علم نافع کی ضرورت و اہمیت
ہر وہ علم جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہے اس کا حصول دینِ اسلام میں جائز اور حلال ہے اور جو انسانیت کے لئے نقصان دہ ہے وہ حرام ہے ۔
علم نافع کی ضرورت و اہمیت
تحریر: عابد حسین کولاچی، اسلام آباد
علم و آگہی انسانی فطرت میں شامل ہے ۔ اس لیے ہر انسانی معاشرے کی کامیابی کے لیے علم کے حصول کی جدوجہد فرض ہے۔ روز اول سے حصولِ علم کے لیے انسان اپنی جستجو میں مصروفِ عمل ہے۔ یہی چیز ہے جو انسانوں کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ یہی علم ہے، جس کی وَجہ سےاللہ نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب سجدے میں گر پڑے۔ ابلیس نے کہا کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا، کہا بھلا دیکھ تو یہ شخص جسے تونے مجھ سے بڑھایا، اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں بھی سوائے چند لوگوں کے اس کی نسل کو قابو کر کے رہوں گا۔ اللہ نے فرمایا جا پھر ان میں سے جو کوئی تیرے ساتھ ہوا توجہنم تم سب کی پوری سزا ہے۔(1)
اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کو انسانیت کی بقا کا اعلیٰ علم و شعور عطا فرما دیا ہے۔ اس کے باوجود جو اللہ کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، وہ اسی شیطان کے ساتھ جہنم کی آگ میں جلیں گے۔ گویا ہر وہ علم جو انسانیت کے لیے فائدہ مند ہے اس کا حصول دینِ اسلام میں فرض ہے۔
روزِ اول سے انسانی عقل [حصولِ علم کے لیے] مسلسل جستجو میں مصروفِ عمل ہے۔ یہی وَجہ ہے، انسان نے مختلف ادوار میں علمی ترقیات کی منازل طے کی ہیں ۔ نئے نئےعلوم فنون کی دریافت ،وُسعت اور فروغ کا سفر جاری و ساری ہے ۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات اسی کاوش کا نتیجہ ہیں۔ جہاں انسان کی ترقی کی بات ہے ، وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فطرت انسانی کو یہ جوہر عطا کیا [کہ ہر دور میں انسانیت اپنی روحانی اور معاشرتی، دینی، سیاسی، معاشی اور عمرانی ارتقا کا بندوبست کرے ] تا کہ کل انسانی معاشرہ اجتماعی طور پر ترقی حاصل کرے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمگیر بھلائی اور سلامتی کے نظامِ فکرکی بنیاد پرعدل اور انصاف پر مبنی ایک ایسا نظام قائم کیا جائے، جس سے انسانیت کی بنیادی ضروریاتِ تعلیم، صحت، روزگار، مکان اور اخلاق فاضلہ سمیت دیگر ضروریات زندگی کو حاصل کرنے کے لیے انتظام کیا جا سکے۔ تا کہ ہر انسان با آسانی اپنی زندگی بسر کر سکے۔ انسانی معاشرتی ارتقا کے اس سفر کے چار مدارج کو امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ارتفاقات کا نام دیا ہے۔
جہاں انسانی معاشرے کی کامیابی اللہ نے کل انسانیت کی ترقی اور فلاح و بہبود میں رکھی ہے، وہیں شیطانی خیالات انسان کے اندر ذاتی اور گروہی سوچ کو اُبھارنے اور انسانوں کو طبقات میں باٹنے، بعض کو بعض کا غلام بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ فرعون نے بالکل اسی طرح کیا تھا۔ اللہ نے فرمایا بے شک فرعون سرکش ہوگیا تھا اور وہاں کے لوگوں کے کئی گروہ کر دیے تھے ان میں سے ایک گروہ کو کمزور کر رکھا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا بے شک وہ مفسدوں میں سے تھا۔ (2)
جب کچھ افراد کل انسانیت کے اعلٰی علوم اور افکار کو چھوڑ کر ذاتی گروہی مفادات کے شیطانی فکر پر معاشرے میں طبقات بناکر انسانیت کا استحصال کرتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو واضح علم اور ہدایت دے کر بھیجا، تا کہ انسانیت کی رُکی ہوئی ترقی جاری کی جائے ، جس طرح اللہ نے فرعون کے خلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا تھا۔ تاکہ وہ اللہ کے واضح اور روشن علم اور پیغام کو نوجوان نسل تک پہنچائیں۔ غلامی کے اَثرات کو دور کرنے کی جدوجہد کریں اور انسانی تاریخ گواہ ہے، جن جن قوموں نے معاشرے میں انسان دشمن رویوں کو قائم رکھا اور انسانی بھلائی کے پروگرام کا انکار کیا تو اللہ نے ان پر عذاب نازل کر کے ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا اور ایسے لوگوں کا وجود باقی رکھا جو انسانی بھلائی اور خیرخواہی کا علم اور جذبہ رکھتے تھے۔
سرور کائنات حضور اکرم ﷺ نے بھی دعا مانگی کہ یا اللہ! مجھے ایسا علم عطا کر جس کے ذریعے تو مجھے نفع دے۔ (3) اور اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو نفع نہ دے۔ (4)
علم نافع وہی ہے جوکل انسانی تجربات کی تاریخ اور ان کے نتائج و ثمرات کو بیان کرے۔اسے قرآن حکیم کی صورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا، جس میں انسانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے اساسی اصول قوانین موجود ہیں جو تاقیامت ہر دور میں انسانی معاشروں کی تعمیر وتشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ حضوراکرم ﷺ اور ان کی جماعت نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں انسانی معاشروں میں نہ صرف قومی، بلکہ بین الاقوامی عادلانہ نظام قائم کیا، جس سے کل انسانیت نے بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب مادی ترقی بھی حاصل کی اور روحانی ترقی بھی حاصل کی۔ دینِ اسلام میں خدا پرستی اور انسان دوستی کا نظام قائم کرنا لازم و ملزوم ہے ۔ یہی وَجہ ہے کہ عادلانہ نظامِ حکومت کے قیام کے بعد اللہ تعالٰی نے اس جماعت کے لیے دنیا کے تمام خزانے پیش کردیے اور کوئی غریب اور بھوکا نہ رہا اور کئی صحابہ کو ان کی زندگی میں ہی حضوراکرم ﷺ نے جنت کی بشارت بھی سنادی۔ گویا دنیا کی مادی ترقی اور آخرت کی روحانی ترقی کا کوئی بھی علم انسانیت کے فائدے کے لیے حاصل کر کے اس پر انسانیت کی بقا اور ترقی کے لیے نظام بنایا جائے تو وہ نافع علم ہے اور جو انسانیت پر ظلم اور جبر اور انسان کو غلام بنانے طبقاتیت میں باٹنے اور محض خواہشات کو پورا کرنے کے لیے طاغوتی اور انسان دشمن نظام بنایا جائے تو وہ نقصان دہ علم ہے اور اسی علم سے حضور اکرم ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔
حصولِ علوم کے ان ہی اصولوں کی بنیاد پر ہمیں اپنے معاشرتی رویوں اور سوچ کو جاچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری درس گاہوں، مدرسوں، اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں جتنے بھی علوم پڑھائے جاتے ہیں، چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے ہوں یا پھر اخروی اعتبار سے ہوں، کیا وہ کل انسانیت کی ترقی اور برابری کی بنیاد پر معاشرے میں عدل و انصاف کو قائم رکھنے کے نقطۂ نظرسے پڑھائے جاتے ہیں ۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر غور کرنے کی بات ہے کہ ذاتی اور گروہی مفادات کی سوچ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ کیوں مسلسل فروغ پذیر ہے ؟ نظام کے اَثرات کا ادراک نہ ہونے کی وَجہ سے قومی شعور کی جگہ گروہی مفادات کے تحفظ کی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہمارے معاشرتی اداروں میں بھی اسی مفاداتی اور گروہی سوچ کا اثر و رسوخ پایا جاتا ہے۔
آج ہمارے لیے اس بات کو سمجھنا لازمی اور ضروری ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کے پیچھے کون سا فکرغالب ہے؟ کیا وہ کل انسانیت کے لیے برابری کی بنیاد پر نفع بخش رویے کو فروغ دیتا ہے یا پھر انسانیت کو زوال، پستی اور ظلم کی طرف دھکیلنے کے اسباب کو فروغ دیتا ہے؟ دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ طاغوتی نظام کے شکنجے میں ہے۔ ایسی صورت میں ہم پر بہ طور ایک قوم اس بات کا فیصلہ کرنا فرض ہوجاتا ہے کہ بقائے انسانیت کے لیے قرآنِ حکیم سے اعلیٰ شعور و افکار پر مبنی علوم کو حاصل کر کے ایک صالح معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے مدارج کا فہم حاصل کرکے اس یقین کے ساتھ جہد مسلسل کریں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے اور اپنے اردگرد مایوسی کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرکے دنیا اور آخرت کو جنت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حوالہ جات:
1۔ القرآن، سورت الاسرا، آیت نمبر، 61تا 63
2۔ القرآن، سورت القصص، آیت نمبر، 4
3۔ السنن الترمذی، حدیث نمبر 3599
4۔ السنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر 250