معاشرتی بگاڑ کے اسباب اور اس کا علاج
سماجی بگاڑ بنیادی طور پر معاشی عدم مساوات ,ناقص تعلیمی نظام اور غلط سیاسی نظام ہے اور یہ خود مسائل نہیں ہیں بلکہ نظام ہی نے اسے جنم دیا ہے
معاشرتی بگاڑ کے اسباب اور اس کا علاج
تحریر: خالد انتظار ،کوہاٹ
اپنا خیال
خیالات کے باہمی اظہار سے دوسرےکے ذہن کو مہمیز ملتی ہے کیونکہ اس سے انسان کی مسئلہ حل کرنے کی جدوجہد متحرک ہوجاتی ہے۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ معاشرے میں احساس رکهنے والے افراد ضرور موجود ہیں اور یہ مستقبل کےلیے خوش آئند بات ہے کیونکہ معاشرے کی موت تب واقع ہوتی ہے جب احساس رکهنے والے افراد بے حس ہوجائیں اور معاشرے کے ہر ظلم و بربریت سے نمٹنے کے بجائے خود کو اس کا عادی بنانےمیں لگ جائیں
مولانا ابوالکلام آزاد رح جن سے ہماری مذہبی جماعتیں خود کو منسلک کرکے اپنے "قد کاٹھ" بڑھانے میں مصروف رہتی ہیں ، مگر ان کی قیمتی باتوں کی طرف دھیان بہت کم دیتی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ" بدترین غلامی وہ ہے جب غلام کو یہ معلوم نہ ہو کہ میں غلام ہوں"......
آئیے اپنے خیال کے اظہار کی طرف۔ اصل میں جب کسی مریض کو کوئی مرض لاحق ہوجائے تو ڈاکٹر کےلیے ضروری ہے کہ وہ پہلے مرض کی تشخیص اور بعد میں اس کا علاج کرے تشخیص سے پہلے علاج تجویز کرنا مرض میں اضافے کا باعث ہوسکتا ہے. اسی طرح سماج کو بھی مختلف قسم کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں تو ضروری ہوتا ہے کہ پہلے اس بیماری کی تشخیص کی جائے اور پھر اسی کےمطابق علاج تجویز کیا جائے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ایک تو ہمارے سماج کو شروع سے مختلف مہلک امراض لاحق ہیں اور دوسرا یہ کہ شروع سے اس مرض کی تشخیص پر سنجیدگی سے کام نہیں لیا جاتا اور نہ ہی ان کی وجوہات پر غور کیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا مرض بہتری کی بجائے مزید مہلک صورت اختیار کرتاجا رہا ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج کے بگاڑ کی وجوہات کیا ہیں اور اس کی بنیادی جڑ کیا ہے.
1 : معاشی عدم مساوات
میرے خیال میں کسی بهی سماج میں جرائم اور اس طرح کے واقعات میں بنیادی وجہ اس قوم میں معاشی عدم مساوات ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ طبقات میں بٹ جاتا ہے معاشرے کا ایک طبقہ امیر تر جبکہ دوسرا طبقہ غریب تر ہوتا جاتا ہے اور یہی غربت زدہ طبقہ خود کو انسانی سطح سے نیچے کی مخلوق سمجهہ کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنے پیٹ اور دوسری ضروریات پورا کرنے کےلیے جرائم میں مبتلا ھوجاتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :
تاکہ وہ (مال)تمہارےدولت مندوں میں نہ پھرتا(گردش کرتا) رہے......
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ " قریب ہے کہ فقر (تمہیں )کفر تک پہنچادے"
سماج میں معاشی بد حالی کی وجہ سے جرائم کا ذمہ دار وہ طبقہ ہے جو قوم کے اجتماعی معاشی وسائل پر قابض ہوکر ان کا بہاؤ اپنی طرف موڑ چکا ہے ایک اندازے کے مطابق دنیا میں موجودہ وسائل دس ارب لوگوں کےلیے کافی ہیں اور دنیا کی آبادی سات ارب ہے اور اس میں تقریبا چهے ارب لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔نہایت محدود طبقہ باقی تمام وسائل پر قابض ہے اور سماج کو محروم رکها ہوا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ رح فرماتے ہیں کہ" وہ شاہانہ نظام زندگی جس میں چند اشخاص یا چند خاندانوں کی عیش وعشرت کے سبب سے دولت کی تقسیم میں خلل واقع ہو ملک کےلیے تباہ کن ہے اور اس کو جلد از جلد ختم کرکے عوام کو اس مصیبت سے نجات دلائی جائے." لہذا معاشرے کے بگاڑ میں ایک بنیادی وجہ معاشی عدم مساوات ہے.
2 : تعلیمی نظام کی خرابی
معاشرے کی خرابی کا دوسراسبب طبقات نظام تعلیم ہے۔ کسی بهی قوم کی روحانی اور مادی ترقی میں اس قوم کے تعلیمی نظام کا بنیادی کردار ہوتا ہے جس کی بدولت قوم میں شعور پیدا کیا جاتا ہے اور ان کو اعلی اقدار کی تربیت دے کر معاشرے کا ایک سلجھا ہوا فرد تیار کیا جاتا ہے ہمارے تعلیمی سسٹم کا اندازہ تو ہر کسی کو اچهی طرح ہے کہ یہاں انگریز سامراج نے آکر ہمارا تعلیمی سسٹم دین و دنیا کے نام پر تقسیم کرکے معاشرے میں دو قسم کے لوگ پیدا کردیے ایک کو عصری تعلیم کے حصول پر لگا کر دنیا کے معاملات چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی
جبکہ ہمارا عصری تعلیمی نظام لارڈ میکالے کا بنایا ہوا ہے جو جدید عصری علوم سے کافی پیچهے ہے اور لارڈ میکالے کا کہنا ہے کہ ہم نے برصغیر کو جو تعلیمی سسٹم دیا ہے اس کا مقصد برصغیر میں انگریز کی سرکاری مشینری چلانے کےلیے کلرک پیدا کرنا مقصود ہے ۔
دوسرا طبقہ جو دینی مدارس سے تلعق رکھتا ہے وہ جدید اور عصری علوم کو دنیا قرار دے کر اسے حاصل نہیں کرتا وہ بهی اپنے مخصوص فکر کے اعتبار سے چند مخصوص کتب پڑھتے پڑهاتے ہیں جن میں عقائد کی درستگی ،اصلاح اعمال اور چند فقہی مسائل پر مشتمل کتب شامل ہیں ۔یہ لوگ سیاست، سماجیات اور عمرانیات وغیرہ کو دنیا قرار دے کر اس سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں موجود ان دو طبقات میں ایک دوری نظر آتی ہے اور یہ طے شدہ بات ہے کہ جو معاشرہ ذہنی وحدت سے محروم ہوتا ہے وہ ہمیشہ انتشار کا شکار رہتا ہے تو سماج کی بہتر تشکیل میں تعلیمی سسٹم کا بنیادی رول ہوتا ہے جس سے ایک نیا سماج تشکیل پاتا ہے۔مگر ہمارے ھاں وہ موجود نہیں ہے
3:غلط سیاسی نظام
تیسری بات سیاسی نظام کی ہے سب سے پہلے تو سیاست کو ہی سمجهنا ضروری ہے کہ سیاست کیا ہے؟ سیاست کا مقصد کسی قوم کو ان کے نقائص ، مسائل اور محرومیوں سے نکال کر مجموعی طور پر ترقی کی طرف لے جانا ھوتاہے۔ اس لحاظ سےخدمت انسانیت کو سیاست کہا جاتا ہے لیکن یہاں سیاست کا مفہوم ہی الگ ہے اور وہ لوٹ کھسوٹ اور ناجائز بالادستی کا دوسرا نام ہے۔اسی بناء پر سیاست مفاد پرستی اور منافقت کی علامت بن کر ری گئی ہے۔ لوگ مروجہ سیاست کی شکل دیکهہ کر مایوس ہوچکے ہیں حالانکہ سیاست انبیاء کا منصب ہے ہمارا قومی سیاسی سسٹم بھی میکاولی کی فلاسفی پر قائم ہے جس کا مقصد معاشرے میں طبقاتیت پیدا کرنا ہے اور اس کی بنیاد سرمایہ پرستی ہے ۔ ایوانوں میں وہی لوگ ہی رسائی حاصل کرسکتے ہیں جو سرمایہ کی طاقت رکهتے ہیں چاہے وہ معاشرے کے مسائل سے کتنا ہی جاہل کیوں نہ ہوں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ایوانوں میں 98% طبقہ جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور وڈیروں پر مشتمل ہے جن کا غریب عوام کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ ظاہری بات ہے غربت کا مسئلہ وہی جانتا ہے جس نے غربت دیکهی ہو کسان کی ترقی کےلیے کسان کا نمائندہ ہی بہتر قوانین بناسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اس قسم کی سیاست سے محروم ہیں.
لیکن...
اب سمجهنا یہ ہے کہ اوپر جن مسائل کا ذکر ہوا وہ بذات خود مسائل نہیں ہیں بلکہ وہ ایک اصل مسئلہ کی وجہ سے پیدا ہو چکے ہیں اور وہ مسئلہ ہمارا مروجہ جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام ہے ان مسائل کے پیدا کرنے میں ہی اس نظام کی بقاء ہے ۔یہ نظام معاشی مساوات قائم نہیں کرسکتا کیونکہ اس سے وابستہ عنصر کی جاگیروں ،کثرت دولت، اور تعیشات کاسلسلہ قائم ہے۔ وہ یکساں تعلیمی سسٹم نہیں چاہتے جس کی بدولت عوام میں شعور بیدار ہوکر اپنے اصل مسائل کا ادراک پیدا کرکے ان کے اس استحصالی سسٹم کا خاتمہ کریں تاکہ حقیقی سیاست کا تعارف قائم ھو۔ عمومی خدمت کا ماحول بنے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سماجی بگاڑ میں بنیادی رول اس سرمایہ دارانہ اور جاگیردانہ نظام کا ہے لہذا سماج کی بہتری کےلیے سب سے ضروری امر اس سسٹم کے خاتمہ کا سامان پیدا کرنا ہے.