انسان پر عائد ذمہ داریوں کا مقصد؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انسان پر عائد ذمہ داریوں کا مقصد؟

    انسان چاہے کسی بھی مذہب،نسل،زبان، ملک یا خطے سے تعلق رکھنے والا ہو، وہ بچپن سے بڑھاپے تک اس دنیا میں اجتماعی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے آیا ہے۔

    By Mubashar Hussain Published on Aug 20, 2021 Views 2179

    انسان پر عائد ذمہ داریوں کے مقاصد 

    تحریر: مبشرحسین۔گوجرانوالہ

    انسانی ذمہ داریوں کا تعین:

    انسان اپنی فطرت کے مطابق اجتماعیت پسند ہے۔ یعنی ہر سطح پر مل جل کر زندگی بسر کرنا، اس کی سرشت میں شامل ہے، اسی کے نتیجے میں خاندان، قبائل اور اقوام وجود میں آئی ہیں، مل جل کر اجتماعی زندگی گذارنے اور ترقی کے لیے آپس میں تعاون اور ذمہ داری نبھانا بھی انسان کی فطرت میں شامل ہے۔

    انسان پر عائد یہ ذمہ داریاں اس کی تعلیم و تربیت، روز مرہ کی زندگی کے گھریلو امور، معاشی و سماجی لین دین اور قومی سیاسی نظام سے متعلق اس کی ذاتی، خاندانی، قومی اور بین الاقوامی دائروں میں ہیں۔ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے سب سے پہلے انسان کا اپنے مقصدِ تخلیق کو سمجھنا، اجتماعیت کے شعور کا حصول اور اس صلاحیت کو حاصل کرنا نہایت ضروری و اہمیت کا حامل ہے۔ انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی صورت میں وہ کہیں بیٹا، کہیں بھائی، رشتے دار، شوہر تو کہیں باپ، ملازم، مالک، کہیں عام فرد اور کہیں حکمران کی ذمہ داریاں ادا کرتا ہوا نظر آتاہے۔ انسان پر ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کی نتیجے میں کبھی کبھار آزمائش بھی آتی ہے، لیکن یہ آنے والی آزمائشیں کوئی سزا نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے نتیجے میں انسان پہلے سے زیادہ جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ اللہ تعالی یہ ان آزمائشوں کے ذریعے دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اپنی ذمہ داریاں احسن انداز سے پوری کرتا ہے۔ جیسے قرآن حکیم میں فرمایا گیا کہ:

    الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ وَهُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُۙ۔ سورة الملك : آیت نمبر 2

    جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے، اور وہی ہے جو مکمل اقتدار کا مالک، بہت بخشنے والا ہے۔ 

    اسی طرح حدیث مبارک میں آیا ہے کہ: 

     كلكم رَاعٍ, وكلكم مسؤول عن رَعِيَّتِهِ: والأمير رَاعٍ, والرجل رَاعٍ على أهل بيته, والمرأة رَاعِيَةٌ على بيت زوجها وولده, فكلكم راَعٍ, وكلكم مسؤول عن رَعِيَّتِهِ۔ (مسند احمد :12048) 

    عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا "تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ چناں چہ امیر(حکمران) ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔

    ذمہ داریوں کا مقصد:

    جس طرح پوری کائنات کا نظام اللہ تعالی کے غیرمتبدل اصولوں کے مطابق اس کے فرشتوں کے ذریعے سے کار فرما ہے، اسی طرح اللہ تعالی کی ذات اس دنیا میں انسانی معاشرے کے نظام کو سماجی بھلائی کے عادلانہ اصولوں پر انسانی جماعت کے ذریعے چلانا چاہتی ہے، تاکہ سماجی ناانصافی و ظلم، افلاس و بے روزگاری، بدعنوانی و سرکشی، جبر و غلامی، انارکی، بد اخلاقی و فحاشی اور دیگر معاشرتی جرائم کو ختم کر کے وہ انسانی جماعت ایک ایسا پرامن منصفانہ سیاسی نظام، عادلانہ معاشی نظام اور اجتماعیت پر مبنی سماجی نظام قائم کرکے معاشرے کو جہنم سے جنت میں تبدیل کر سکے۔ 

    انبیاءے کرام علیہم السلام کی سیرت:

    حضرت آدم علیہ اسلام سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیائے کرام علیہم السلام اس دنیا میں آئے، نیابت الٰہی کے مطابق انھوں نے اپنی خاندانی زندگی سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک کی ذمہ داریاں اپنے اپنے دور کے تقاضوں، تعلیمات، نظام اور موجود وسائل کے ذریعے احسن انداز سے ادا کیں اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے مکمل طور پر پورے اترے۔ جس کے نتائج یہ نکلے کہ اکثر انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنے معاشروں میں عادلانہ نظامِ حکومت قائم کیا اور انسانیت کو مجموعی طور پر ترقی دی۔ 

    آج کا عملی تقاضا:

    انسان کی مختلف ذمہ داریوں کا مقصد آج بھی وہی ہے جو نہ کبھی بدلا تھا اور نہ قیامت تک کبھی بدلے گا۔ وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ (البقرہ: آیت 30) تاکہ اسے ذاتی ذمہ داریوں سے لے کر بین الاقوامی ذمہ داریوں تک مختلف آزمائشوں سے گزار کر امتحانات لےکر اس قابل بنا سکے کہ وہ اس دنیا میں اجتماعی ذمہ داریاں ادا کرسکے اور تمام مخلوقات کو ان کی حقیقی ترقی حاصل ہو اور وہ اپنے اپنے درجہ کمال تک پہنچ سکیں۔

    آج ہمارے معاشرے میں نا انصافی، ظلم ، بھوک و افلاس، بے روزگاری، بد عنوانی، سرکشی، جبر، غلامی اور سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک عزیز پاکستان میں موجود تمام طبقات اس غلامی کے نظام کی وجہ سے زوال وذہنی پستی کا شکار ہوکر اپنی ذاتی زندگی سے لے کر قومی و بین الاقوامی ذمہ داریوں کی ادائیگی تو دور کی بات، اس کے شعور سے بھی کوسوں دور ہیں۔   

    آج انسانی اجتماع کو اسکی ذاتی و خاندانی زندگی سے لے کر قومی و بین الاقوامی زندگی تک کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل اگر کوئی بنا سکتا ہے اور اس کی آزمائشوں اور امتحانات میں سے کوئی کامیاب کر سکتا ہے تو وہ وہی اللہ تعالیٰ کا قرآنی نظامِ زندگی ہے۔ جس کے سیاسی، معاشی اور سماجی اصولوں پر مبنی نظامِ عدل کو معاشرے میں قائم کرنے کے لیے آج بھی اجتماعی شعوری و عملی جدوجہد ایک نظم و ضبط کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔

    Share via Whatsapp