سرائیکی خطہ اور وسیع تر قومی تناظر - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سرائیکی خطہ اور وسیع تر قومی تناظر

    "سرائیکی سرزمین پر سرائیکیوں کے نام پر سرائیکیوں ہی کو بربادی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے"۔

    By اظہر گوپانگ Published on Aug 12, 2025 Views 563

    سرائیکی خطہ اور وسیع تر قومی تناظر

    تحریر: اظہرحسین۔ راجن پور 

     

    "سرائیکی سرزمین پر سرائیکیوں کے نام پر سرائیکیوں ہی کو بربادی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے"۔ 

    صوبہ سرائیکستان کو صرف جذباتی نعروں تک محدود رکھنے کے بجائے، اسے ایک سیاسی، فکری اور عوامی شعور کی بنیاد پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

    آج سرائیکی خطہ(جنوبی پنجاب) معاشی، سیاسی اور سماجی استحصال کا شکار ہے۔ "صوبہ سرائیکستان" کا مطالبہ محض نقشے پر ایک نئی لکیر کھینچنے کی خواہش نہیں، بلکہ ایک تاریخی محرومی، طبقاتی استحصال کےخلاف شناخت کی جدوجہد کا نام ہے۔

    سرائیکی خطہ ہمیشہ سے پاکستان کے مرکزی دھارے میں موجود رہا، مگر سرائیکی قوم کو طویل عرصے سے معاشی، تعلیمی، ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے نظرانداز کیا گیا۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں پس ماندگی، روزگار کی کمی اور مقامی زبان و ثقافت کی بے قدری، انفراسٹرکچر کی زبوں حالی— یہ سب اس خطے کے عوام کے لیے دائمی زخم بن چکے ہیں۔ سرائیکی خطے کا استحصال محض اتفاق نہیں، بلکہ منظم پالیسیوں اور مفادات اور سوچے سمجھے نظام کا نتیجہ ہے۔

    جنوبی پنجاب میں سرائیکستان کے نام پر متعدد تحریکات چلا کر سرائیکی خطے کے نوجوانوں کو تقسیم در تقسیم کرکے ایک پر فریب دھوکے میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ آج سرائیکی تحریک جذباتی نعروں، لسانی شناخت اور جغرافیائی مطالبات کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ 

    یونیورسٹی ہو یا کالج جہاں نوجوانوں کو قومی اتحاد کا شعور دینا اور حاصل کرنا تھا، وہاں سرائیکی خطے کی قیادت آج بھی ان جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کے ہاتھ میں ہے، جنھوں نے کبھی انگریز کے ساتھ وفاداری نبھائی، اور اَب عالمی مالیاتی اداروں اور مقتدرقوتوں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔ اگر یہی طبقہ کل صوبہ سرائیکستان کا نظم و نسق سنبھالے گا تو سوال یہ ہے کہ کیا اس صوبے کی حیثیت ایک آزاد اور بااختیار وحدت کی ہوگی؟ یا یہ محض ایک نیم مردہ، اپاہج اور عوام دشمن نظام کی نئی صورت ہوگی؟

    عوام دشمن طاقتیں سبھی مل کر ایک ایسے نظام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جو صرف عوامی بیداری سے خائف ہیں۔ یہی وَجہ ہے کہ حقیقی عوامی تحریکوں کو کچلا جاتا ہے، جب کہ مصنوعی نعروں اور جذباتی تحریکوں کو سرکاری سرپرستی حاصل رہتی ہے۔

    تمام صوبوں کے نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ مسائل صرف ایک صوبہ کے نہیں، بلکہ پوری قوم ہی ان مسائل کا شکار ہے اور سامراج کی غلامی میں ہے۔ 

    ہم ایک ایسی آزاد ریاستِ پاکستان کے متمنی ہیں، جو ہر قسم کی سامراجی زنجیروں، ان کے آلہ کاروں اور آمرانہ قوتوں سے آزاد ہو۔ ایک ایسی ریاست جس کے فیصلے کسی بیرونی قوت کے اشارے پر نہ ہوں، بلکہ عوامی شعور، جمہوری اصولوں اور قومی خودمختاری کے عین مطابق ہوں۔

    موجود حالات اور بغیر کسی مثبت اورتعمیری سوچ کے اگر سرائیکی صوبہ تشکیل بھی پا جائے تو وہ محض ایک "اپاہج اور نیم مردہ صوبہ" ہوگا، کیوں کہ اس کی قیادت ان ہی پرانے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہوگی جو انگریز استعمار کے پروردہ اور موجودہ سامراجی نظام کے محافظ ہیں۔ اگر یہی لوگ، جنھوں نے ہمیشہ عالمی مالیاتی اداروں، فوجی آمریتوں اور عوام دشمن طاقتوں کا ساتھ دیا ہے، ہماری قسمت کے مالک ہوں گے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان اپنی قربانی کیوں دے؟

    ہم ایک "آزاد اور خودمختار صوبے" کے خواہاں ضرور ہیں، مگر جب پوری ریاست غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہو، تو اس ریاست کے اندر ایک ’’آزاد‘‘ صوبہ قائم کرنے کی بات "خالص فریب" کے سوا کچھ نہیں۔ 77برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر سرائیکی عوام کو نہ ان کے حقوق دیے گئے، نہ ان کی شناخت تسلیم کی گئی۔ انھیں مختلف نعروں، تحریکوں اور لسانی فریب کاریوں کے ذریعے "گمراہی اور تقسیم" کا شکار بنایا گیا۔

    آج بعض مذہبی جماعتیں بھی سرائیکی تحریک میں صفِ اول میں نظر آتی ہیں،مگر ان جماعتوں کا ماضی دیکھیں تو وہی قوتیں افغانستان کی جنگ میں سامراج کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئیں، ہزاروں نوجوانوں کو جھونک کر بعد میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ آج اگر یہی جماعتیں سرائیکی عوام کے ہمدرد بننے کا ڈھونگ رَچا رہی ہیں تو یہ ایک اور سامراجی منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے، جہاں مذہب کو لسانی اور قوم پرستی کے ساتھ جوڑ کر ایک نیا فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ کیا موجودہ سیاسی، مذہبی اور لسانی تحریکات واقعی عوام کے مفاد کی نمائندہ ہے؟ یا یہ تحریکات بھی چند جاگیرداروں، وڈیروں اور سیاسی گماشتوں کے مفاد کی تکمیل کا ذریعہ ہیں؟

    ان کا مقصد صرف اور صرف "شدت پسندی اور انتہاپسندی" کو فروغ دینا ہے۔ ایسی تحریکیں جو نہ نوجوانوں کی نظریاتی تربیت کرتی ہیں، نہ ان کے شعور کی آبیاری کا بندوبست رکھتی ہیں، یا تو یہ اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کی پیداوار ہیں، یا خود غیرشعوری طور پر انہی کے آلہ کار بن چکی ہیں۔ آج وہی استحصالی طبقات "سرائیکی عوام کے حقوق" کے نام پر آگے آرہے ہیں، جنھوں نے کل انگریز کے تلوے چاٹے، آج سامراجی اداروں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں اور ہر حکومت کے ساتھ سودے بازی کرتے آئے ہیں۔

    اب وقت ہے کہ ہمارا نوجوان شعوری سطح پر غور کرے:

    ہمارے مسائل کیا ہیں؟

    یہ کیوں پیدا ہوئے؟

    ان کے پسِ پردہ کون سی اشرافیہ کارفرما ہے؟

    قوموں نے ان جیسے مسائل کا حل کیسے نکالا؟

    اور آج کے ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کے دور میں ایک خودمختار، آزاد اور انصاف پسند ریاست کیسے قائم کی جا سکتی ہے؟

    ایک آزاد ریاست میں صوبے کیسے خودمختار رہ سکتے ہیں؟ 

    یہ وقت خاموشی کا نہیں، اور نہ ہی شدت پسندی کا ہے بلکہ شعور، تجزیے اور منظم عمل کا ہے۔ ایک صوبہ اسی وقت آزاد اور خودمختار ہو سکتا ہے جب ریاست خود آزاد ہو۔ اس کے بغیر صوبائی خودمختاری محض "فریبِ نظر" ہے۔

    سرائیکستان محض نقشے کا ٹکڑا نہ ہو بلکہ انتظامی مسائل کا حل اوروسیب کے عوام کے شعور، خودمختاری اور عزتِ نفس کی آئینہ دار ہو؛ اس کی قیادت عوامی ہو، سامراجی دلالوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے پاک ہو؛ اور یہ صوبہ ایک آزاد، بااختیار، اور جمہوری ریاست کے اندر اپنے حقوق کے ساتھ ابھرے۔

    جدید دور کا مطالبہ ہے کہ نوجوان رنگ، نسل، مذہب، سیاسی جماعتوں اور فرقہ پرستی کی تمام زنجیروں سے خود کو آزاد کرے؛ اور خود کو ایک "منظم، تربیت یافتہ اور نظریاتی جماعت" کے قالب میں ڈھالے۔ تاکہ ہم "خدا پرستی اور انسان دوستی" پر مبنی ایک "عادلانہ ریاست" کی تشکیل کرسکیں، جہاں تمام صوبے آزاد، بااختیار اور اپنے فیصلوں کے خود مالک ہوں۔

    Share via Whatsapp