نوآبادیاتی نظام سے جدید نوآبادیاتی نظام تک: ایک مختصر جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نوآبادیاتی نظام سے جدید نوآبادیاتی نظام تک: ایک مختصر جائزہ

    نوآبادیاتی نظام سے جدید نوآبادیاتی نظام تک: ایک مختصر جائزہ

    By یاسر Published on Jul 17, 2025 Views 563
    نوآبادیاتی نظام سے جدید نوآبادیاتی نظام تک: ایک مختصر جائزہ 
    تحریر:- یاسر علی سروبی مردان 

    18ویں اور 19ویں صدی میں برطانیہ نے کوئلے سے چلنے والے بھاپ کے انجن، فیکٹریاں، بحری جہاز اور ریل گاڑیاں ایجاد کیں، جو صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ بنیں۔ اس طاقت کے بل بوتے پر برطانوی سامراج نے ایشیا، افریقا اور امریکا کے بیش تر حصوں پر قبضہ کیا۔ دنیابھر میں اور خصوصاً ہندوستان پر نوآبادیاتی نظام مسلط کیا گیا، وسائل چھینے گئے، کروڑوں انسان غلامی، قتل و غارت گری اور معاشی بدحالی کا شکار ہوئے۔ برطانوی سامراج نے اپنے دورِعروج میں خصوصاً ہندوستان پر بے شمار مظالم ڈھائے۔ ان کے ظالمانہ سیاسی و معاشی نظام نے اس خطے کو شدید نقصان پہنچایا۔ ہندوستانیوں کی نسل کشی کی گئی، انھیں خوف میں مبتلا رکھا گیا تاکہ برطانوی قبضہ مضبوط ہو اور یہاں کے وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔
    برطانوی دورِحکومت کے معاشی و سیاسی جبر کے نتیجے میں ہندوستان میں قحطوں کا نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ شروع ہوا، جس کے نتیجے میں کروڑوں ناحق اموات ہوئیں۔ ہندوستان میں دو ہزار سالوں میں 17 قحط پڑے، مگر برطانوی دور میں 34 سے زیادہ مرتبہ قحط پڑا۔ بہ قول پروفیسر مائیک ڈیوس "حقیقت میں لندن ہندوستان کی روٹی کھا رہا ہے، جب کہ ہندوستانی بھوک سے مر رہے ہیں"۔ برطانوی سامراج کے پورے عہد 1757ء تا 1947ء میں تقریباً 5 کروڑ سے 8 کروڑ ہندوستانی قحط اور افلاس کے باعث ہلاک ہوئے۔
    دسمبر 2022ء میں شائع شدہ ایک تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر سرینواسا راؤ ویپاچدو (ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ان کارپوریشن، امریکا) اور ڈاکٹر جیسن ہیکل (لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس) نے تحقیق سے ثابت کیا کہ ہندوستان میں صرف 40 سال یعنی (1880ء تا 1920ء) تک برطانوی نوآبادیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں کروڑوں ہندوستانی لقمہ اجل بنے۔ یہ اموات زیادہ تر قحط، غربت اور برطانوی اقتصادی و سماجی پالیسیوں کی وَجہ سے ہوئیں۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ برطانوی حکمرانی نے ہندوستانی معاشرے کو مذہبی، ثقافتی اور معاشی لحاظ سے نقصان پہنچایا اور دانستہ طور پر اسے تقسیم کیا، تاکہ متحد ہوکر وہ انگریزوں کے خلاف قوت نہ بن سکے۔ مصنف کے مطابق نوآبادیاتی نظام نے یورپ کی خوش حالی کے لیے ہندوستان کو لوٹا۔ تقریباً 45 ہزار ارب ڈالر کی دولت انگلستان منتقل کی گئی، جب کہ مقامی ثقافت و معیشت کو تباہ کیا گیا۔ برطانیہ کا عروج ہندوستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔برطانوی اور فرانسیسی سامراج نے دنیا بھر میں مختلف ممالک پر نوآبادیاتی نظام مسلط کر کے وہاں انسانوں کی نسل کشی کی اور انھیں اپنے وسائل سے محروم رکھا گیا۔
    20ویں صدی میں امریکا نے تیل کو صنعت و توانائی کی بنیاد بنایا۔ بجلی، پاور ہاؤسز اور جدید مشینری کے ذریعے امریکا ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھرا۔ امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر دو لاکھ انسانوں کو راکھ کر دیا ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد برطانوی سامراج کا سورج غروب ہوا، لہٰذا دنیا کا نیا سامراج امریکا بنا۔ 
    امریکہ نے عالمی مالیاتی ادارے (IMF, World Bank) بنائے، تاکہ قرضوں کے جال کے ذریعے ممالک کو غلام بنایا جا سکے۔ ان اداروں کے قیام کا مقصد قوموں کی خودمختاری کو گروی رکھ کر ان پر غلامی مسلط کرنا تھا۔ ملٹری اِزم کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا، کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار کر ان کے وسائل پر قبضہ کیا گیا، یہ سلسلہ اَب تک جاری ہے۔ 
    اس جدید نوآبادیات کے لیے آلہ کار سیاسی، لسانی و مذہبی بنیادوں پر قائم جماعتوں کی سرپرستی کی گئی۔ تیسری دنیا کے حکمران در اصل ان اداروں کے منیجر ہوتے ہیں۔ کبھی جمہوریت، کبھی آمریت، کبھی ڈکٹیٹرشپ، کبھی انسانی حقوق کے نام پر ممالک میں سیاسی عدمِ استحکام پیدا کر کے ان کے وسائل لوٹ لیے گئے۔
    1947ءتا 1989ء کے دوران امریکا نے دنیا بھر میں 72 مرتبہ حکومتیں بدلنے کی کوشش کی، جن میں سے نصف سے زیادہ میں کامیاب رہا۔ امریکی سامراج کا وطیرہ رہا کہ دوسرے ممالک میں حکومتوں کو تبدیل کر کے ان پر آلہ کار گروہوں کو جمہوریت کے نام پر، اسلام کے نام پر، انسانی حقوق کے نام پر مسلط کر کے ان کے وسائل لوٹنا۔ امریکا کا طریقہ کار یہ ہے کہ دیگر ممالک کے اندر فتنے پیدا کر کے سیاسی عدمِ استحکام پیدا کیا جائے، تاکہ مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے ظالمانہ معاشی و سیاسی پالیسیاں مسلط کی جا سکیں۔ 1989ء کے بعد عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور مشرقِ وُسطیٰ میں نیٹو جیسے اتحادوں کے ذریعے لاکھوں انسان قتل کیے گئے اور ان کے وسائل پر قبضہ کیا گیا۔ حالیہ برسوں میں سیاسی و معاشی مفادات کے لیے شام میں آلہ کار پرتشدد گروہوں، اور بنگلادیش میں آلہ کار مذہبی و فوجی مداخلت کے ذریعے سیاسی عدمِ استحکام پیدا کیا گیا۔
    1945ءاَب تک امریکا نے تقریباً 40 سے زیادہ براہِ راست یا بالواسطہ جنگیں لڑیں اور کئی تنازعات میں ملوث رہا، جس میں کروڑوں اموات ہوئیں۔ حال ہی میں غزہ میں اسرائیل کے ساتھ مل کر امریکی سامراج نے سفاکیت کی مثال قائم کی۔ امریکا نے اسرائیل کو ہر طرح سے فوجی امداد دے کر فلسطینیوں کی نسل کشی کی، ہزاروں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو قتل کیا گیا۔ اَب انھیں اپنی سرزمین سے ہجرت پر مجبور کر کے ان کے وسائل اور زمین ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔
    برطانوی اور امریکی سامراج کا دامن انسانیت کے خون سے رنگین ہے۔ مغرب اور امریکا کے انسانیت کے خلاف یہ سنگین جرائم دنیا کبھی نہیں بھولے گی۔ 21ویں صدی میں، جب امریکا جنگوں اور حکومتوں کی تبدیلی میں مصروف تھا، چین نے اپنی صنعت کو ڈیجیٹل بنیادوں پر استوار کیا۔ آج چین دنیا بھر کو سستی اور پائیدار ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے۔ چین ڈیجیٹل ایج کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے اس نے مینوفیکچرنگ انفراسٹرکچر کو ترقی دے کر خود کو دنیا کی صنعتی طاقت بنایا اور ڈیجیٹل ترقی میں امریکا سے آگے جا رہا ہے۔
    اس کے ساتھ ساتھ افریقا ابھر رہا ہے اور جدیدنوآبادیاتی نظام کو چیلنج کر رہا ہے۔ مغربی و امریکی کمپنیاں جو وہاں کے وسائل لوٹ رہی تھیں، انھیں شدید دھچکا دے کر مغرب و امریکا کو سنگین چیلنج درپیش ہے۔ ان کی بالادستی اور ظلم و ستم دنیا بھر میں چیلنج ہو رہا ہے۔ اسی طرح ایشیائی ممالک خصوصاً ایران وغیرہ پہلے سے مزاحمت کی راہ پر گامزن ہیں۔ نئے تجارتی معاہدات ہو رہے ہیں، چین اور ایران بذریعہ ریل منسلک ہوگئے ہیں، روس کے ساتھ اسٹریٹیجک معاہدات ہورہےہیں۔ نئے بلاک بن رہے ہیں، تاکہ اپنی خودمختاری کو محفوظ کیا جا سکے۔ قوموں کے اندر خودمختاری، مقامیت اپنے وسائل پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ ساتھ ساتھ جدید خطوط پر ان ممالک میں ملٹری اِزم استوار کیا جا رہا ہے، تاکہ ان درندوں سے اپنے ملک کو بچایا جا سکے۔ مغربی و امریکی ٹیکنالوجی اور ملٹری مصنوعات دیگر خودمختار ممالک کی نسبت بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام زوال کی جانب گامزن ہے۔
    ایسے میں وطن عزیز کہاں کھڑا ہے؟ جس پر اپنے قیام سے لے کر آج تک بیرونی مداخلت کی چھاپ ہے۔ جس کا نظام آج بھی برطانوی کالونیل اِزم اور امریکی جدید نوآبادیاتی نظام کا مجموعہ ہے۔ یہاں کا عدالتی ڈھانچہ، معیشت، انتظامی ڈھانچہ، تعلیمی نظام اور پالیسی سازی پر سامراجی مفادات کی چھاپ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
    آج بھی قومی اثاثے، معدنیات، توانائی اور خودمختاری عالمی اداروں کے پاس گروی ہیں۔ پاکستان کب تک دوسروں سے بھیک مانگ کر ان کے مفادات پورے کرے گا؟ عالمی اداروں کے ہاں قومی آزادی، اثاثہ جات، وسائل گروی ہیں۔ باقی خودمختار ممالک کی قیادت قومی مفادات کو لے کر چل رہی ہے، جب کہ وطنِ عزیز پر مسلط اشرافیہ کے مفادات مغرب اور امریکا کے ساتھ پیوست ہیں۔ ان کے اثاثے، جائیداد، بینک بیلنس، شادیاں، زندگی وہاں ہے، یہاں تو صرف لوٹ کھسوٹ، غلامی مسلط کرنے اور اقتدار کے لیے آتے ہیں۔
    نوجوانوں کو ان سیاسی بہروپیوں سے بالاتر ہو کر اس پر سوچنا چاہیے۔ یہ وقت سوچنے، سمجھنے اور اپنے ملک کے مستقبل پر غور کرنے کا ہے ۔ دنیا بدل چکی ہے، نئی طاقتیں اُبھری ہیں، نوآبادیات چیلنج ہورہی ہیں، نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ طاقت کا توازن بدل رہا ہے، کثیرقطبی دنیا حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ لیکن وطنِ عزیز کب اس غلامی سے نکلے گا؟ کیا ہم ہمیشہ اس غلامانہ نظام کے تحت زندگی گزاریں گے؟ دوسروں سے مانگتے رہیں گے یا خودانحصاری، خودمختاری اور قومی غیرت کو اپنائیں گے؟ نوجوان مایوسی کے عالم میں ملک سے باہر جا کر قیمتی زرِمبادلہ بھیج کر یہاں کے اشرافیہ کو طاقت بخشیں گے یا قومی اور عدم تشدد کی بنیاد پر مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے عادلانہ نظام کی تشکیل کریں گے؟ یہ فیصلہ ہماری نوجوان نسل کو کرنا ہے۔ 

    حوالہ جات 
    1. https://www.researchgate.net/publication/366356187_BRITISH_KILLED_165_M_INDIANS_IN_40_YEARS_1881-920_and_Divided_to_Make_India_the_Supercontinental_Nuclear_Indo_Pacific_Empire_of_Darulislam_SNIPED_-shot_from_far_and_hiding-_taqayya_by_2047 
    2. https://www.aasc.ucla.edu/cab/200708230009.html 
    3. https://www.washingtonpost.com/news/monkey-cage/wp/2016/12/23/the-cia-says-russia-hacked-the-u-s-election-here-are-6-things-to-learn-from-cold-war-attempts-to-change-regimes/ 
    4. https://en.m.wikipedia.org/wiki/List_of_wars_involving_the_United_States_in_the_21st_century 
    5. https://en.m.wikipedia.org/wiki/List_of_wars_involving_the_United_States_in_the_20th_century
    Share via Whatsapp