معاشرے پر سرمایہ پرستی کے اثرات
جس معاشرے میں طبقاتی سوچ پیدا ہوجائے ایک طبقے کو اہمیت دی جائے اور دوسرے کو نظر انداز کیا جائے تو وہ معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے
معاشرے پر سرمایہ پرستی کے اثرات
عابد حسین کولاچی، اسلام آباد
کسی بھی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کی بنیاد میں نظریہ ایک اصولی حیثیت رکھتا ہے، جو قومی اور اجتماعی مفادِعامہ کے لیے نہایت اہم اور ضروری ہے۔ جس معاشرے میں تمام انسانوں کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے وہ معاشرہ ترقی کرتا ہے، اس کے برعکس جس معاشرے میں طبقاتی سوچ پر مبنی سماج قائم ہوجائے، سرمایہ اور سیاست کی وجہ سے بالادست اور مؤثر طبقے پیدا ہوجائیں اور اسی بنیاد پر طبقات پیدا ہوں اور بالادست اور طاقت ور طبقات کو اہمیت دی جائے اور عوام کو نظرانداز کیا جائے تو وہ معاشرہ انتشار کا شکار ہوجاتا ہے، پھر اس معاشرے میں قومی اور مفادِ عامہ کی سوچ مٹ جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ اس خطے میں جب سے سرمایہ دارانہ نظریے کی بنیاد پر معاشرے میں قوانین بنائے اور نافذ کیے گئے ہیں تب سے لے کر اب تک ہماری سوچ بدل گئی ہے، ہر وہ نوجوان ذہن جو تخلیقی، فنی اور علمی کاموں میں مصروف عمل ہونا چاہیے تھا وہ محض سرمائے کی طرف گھوم رہا ہے، جس کے پاس جتنا سرمایہ ہے وہ اتنا سرمایہ دوگنا سہ گنا کرنے اور بڑھانے کی سوچ میں انسانیت کے مقام سے گرتا چلا جا رہا ہے اور جس کے پاس سرمایہ نہیں ہے اس کی تخلیقی، عقلی اور فنی صلاحیتوں کو احساسِ کمتری کی دیمک چاٹ رہی ہے،حتیٰ کہ بے روزگاری کی نحوست میں جکڑے ہوئے نوجوان اور مزدور، محنت کش اور کسان محض دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان حال ہیں۔
ایک طرف وہ طبقہ ہے جو سرمائے کی کثرت کی وجہ سے عیاشیوں میں مبتلا کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہوئے نظر آتاہے جب کہ دوسری طرف لاچار، مجبور محض، دہاڑی دار مزدور اور بے روزگار نوجوان انھی سڑکوں پر ان کی گاڑیوں کے دھوؤں میں سانسیں لیتا ہوا دو وقت کی روٹی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہاہے۔
سرمائے کی بنیاد پرکھڑے معاشرے کی اس غیرفطری تقسیم سے ہر فرد واقف ہے، پھر بھی اس غیرفطری نظام کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت اور رجحان اپنے اندر کم ہی رکھتے ہیں۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کے پاس زیادہ سے زیادہ سرمایہ ہو چاہے جو کچھ بھی کرنا پڑ جائے تاکہ وہ حال اس کا نہ ہو جو حال اس معاشرے میں کسی مجبور، بے کس اور لاچار آدمی کا ہے جو سرمائے کے نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو تعلیم نہیں دلاسکتا اور جو علاج نہ ملنے پر ایڑیا رگڑ رگڑ کر مرجاتا ہے، غذائی ضرورت پوری نہ ہونے کی وجہ سے بیمار رہتا ہے، اپنی بنیادی انسانی ضروریات کے حصول میں بھی ناکام رہتا ہے۔ کیوں کہ سرمائے کی بنیاد پر قائم اس معاشرے میں تمام سہولیات و تعیشات اس کو حاصل ہے، جس کے پاس سرمائے کا ڈھیر ہے، جو وسائل اور سرمائے کو حاصل کرنے کی قوت رکھتا ہے اور قانون بھی انھی طبقوں کے گھر کا غلام ہے، مسائل ان کے حل ہوتے ہیں، جن کے پاس طاقت ہے۔ سنی اس کی جاتی ہے جو مقتدر ہے۔ دانت اس کو دکھائے جاتے ہیں جو بے قصور ہے۔ اس لیے ہر فرد کی یہ سوچ بن گئی ہے کہ سب کچھ سرمایہ ہے۔
ایسا معاشرہ جہاں ہر وہ انسان جس کا مقصد صرف اور صرف سرمایہ ہو اس کے نزدیک باقی چیزوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی، وہ ان چیزوں کو بھی محض سرمایہ جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چاہے اس کے سامنے اپنے والدین، رشتے دار، دوست، یا استاد ہی کیوں نہ ہوں۔ سب کو وہ اس نگاہ سے دیکھتا ہے کہ ان سے کتنا فائدہ حاصل کرسکتا ہے، اس لیے ہر عام آدمی کا جھکاؤ صرف سرمایہ دار کی طرف ہے، کسی غریب کی طرف تو کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھتا بھی نہیں، وجہ یہی ہے کہ لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ اگر مدد کوئی کرسکتا ہے تو وہ سرمایہ دار اور طاقت ور ہی کرسکتا ہے۔ جس کے پاس سرمایہ نہیں اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا ایسے افراد سے تعلق بڑھانا وقت کا زیاں ہے اور کچھ بھی نہیں۔
جب کسی بھی معاشرے میں سرمایہ پرستی کی سوچ عروج پر چلی جاتی ہے تو اس معاشرے کے ہر فرد کے اندر حرص و حوس، لالچ اور بغض و عداوت پیدا ہوجاتی ہے اور ہر فرد سب سے پہلے اپنے مفادات کی طرف دیکھتا ہے، پھر چاہے دوسروں کا نقصان ہوتا ہے، ہوجائے، انفرادی اور وقتی مفاد غالب آجاتا ہے اور اجتماعی مفاد نظرانداز ہوجاتا ہے- یہی حال ہمارے اداروں کا ہےجن میں سکول ،کالج، یونیورسٹی، ہسپتال اور دیگر ادارے شامل ہیں- ان سب کو صرف اپنی فیسوں سے غرض ہے ، کسی کا مسئلہ حل ہوتا ہے یا نہیں انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
اسی سوچ نے ہمارے معاشرے کی اجتماعیت کو توڑ دیا ہے اور معاشرے کو ہر طرح کے گروہوں میں بانٹ دیا ہے، جس کے بھیانک اور خوف ناک اثرات کی وجہ سے ہمارے رویوں میں بہت زیادہ منفی بدلاؤ آیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں طبقاتیت، مفادپرستی، کینہ پروری، بغض و عدوات عروج پر ہے، جس کی وجہ سے مثبت سوچنا ہمارے معاشرے کے اس نوجوان نے چھوڑ دیا ہے جو قوموں کی حالت بدلنے کی واحد امید ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان ہر طرح کی سیاسی، مذہبی اور دیگر جماعتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہو رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے نام پر ملکی اور غیرملکی کمپنیاں بھی کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ کام لے کر نوجوانوں کا استحصال کر رہی ہیں- اس کے علاوہ میڈیا نے فرسودہ خیالات پر مبنی کھوکھلے تبصروں میں نوجوانوں کو الجھایا ہوا ہے۔ جس کے وجہ سے ہر نوجوان سیاسی مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے سے نہ صرف اختلاف رکھتا ہے، بلکہ نفرت کے جذبات بھی پنپ رہے ہیں، انھی حالات کے پیش نظر ہم مسلسل زوال کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
اس حالت سے نکلنے کا یہی واحد راستہ ہے کہ ہم اس سرمایہ دارانہ نظام کے بت کو توڑ کر آپس کے ہر طرح کے اختلافات اور ذاتی مفادات کو چھوڑ کر قومی اور ملی بنیادوں پر سوچنا شروع کر دیں۔ ایک دوسرے کی رائے اور خیال کو ترجیح دیں، ہر طرح کے مسائل کے حل کے لیے مل جل کر کام کریں اور اپنے دوستوں، رشتے داروں، مسافروں، یتیموں، بے سہارا اور غریبوں کا خیال رکھیں۔مشکل وقت میں ان کی مدد کریں، بلکہ تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ایک نظام بنائیں اور یہ تب تک ناممکن ہے، جب تک ہم اس سرمایہ پرستی کی خطرناک سوچ پر مبنی فرسودہ سماجی ڈھانچہ کو دفن نہیں کر دیتے، جس میں انسانیت کا خون شامل ہے اور اپنی ذاتی خواہشات اور خودغرضی کو سولی پر چڑھا کر قومی اور اجتماعی مفاد کی سوچ پیدا کرنے کے عملی میدان میں نہیں اترتے۔ بہ طور ایک قوم جب ہم یہ کام کر لیں گے، تب جا کر ہم معاشرے کو اس سرمایہ پرستی کی سوچ کے شکنجے سے آزادی دلاکر انسان دوستی کے نظریے پر پھر سے معاشرے کی تعمیر وتشکیل کر کے دنیا کے سامنے ایک اعلیٰ قوم بن کر پیش ہوں گے۔