آزادی: درست مفہوم، حدود اور اس کے عملی تقاضے
انسان اپنی جبلت میں آزادی پسند ہے، لیکن معاشرتی زندگی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ آزادی نظم و ضبط کے سانچے میں نہ ڈھل جائے۔

آزادی: درست مفہوم، حدود اور اس کے عملی تقاضے
تحریر: کاشف حسن، پشاور
گھڑ دوڑ کے میدانوں میں سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کا مسابقتی منظر ایک تربیت یافتہ آزادی کا مفہوم اور اہمیت سمجھنے کے لیے سب سے بلیغ استعارہ ہے۔ بہ ظاہراس آزادی کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، لیکن یہی گھوڑا جب لگام اور تربیت کے اصول کو قبول کر لیتا ہے تو وہ کارآمد بن کر انسانی ترقی کا وسیلہ بنتا ہے۔
یہی اصول انسانی زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ فطرت نے انسان کو آزاد تو پیدا کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ مادر پدر آزادی بہ ظاہر دلکش، مگر عملی طور پر انتشار کا دوسرا نام ہے۔
انسان اپنی جبلت میں آزادی پسند ہے، لیکن معاشرتی زندگی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک یہ آزادی نظم و ضبط کے سانچے میں نہ ڈھل جائے۔ اگر ٹریفک کا ہر ڈرائیور قانون کو نظرانداز کردے تو نتیجہ حادثات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اسی طرح معاشرتی زندگی میں بھی اصولوں کی پاسداری نہ ہو تو سماج انارکی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔
مولانا روم نے کہا تھا:
"ہر انسان کے اندر ایک فرعون چھپا ہے، جو طاقت اور بے مہار آزادی ملنے پر سرکشی پر اُتر آتا ہے"۔
یہی وَجہ ہے کہ آزادی اور ڈسپلن کا توازن انسانیت کی بقا اور ارتقا کی ضمانت ہے۔
قوموں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ڈسپلن کے بغیر آزادی تباہی کا راستہ ہے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے قومی ڈسپلن، منصوبہ بندی اور اجتماعی شعور سے چند دہائیوں میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر دکھایا۔ اسی طرح ایران نے عالمی پابندیوں کے باوجود اپنے نظریاتی اور تنظیمی ڈھانچے کو برقرار رکھا اور ترقی کی راہیں نکال لیں۔ اس کے برعکس وہ معاشرے جہاں نظم و ضبط مفقود ہے، وہاں انتشار، بدعنوانی اور زوال کا دور دورہ ہے۔ پاکستان کی صورتِ حال اس کی واضح مثال ہے۔
برعظیم پاک و ہند کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جو نظم عوام کی مرضی کے بغیر مسلط کیا جائے، وہ غلامی کی زنجیر بن جاتا ہے۔ برطانوی راج نے ریلوے، عدالتیں اور سول سروس جیسے ادارے قائم کیے، لیکن ان کا مقصد عوامی فلاح نہیں، بلکہ اقتدار کا تحفظ اور وسائل کا استحصال تھا۔ آزادی کے بعد بھی نوآبادیاتی ڈھانچہ اپنی روح کے ساتھ قائم رہا، جس نے عوام کو قانون کے سائے میں جبر اور ناہمواری کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔
اسی غلامی کا جدید چہرہ آج سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل کلچر کی بے لگامی کی صورت میں بھی نظر آتا ہے۔ "ریلز"، "نوٹیفیکیشنز" اور کبھی نہ ختم ہونے والی "اسکرولنگ" کے ذریعے نوجوان نسل کو ایک ایسی تباہ کن نفسیات کا شکار بنایا جا رہا ہے جو لمحہ بہ لمحہ فوری لذت اور مصنوعی آزادی کا سراب پیش کرتی ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے نوجوان روزانہ اوسطاً 3 سے 5 گھنٹے سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں، جس نے ان کی توجہ اور ارتکاز کی صلاحیت کو 40 فی صد تک کم کر دیا ہے۔ اس رویے نے نہ صرف فرد کو خود ڈسپلن کی صلاحیت سے محروم کیا، بلکہ اسے کسی اجتماعی نظم یا مقصد کا پابند بنانے کی نفسیاتی طاقت بھی سلب کرلی۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ مشرقی معاشروں میں خاندانی نظام، جو فرد کی پہلی تربیت گاہ اور ڈسپلن کا بنیادی ستون تھا، اَب شخصی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جانے لگا ہے۔ مغربی سرمایہ داری اس رجحان کو تقویت دے رہی ہے، کیوں کہ ایک مضبوط خاندانی ڈھانچہ اجتماعی شعور اور اخلاقی نظم کو پروان چڑھاتا ہے، جوصارفیت پر مبنی مارکیٹ کلچر کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ کارپوریٹ مفادات نے اِنفرادی آزادی کے نام پر خاندانی اقدار کو تحلیل کرنے کا ہدف بنا رکھا ہے۔ یہ صورتِ حال مشرقی سماج کے لیے محض اخلاقی بحران نہیں، بلکہ تہذیبی بقا کا سوال ہے۔
یہ تمام مثالیں ایک نکتہ واضح کرتی ہیں کہ آزادی اور پابندی کا تعلق طاقت یا جبر سے نہیں، بلکہ شعوری قبولیت سے ہے۔ اگر کوئی اصول باہر سے مسلط کیا جائے تو چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، انسان اسے غلامی محسوس کرتا ہے۔ لیکن جب وہی اصول اپنی مرضی اور فہم یعنی دل و دماغ کی ہم آہنگی سے قبول کیا جائے تو یہی پابندی آزادی کی ضمانت بن جاتی ہے۔
جنگلی گھوڑے کو زبردستی قابو کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ بدک کر بپھر جائے گا، مگر تربیت کے بعد وہی گھوڑا لگام کو اپنی رفتار کا حصہ مان لیتا ہے اور سواری کے لیے راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔ یہی مثال انسانی زندگی پر صادق آتی ہے۔ فرد اور معاشرہ جب اپنی بھلائی کے لیے اصولوں کی پابندی کو اپنا لیتے ہیں تو وہ آزاد بھی رہتے ہیں اور محفوظ بھی۔ یہی امتزاج انسان کو جنگل کی زندگی سے نکال کر تہذیب کے سفر پر گامزن کرتا ہے، اور یہی تخلیقِ آدم کا بنیادی مقصد ہے۔
اَب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے:
کیا ہم نام نہاد آزادی کے متوالے ہی بنے رہیں گے، یا شعوری ڈسپلن کے ذریعے اسے ترقی اور وقار کا وسیلہ بنائیں گے؟
اگر نئی نسل یہ سبق سیکھ لے کہ آزادی کا مطلب کسی پابندی کا نہ ہونا ہرگز نہیں، بلکہ ذمہ داری اور اصولوں کی پابندی ہے، تو ہم نہ صرف اِنفرادی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی حقیقی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔آزادی اور پابندی دشمن نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل ہیں، بشرطیکہ پابندی کو اپنی خوشی اور شعور سے قبول کیا جائے۔ یہی آزادی کا راز ہے اور مقصد تخلیق کی ابدی کنجی بھی۔