ملکی سیاست اور عوام
ملکی سیاست کے ۷۴ سالوں کی تاریخ کو اٹھا کر کے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے تعلیم، صحت، روزگار اوربنیادی سہولیات سے آج بھی یہ عوام محروم نظر آتی ہے
ملکی سیاست اور عوام
تحریر: عابد حسین کولاچی، اسلام آباد
وطن عزیز کے موجودہ حالات اور 74 سال پہلے کےحالات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے 1947ء سے لے کراَب تک اس بے حال عوام کے جو مسائل اور پریشانیاں تھیں، آج بھی ویسے ہی پریشانیاں راستے کا پتھر بن کر کھڑی ہوئی ہیں۔
ملکی سیاست کے 74 سالوں کی تاریخ کو اٹھا کر اگر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے تعلیم، صحت، روزگار اوربنیادی سہولتوں سے آج بھی یہ عوام محروم ہیں اور ان ہی مسائل کے حل کی امید میں یہ بے چارے آج بھی ان ہی لوگوں کے مخصوص گروہوں کے پیچھے سڑکوں پر محض نعروں میں اپنی بےبسی کا ڈھول بجاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو اس عوام کی حالت بدلنے میں ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں لیتیں، ایسی سیاسی جماعتیں جب اقتدار سے باہر ہوتی ہیں تو عوام کو ان کے مسائل کے حل کرنے کا خواب دکھا کر سڑکوں پر نکال کر ان سے کبھی روٹی، کپڑا مکان پر تو کبھی گیس بجلی پانی، تو کبھی بدعنوانی کو ختم کرنے پر تو کبھی امن و امان مہیا کرنے کے نعرے لگواتی ہیں اور جب برسر اقتدار ہوتی ہیں تو اسی عوام کے مونہہ پراپنے بیانوں سے ایک طمانچہ رسید کرتی ہیں کہ یہ تو سیاسی بیان ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا قومی خزانے میں کمی کی باعث ہم کچھ نہیں کر سکتے اور مزید قرضے لے کر عوام کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دیتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں کر کے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر کر اقتدار کے مزے لوٹ کرپانچھ سال پورے کر دیتی ہیں پھر اسی عوام کو حالات بدلنے کے نام پرسڑکوں پر نکالتی ہیں۔
74سال گزرنے کے باوجود آج بھی تعلیم، صحت، روزگار کے مسائل ویسے ہی ہیں، جیسے پہلے تھے۔ آج بھی روٹی، کپڑا، مکان کی ضروت ویسی ہی ہے، جیسے پہلے تھی۔ آج بھی گیس، بجلی، پانی کی قلت ویسی ہے، جیسے پہلے تھی۔ آج بھی بدعنوانی ہے آج بھی امن و امان میسر نہیں آج بھی اس عوام کی جان و مال عزت و نفس کی حفاظت کا بندوبست نہیں ہے۔
آج بھی بہت بڑے عوامی ہجوم مختلف نعروں کے ساتھ سڑکوں پران ہی سیاسی جماعتوں کے خلاف اور ان ہی سیاسی جماعتوں کی حمایت میں نکل رہے ہیں اورہر دور میں ایک بہت بڑا عوامی ہجوم سڑکوں پر نکلا ہے، جس کا سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ان ہی جماعتوں نے ہر دور میں عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوے اور وعدے تو کیے ہیں، مگر کسی وعدے اور دعوے کو کسی بھی صورت عملی جامہ نہیں پہنچایا۔ پھر بھی دن بہ دن یہی عوام ان ہی سیاسی جماعتوں کے پیچھے نئے نئے نعروں کا شکار ہوکر سڑکوں پر دن رات جمع ہو رہے ہیں۔
ہمیں یہ بات بڑی واضح طور پر سمجھنی ہے کہ اگر یہی عوامی ہجوم پچھلی حکومتوں کی ناکامی اور ملک کو اس مقام تک پہنچانے کی بنیاد پر ردِعمل کے طور پر سامنے آیا ہے تو ہمیں اس بات کا اندازہ لگانا چاہیے کہ یہ عوام اپنے مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں شدید غم و غصے کا شکار ہے، جس کے اظہار کے لیے ہر شہر اور چوک پر جمع ہے اور اگر یہی عوامی ہجوم پھر کسی ایسی جماعت یا شخصیت کی حمایت کی بنیاد پر سڑکوں پر نکلا ہے جو دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف محض اقتدار کی دعوے دار ہے تو یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔
موجودہ ملکی حالات کے پیشِ نظر ہم پر بہ حیثیت قوم یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے اندر سیاسی اور نظریاتی شعور پیدا کریں۔ قومیں ہمیشہ ایک نظریہ پر بنتی ہیں جس قوم کا ایک فکر اور ایک مرکز ہوتا ہے۔ وہ قوم طبقاتی گروہی، ذاتی مفادات کے آگے سر نہیں جھکاتی اور اس میں رنگ نسل مذہب کی بنیاد پر اختلاف نہیں ہوتے، بلکہ وہ مل کر اپنے بنیادی مسائل حل کرنے لےلیے جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اور کسی بھی قوم کو بنانے میں ہر دور کے نوجوانوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان کے اندر سیاسی بصیرت اوراس پر عملی جدوجہد کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ یہی نوجوان ہوتے ہیں جو ایک مضبوط اور مستحکم جماعت کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں جو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں اور اپنے معاشرے کی سیاسی، معاشی اور سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
اس کی واضح مثال ہمیں حضور اکرم ﷺ اور ان کی جماعت صحابہ میں ملتی ہے، جنھوں نہ صرف مکہ کے حالات بدلے، جہاں ہر طرح کی برائی اور ظلم عام تھا۔ بلکہ قیصر و کسریٰ کی ظالمانہ حکومتوں سے اس کے عوام کو نجات دلائی ہے۔ مکہ کا ظالم طبقہ غریبوں، مسافروں اور بے کسوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا تھا اور یہ سب ظلم اس عوام پر وہاں کا حکمران طبقہ کرتا تھا۔ ابوجہل اور اس کی ظالمانہ حکومت نے طبقاتی گروہی اور مفاداتی سوچ کو فروغ دے کر مجبور بے کس انسانوں کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا۔ ایسی صورت میں حضور اکرم ﷺ نے اپنے نوجوان صحابہ کی جماعت بنائی، جس کل انسانیت میں عدل و انصاف کے نظریے پر سیاسی شعور پیدا کردیا۔ جس نے ابوجہل کی ظالمانہ حکومت کو ختم کرکے عدل و انصاف کی حکومت کو قائم کیا۔
دنیا میں قوموں کے حالات بدلنے کا یہی دستور پہلے بھی تھا اور یہی دستور آج بھی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے انبیا سیاست کیا کرتے تھے، جب ان کا کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرے ان کی جگہ آ موجود ہوتے۔ لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، ہاں! میرے نائب ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ (بخاری شریف، حدیث : 3455) جوسیاست کریں گے دنیا نے دیکھا کہ ہزار سالہ دورِ اقتدار مسلمانوں کا رہا ہے، جس میں کسی بھی قوم پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوا، بلکہ سب کے ساتھ عدل و انصاف کے تحت معاملات طے پائے۔
آج بھی کسی قوم کی حالت کوبدلنے کا یہی راستہ ہے، جس میں ایک نظریے،سوچ اورسیاسی شعورکی بنیاد پر قومی اور ملی مفاد کے لیے نوجوانوں کو میدانِ عمل میں اپنا کردار ادا کرنا پڑےگا۔ جب تک کوئی قوم ایک پیج پر نہیں آتی، تب تک اس کے حالات جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ یہی وَجہ ہے کہ ہم وطن عزیزکی محبت میں کبھی ایک پیج پرجمع نہیں ہوئے۔ ہمارے اندر لسانی، علاقائی، ذاتی اور گروہی بنیادوں پر جھگڑے عروج پر ہیں۔ مذہبی بنیاد پر شدید فرقہ واریت ہے اور سیاسی حوالے سے ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں، ہم ہرقسم کی تقسیم میں گھرے ہوئے ہیں۔ جب کسی بھی قوم کی ایسی صورتِ حال ہوتی ہے تو اس قوم کے تمام مسائل اسی طرح رہتے ہیں ان میں کوئی ردوبدل نہیں ہوتا۔ محض نعرے بازی کی سیاست اور سوشل میڈیا پر کھوکھلے تبصروں،چوراہوں اور میدانوں میں عوامی ہجوم کو جمع کرنے سے اقتدار کا کھیل تو کھیلا جا سکتا ہے مگر قوم کی حالت کو بدلا نہیں جا سکتا۔
آج ہمارے نوجوان کی سیاسی سرگرمی محض نعروں تک محدود ہے جو کسی سیاسی جماعت کے خلاف یا حمایت میں گونچتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پرہر ایک نوجوان فضول قسم کے تبصروں اور باتوں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتا ہے اس میں ملکی اور قومی مسائل کو سمجھنے اور اس سے نکلنے کا کوئی سیاسی شعور حاصل کرنے کا جذبہ نہیں پایا جاتا، نہ ہی اپنے ذاتی مفاد سے بڑھ کر قومی اور ملی مفاد کے لیے میدانِ عمل میں اترنے کو تیار ہے۔ اور جب تک ہمارے نوجوانوں میں خود اپنے حالات کو بدلنے کی سمجھ بوجھ اورشعور حاصل کرکے عملی طورپر کردار ادا کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا تب تک یہی حالات رہیں گے۔74 سال گزر گئے ہیں، ممکن ہے مزید 74 سال اور گزر جائیں۔ کیوں کہ خدا بھی اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کوتیار نہ ہو۔