کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے ان کی سرزمین کو مختلف یورپی طاقتوں کے درمیان بانٹنے کا منصوبہ تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941ء میں برطانیہ اور امریکا کے درمیان ہونے والے "اٹلانٹک چارٹر" نے خاص طور پر برصغیر سے نوآبادیاتی وسائل کی منتقلی کو امریکا کے حق میں ہموار کیا۔ یہ معاہدہ دراصل برطانوی سامراج سے امریکی سامراج کی طرف اقتدار کی منتقلی کا آغاز تھا۔1944ء کے بریٹن ووڈز (Bretton Woods) معاہدے کے بعد 1945ء میں امریکا دنیا کی غالب اقتصادی طاقت بن کر ابھرا۔ وقت کے ساتھ اس نے نیا نوآبادیاتی نظام رائج کیا جو آج بھی بہت سے ممالک کو قرضوں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں (IMF, World Bank) اور مقامی اشرافیہ کے ذریعے بالواسطہ کنٹرول میں رکھتا ہے۔
آج کا سرمایہ دارانہ نظام بنیادی طور پر چند عالمی کارپوریشنز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے چل رہا ہے، جو دنیا کے تقریباً نصف سے زائد وسائل پر قابض ہیں۔ اس نظام کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ دولت ایک چھوٹے سے طبقے میں مرتکز ہو رہی ہے،جب کہ دنیا کی اکثریت غربت اور بھوک کا شکار ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب دولت ایک طبقے میں جمع ہوجائے تو باقی معاشرے کے لیے غربت ناگزیر ہوجاتی ہے ۔ آکسفیم (Oxfam) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2020ء سے اَب تک دنیا کے پانچ امیرترین افراد کی دولت دگنی ہو چکی ہے، جب کہ پانچ ارب افراد مزید غریب ہوچکے ہیں۔ اس کا معاشی و سیاسی ڈھانچہ پوری انسانیت کی ترقی کو اولین ترجیح نہیں دیتا، کیوں کہ اس کے فلسفے میں کل انسانیت کے لیے گنجائش نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی اور گرتی ساکھ بچانے کے لیے اقدامات :
معاشی عدم توازن سرمایہ دارانہ نظام کی بار بار ناکامی کی وَجہ بنا، جیسا کہ 1929–1939ء کی 'عظیم کسادبازاری' (Great Depression)، 1971 میں نکسون شاک اور 2007–2008 ءکا عالمی مالیاتی بحران۔ 2007–2008 ءکے مالیاتی بحران کے بعد امریکا میں 'آکوپائی وال اسٹریٹ' (Occupy Wall Street) تحریک 2011ء میں شروع ہوئی جو یورپ کے مختلف ممالک تک پھیل گئی۔ اس کا مرکزی نعرہ تھا: 'ہم 99 فی صد ہیں'، لیکن کل دولت پر 1% کی اجارہ داری ہے۔ اس تحریک نے دولت اور طاقت کے ارتکاز کے خلاف عوامی غصے کی نمائندگی کی—خاص طور پر امریکا اور دیگر ممالک میں آمدنی کی بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے خلاف۔
"سرمایہ دارانہ نظام کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔ ان میں سے ایک 'نیو لبرل اِزم' کی پالیسی تھی، جس نے آزادمنڈی کے اصولوں کے نام پر طاقت کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف منتقل کیا،لیکن اس سے ترقی پذیر ممالک میں استحصال بڑھا، جہاں حکومتیں ان کارپوریشنز پر انحصار کرنے لگیں۔
اسی طرح 'ٹریکل ڈاؤن اکنامکس' (trickle-down economics) کا نظریہ پیش کیا گیا، جس کے مطابق اگر امیروں کی جیبیں دولت سے بھر جائیں تو وہاں سے پیسے نیچے ٹپکیں گے اور کچھ فائدہ غریبوں تک بھی پہنچے گا،لیکن حقیقت میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔اگر کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبیلیٹی فنڈ (CSR Fund) کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر ڈالر کے بدلے میں ترقی پذیر ممالک سے اوسطاً 24 ڈالر کا منافع واپس یورپ یا امریکا لے جاتی ہیں—جو کہ ترقی کے وعدے کے بجائے استحصال کو ظاہر کرتا ہے۔ جان مینارڈ کینز (Keynes) کے معاشی ماڈل (کینیشین اکنامکس) اور ملٹن فریڈمین (Friedman) کے نظریات (مانیٹریزم) بھی محض پرائیویٹائزیشن یا زری پالیسی کے کنٹرول سے مکمل حل فراہم نہ کر سکے۔"
طاقت کے مرکز کی منتقلی:
پاکستان ، انڈیا اور حالیہ ایران ۔اسرائیل جنگ نے واضح کر دیا ہے کہ دنیا میں ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت پر اعتماد کا مرکز مغرب سے ہٹ کر مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ صدیوں سے قائم مغربی (یورپی و امریکی) عسکری اور تکنیکی غلبہ اَب چین، روس اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے سنجیدہ چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ محض ایک سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ عالمی طاقت کا ایک بنیادی تبادلہ ہے، جس میں عالمی شمال سے عالمی جنوب کی طرف جھکاؤ نمایاں ہو رہا ہے اور ایشیا اس تاریخی تبدیلی کا مرکزی محور بن رہا ہے۔
اس خطے میں متعدد اہم منصوبے اس جیو پولیٹیکل تبدیلی کو تیز تر بنا رہے ہیں، جن میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی بڑھتی ہوئی اہمیت، ترکی-ایران-پاکستان-بھارت-بنگلادیش-میانمار راہداری (TIPI-BM) کا وسیع منصوبہ، تہران ایشیائی ریلوے (TAR) کا نیٹ ورک، علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (RCEP) کا پھیلاؤ، سارک (SAARC) کی بحالی، چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI)، ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کا استحکام، اور جنوبی ایشیا جامع اقتصادی شراکت داری (SACEP) کی سرگرمیاں شامل ہیں۔
مولانا عبیداللہ سندھی ؒ نے ایک صدی پہلے 1924ء میں علماءِ ہند کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کے داخلی اور خارجی دونوں مسائل کا جامع حل پیش کیا تھا۔ داخلی معاشی اور سیاسی مسائل کے لیے انھوں نے "Federation of Republican States" یعنی یورپین یونین کی طرز پر ہندوستان کو دس ریاستوں میں تقسیم کرنے کا تصور دیا تھا، جہاں ہندؤں کی اکثریت والے علاقوں میں ہندو حکمران اور مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں مسلمان حکمران ہوں گے۔ یہ ریاستیں سرمایہ دارانہ نظام کے بجائے شاہ ولی اللہ کے معاشی اور سیاسی فلسفے پر قائم ہوتیں۔
خارجہ پالیسی کے لیے مولانا سندھیؒ نے "Asiatic Federation" کا انقلابی تصور پیش کیا تھا، جس کا مقصد علاقائی سامراج مخالف قوتوں کو متحد کر کے عالمی سامراج کا مقابلہ کرنا تھا۔
آج چین اور روس بالکل اسی طرح کا نیٹ ورک عالمی سامراج کو شکست دینے کے لیے تعمیر کر رہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)، BRICS، اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو جیسے اقدامات اسی ویژن کا عملی مظاہرہ ہیں۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلامی مفکرین نے جدید دنیا کی ضروریات کو سمجھنے اور مستقبل کی پیش کش کرنے میں کتنی گہری بصیرت کا مظاہرہ کیا تھا۔
آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم آزادی پسندوں کےماڈل کو گہرائی سے سمجھیں، اس کےساتھ دین کی وہ تشریحات اور اجتہادی بصیرت جو شاہ ولی اللہ ؒ نے پیش کیں۔ انھوں نے اسلامی نظام کو عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ہمارے سامنے رکھا۔ اس ماڈل کو سب سے پہلے اپنے ملک میں نافذ کرنا ہوگا، تاکہ داخلی سطح پر عدل، مساوات اور فلاح کا ماحول قائم ہو۔ جب داخلی نظام مستحکم ہو جائے، تب ہم بین الاقوامی سطح پر اسلامی اصولوں پر مبنی نظام کی طرف بڑھ سکتے ہیں، جو استحصال سے پاک اور انسانیت پر مبنی ہو۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت اس مقصد کی عملی مثال ہے۔ آپﷺ نے مکہ اور مدینہ کے نظام کو تبدیل کیا، ایک تربیت یافتہ جماعت تشکیل دی، قیصر و کسریٰ جیسے عالمی طاقتوں کا خاتمہ کیا اور اسلامی عدل پر مبنی بین الاقوامی نظام قائم کیا۔ یہی اسلام کا اصل مقصد تھا اور آج بھی ہے۔