پاکستان کے موجودہ حالات میں نوجوان کی مایوسی کا تحلیل و تجزیہ
پاکستان کے موجودہ حالات میں نوجوان کی مایوسی کا تحلیل و تجزیہ
پاکستان کے موجودہ حالات میں نوجوان کی مایوسی کا تحلیل و تجزیہ
تحریر: انجینئر قمر الدین خان(راولپنڈی)
نوجوان کسی بھی ملک کا وہ قیمتی اثاثہ ہے، جس کا ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ اپنی بے پناہ جسمانی و ذہنی صلاحیتوں اور قائدانہ کردار کی وَجہ سے ملکی تقدیر تک بدل سکتا ہے، بشرطیکہ ملک کا نظام اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا نے کا اہل ہو۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز کا نوجوان اپنے اور ملک کے مستقبل کے بارے میں کافی فکرمند اور مایوس نظر آتا ہے، جس کی بنیادی وَجہ ملکی معاشی بدحالی،سیاسی بے یقینی اور بےروزگاری کا ایک بحران ہے۔
ہر نوجوان کا خواب ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے، لیکن ریاست پاکستان اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کے حوالے سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں کرتی، بلکہ اسے اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی روزگار ملنا، لاحاصل نظر آتا ہے۔ان حالات کے پیش نظر وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ پاکستان میں اس کا مستقبل تاریک ہے اور کیوں نہ ہو کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو چند سو ڈالرز کے عوض کسی مغربی یا مشرقی ملک کی خدمت میں پیش کر کے اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کو محفوظ بنا ئے۔اس لیے آج کا نوجوان روزگار کے لیے ملک چھوڑنے کا فیصلہ عقل مندانہ گردانتا ہے۔ نتیجتاً ہر دوسرا نوجوان ملک سے راہِ فرار ڈھونڈ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال میں سات لاکھ سے زیادہ نوجوان روزگار کے سلسلے میں پاکستان چھوڑ گئے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
اگر بات کی جائے حقائق کی تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بے روزگاری اور معاشی بحران پاکستان کے سلگتے مسائل ہیں۔ اور ہمارا نوجوان جو اپنے بل بوتے پر تعلیمی مرحلہ مکمل کرتا ہے تو ریاست پاکستان اسے باعزت و معقول روزگار دینے سے قاصر نظر آتی ہے ۔حکومتیں بدلتی جاتی ہیں، لیکن کوئی بھی حکومت باقی مسائل کی طرح بے روزگاری کے مسئلے کو نہ سنجیدہ لیتی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مضبوط اور قابل عمل پروگرام پیش کر پاتی ہے، بلکہ سوائے چند خوب صورت نعروں کے باقی سب کچھ ندارد۔ یہ وہ تلخ حقیقتیں ہیں جن سے ہمارا نوجوان متاثر ہوا ہے اور آج ملک چھوڑنے پر مجبور ہے۔
تصویر کا ایک رخ تو یہی ہے جو سب کونظرآرہا ہے، لیکن تصویر کاوہ دوسرا رُخ جو باہر ہجرت کرنے کے بعد سامنے آتا ہے، ہمارے نوجوان سے اوجھل ہے۔ اس لیے نوجوان کےلیےاس کا جاننا بھی ضروری ہے،جس کے چند پہلو درج ذیل ہیں ۔
1۔ یورپ اور امریکا کی چکاچوند زندگی بھی آج کافی مسائل کا شکار ہے، وہاں پر بھی اَب سیاسی ، معاشی اور امن کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ وہاں پر قائم سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت دولت کےاحتکار و اکتناز کی وَجہ سے معاشی بحران جنم لے رہے ہیں ۔ بھاری ٹیکسز اور افراط زر نے بنیادی ضروریات کا حصول کافی مشکل بنا دیا ہے، یہاں تک کہ انگلینڈ کے کچھ علاقوں میں لوگ فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
2۔ پاکستان کی یونیورسٹیز اور تعلیمی ادارے عالمی معیار کے نہیں۔ اس لیے یہاں کا گریجوایٹ وہاں کے گریجوایٹ سے نہ تعلیمی میدان میں مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ ہی پروفیشنل سکلز میں، اس لیے وہاں جا کر روزگار ملنے میں اِسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات پیٹ پالنے کے لیے وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن کو اپنے ملک میں عار سمجھا جاتا ہے۔
3۔ انسان کی عزت اور پہچان اپنے ملک میں ہوتی ہے۔ پرائے وطن میں وہ دوسرے درجے کا شہری ہوتا ہے ۔ اس کی نہ کوئی سیاسی حیثیت ہوتی ہے نہ ہی شناخت، یہی وَجہ ہے کہ کئی دہائیاں گزارنے کے بعد بھی وہ پردیس میں پردیسی ہی رہتا ہے ۔ مزید اس وقت یورپ میں پنپنے والی نیشنل سوچ نے وہاں کی قوم کو پردیسیوں کے بارے میں اور زیادہ حساس اور متحرک بنادیا ہے، جس سے پردیسی لوگوں کےلیے مسائل اَور بڑھ گئے ہیں۔مزید ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی اصل کامیابی دنیا و آخرت کی کامیابی سے جڑی ہوئی ہے۔ایک لادینی معاشرے میں پروان چڑھنے والی مسلمان نسل کا دین اسلام سے یقینی انحراف بھی آج ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
4۔ پاکستان میں نوجوان کل آبادی کا تقریباً 64 فی صد ہے جو کہ ایک بہت بڑی آبادی بنتی ہے،اتنی بڑی آبادی کا ملک سے باہرہجرت کر کے مسکنت اختیار کرنا، خلافِ عقل اور ناممکن ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں پاکستانی نوجوان کا اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر ملک چھوڑنے کے فیصلے کو عقل مندانہ سمجھنا بھی خود ایک سوالیہ نشان ہے؟ پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کا نوجوان ایسا کون سا لائحہ عمل اختیار کرے، جس پر عمل کر کے وہ نہ صرف اِس مایوسی سے نکل سکے، بلکہ اپنے اور آنے والی نسل کے لیے شاندار مستقبل مرتب کرسکے۔اس کے لیے یقیناً اسے سب سے پہلے مسائل اور ان کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا کہ کون سے عوامل ہیں، جنھو ں نے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو معاشی بحران میں مبتلا کر رکھا ہے؟ کیوں آئے روز ایک افراتفری اور بے یقینی کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ؟ کیا یہ معاشی اور امن کا بحران ، حکمران طبقے کے لیے بھی ہے؟ یا صرف عوام ہی اس کا شکار ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ سارے مسائل مصنوعی طریقے سے خاص منظم مکینزم کے تحت پیدا کیے جا رہے ہیں اور یہ سب اس غلامانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی وَجہ سے ہے، جس نے پچھلے 77 سالوں سے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے عوام کو یرغمال بنا یا ہوا ہے۔
آج نوجوان کو یہ حقیقت بھی سمجھنی ہوگی کہ جن مسائل سے جان بچا کر وہ راہ فرار اختیار کررہا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ باہر جا کر جدید سرمایہ داریت کے جدید مسائل کی دلدل میں پھنسنے جا رہا ہو؟ راہِ فرار اور اِنفرادیت کی سوچ جواں مردی نہیں، بلکہ بزدلانہ عمل ہے۔
یاد رکھیے! دنیا انھیں یاد رکھتی ہے جو اعلیٰ مشن کو زندگی کا مقصد بنا کر ملک و قوم کی ترقی کے لیے کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے آج نوجوان کو مایوسی اور اِنفرادیت سے نکل کر نظام ِظلم کے خدوخال کو سمجھنا ہوگا۔آج اس کو نبویﷺ انقلاب سے لے کر دورِحاضر تک کے جدید انقلابات کا مطالعہ کرنا ہوگا،کہ کیسے نبی اکرم ﷺنے جماعت صحابہؓ تیار کر کے مکہ اور پورے عرب میں انقلاب برپا کرکےنظام ظلم کا خاتمہ کیا ؟ کیسے روس و چین اور ایران کے نوجوان نے شعوری جدوجہد سے اپنے آپ کو منظم کر کے انقلابات برپا کیے ؟ کیسے آج انقلابی ممالک تھوڑے عرصے میں مضبوط سیاسی اور معاشی طاقتیں بن کر منظر عام پر ابُھررہی ہیں، بلکہ دنیا کی قیادت کرتے نظر آرہے ہیں ؟
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں:"جس سماج میں عوام پر بھاری ٹیکس لگائے جائیں اور حکمران طبقہ ان ٹیکسوں پر عیاشیاں کرے تو ایسے میں نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور اس کی جگہ عادلانہ نظام قائم کرنا لازم ہو جاتا ہے"۔
ہمارے ملک کا نوجوان بہادر و دلیر اور وطن سے محبت کرنے والا ہے ۔ اسے صرف درست راہ اور منزل کی پہچان کروانے کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ نوجوان پہلے درجے میں مایوسی اور جذباتیت سے نکل کر نظامِ ظلم کا شعور حاصل کرے اور اَگلے درجے میں ایک جامع اور ہمہ گیر تبدیلی کے حوالے سے عملی کردار ادا کرے۔ آج نوجوان کو اس بات کا احساس دِلانا ہوگا کہ یہ ملک ہمارا وطن ہے اور وطن سے محبت ایمان کا جزو ہے۔ یہ خطہ ہمارے بزرگوں کے دورعروج کی شاندار تاریخ اور روایات کا امین ہے اور نوجوان کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ تبدیلی نظام کا بوجھ اس نے ہی اُٹھانا ہے۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر نوجوان پاکستان کونہ صرف موجودہ مسائل کی دلدل سے نکال سکتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک شاندار مستقبل بھی مرتب کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوان کو مایوسی سے نکل کر وطنِ عزیز میں تبدیلی نظام کے حوالے سے شعوری جدوجہد کرنے کی جرأت وہمت اور استقامت عطا فرمائے ۔آمین!