کچھوے اور خرگوش کی کہانی (نئے انداز سے)
کچھوے اور خرگوش کی اس کہانی کو نئے اور اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میں سیکھنے کے نئے انداز سامنے آتے ہیں۔
کچھوے اور خرگوش کی کہانی
تحریر: محمد مختار حسن
ایک دفعہ کا ذکر ہےکہ کچھوے اور خرگوش میں دوڑ کا مقابلہ ہوتا ہے۔ دوڑ کے آغاز میں ہی ہے خرگوش اپنی تیز رفتاری کی بنا پرکچھوے سے بہت آگے نکل جاتا ہے۔ مگر ہدف پر پہنچنے سے قبل خرگوش کو خیال آتا ہے کہ کچھوا تو ابھی بہت زیادہ پیچھے ہے ، اس لیے اسے کچھ دیر درخت کے سائے میں لیٹ کرسَستالینا چاہیے۔لہٰذا وہ آرام کرنے لیٹتا ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ کچھوا بغیر رکے آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ سوئے ہوئے خرگوش سے آگے نکل جاتا ہے اور پھر ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔ جب خرگوش کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ دوڑ کر ہدف تک پہنچتا ہے تودیکھتا ہے کہ کھچوا وہاں پہلے سے موجود ہے۔ اس طرح خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باوجود یہ دوڑ ہار جاتا ہے۔
سبق نمبر1 : خرگوش کی طرح انسان کو کبھی غیر ضروری طور پر خود اعتمادی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ،
سبق نمبر2 : کسی کے مزاج کے فرق کی وجہ سے اس کی صلاحیت کو کم ترنہیں سمجھنا چاہئے۔
سبق نمبر3 : مستقل مزاجی اور ہمت ایک بہت بڑ ی صفت ہےجوکامیابی کازینہ ہے، جس کا مظاہرہ کچھوے نے کیا۔
دوسری دفعہ کا ذکرہے کہ دوڑ ہارنے کے بعد خرگوش دوبارہ مقابلہ رکھتا ہے اور اس دفعہ بغیر رکے دوڑ تا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ ایک بڑ ے فرق سے کچھوے کو شکست دے دیتا ہے۔
سبق نمبر 4 :اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ مستقل مزاجی اور اپنے مقصد سے لگاوہوتو انسان اپنے مقصد میں کامیاب ہوتاہے۔
سبق نمبر5 : درست میدان کا انتخاب نہ کرنا بھی ناکامی کی بڑی وجہ ہوتی ہے۔(جیسے کچھوے نے کیا)
تیسری دفعہ کا ذکرہے۔کہ کچھوا شکست کے بعد بہت افسردہ ہوجاتا ہے۔ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ دوڑ کے میدان میں وہ کبھی خرگوش سے نہیں جیت سکتا، مگر وہ مایوس ہونے کے بجائے غور و فکر کرتا اور ایک ایسا میدان دریافت کرتا ہے جہاں اس کی فتح یقینی ہوتی ہے۔اس کے بعد دوبارہ مقابلہ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ پھر خرگوش اس عزم کے ساتھ بھاگتا ہے کہ وہ ہدف سے پہلے ہرگز نہیں رکے گا۔ مگر دوڑ تے دوڑ تے اچانک اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سامنے ایک دریا آ گیا ہے۔وہ پریشان ہوکر دریا کے کنارے کھڑ ا ہوجاتا ہے۔اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ دریا کیسے عبور کیا جائے۔بہت دیر گزر جاتی ہے اور آخر کار کچھوا آہستہ آہستہ وہاں پہنچتا ہے اور اطمینان کے ساتھ تیر کر دریا پار کر لیتا ہے اور پھرہدف تک پہنچ جاتا ہے۔ یوں خرگوش کو مستقل مزاجی اور اعلیٰ صلاحیت کے باوجود شکست ہوجاتی ہے۔
سبق نمبر 6 :انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ غور و فکر کی صلاحیت کو استعمال کر کے اپنے لئے ایسا میدان تلاش کرنا چاہئے جو اس کے حالات و ماحول اورمزاج کےموافق ہوتو زندگی کی دوڑ میں یہ بہت آگے نکل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نےانسان میں لازماً ایسی کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہےجس کو بروئے کار لاکروہ کامیاب ہوسکتا ہے۔
سبق نمبر7 : اعلی صلاحیت اور مستقل مزاج شخص بھی زندگی میں غلط میدان کا چناو کرکے ناکام ہوجاتا ہے۔
تاہم یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔چوتھی دفعہ کا ذکرہے کہ کچھوا اور خرگوش مل کر ہدف تک پہنچنے کا فیصلہ کرتے ہیں،خرگوش کچھوے کو اپنے اوپر اٹھا کر دوڑ تا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دریا کے کنارے جاپہنچتا ہے۔ یہاں سے کچھوا اسے اپنے اوپر بٹھا کر دریا پار کرادیتا ہے۔پھر خرگوش کچھوے کو اپنی کمر پر بٹھالیتا ہے اور دوڑ ناشروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ دونوں جلد ہی اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔
سبق نمبر 8 : بہت سارے لوگ جماعت بناکر مشکل ہدف کو آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں.
حدیث نبوی ﷺہے :یداللہ علی الجماعۃ (ترجمہ :اللہ تعالی کی مدد جماعت کے ساتھ ہے۔)
سبق نمبر 9 :زندگی کی کامیابی کسی پرفتح حاصل کرنے کا نام نہیں اس لئے مل کرکام کرنا چاہئے۔
سبق نمبر10 : اتفاق واتحاد کے ساتھ مل کر زندگی کے اہداف کوحاصل کرنا، کامیابی حاصل کرنے کا سب سے اعلی راستہ ہے۔
اللہ تعالٰی کاارشاد ہے:وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلا تَفَرَّقُوا
ترجمہ: اور تم سب مل کراللہ تعالٰی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقوں میں مت بھٹو
سبق نمبر 11 : علم بہت زیادہ پڑھنے کا نام نہیں بلکہ حالات وواقعات پر غوروتدبر کرتے ہوئے عقل بڑھانے کا نام ہے۔