انبیاء کرام کے معجزات اور سماجی زندگی پر ان کے اثرات
انسانی معاشرے میں تمام معاملات کو عقلی پیمانے پر پرکھنے اور ان میں بہتری لانے کہ لیے انبیاء کہ معجزات دراصل انسانوں کی تربیت کا ایک ذریعہ قرار پائے
انبیاء کرام کے معجزات اور سماجی زندگی پر انکے اثرات۔
عابد درانی ۔ بہاول پور
دنیا میں انسانی معاشروں کی اجتماعی ترقی کے لئے اﷲتعالیٰ ﷻ نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے۔ہر نبیؑ کو اپنی اپنی قوم کی طرف ا ﷲتعالیٰ کا ایک خاص پیغام دے کر بھیجا گیا۔وہ پیغام، اُس قوم کے سرمایہ پرست طبقات کے لئے سوہانِ روح اور عام انسانوں کے لئے نجات اور خوشحالی کا باعث ہوتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ عام آدمی فوراً اس نبوی دعوت کی طرف لبیک کہتا اور سرمایہ پرستانہ مزاج کے حامل طبقات مداخلت اور مزاحمت کے اصول پر عمل پیرا ہو جاتے۔
ہر نبی کو اپنے منطقی پیغام کے انسانوں تک ابلاغ کے لئے مختلف صلاحیتیں دی جاتی تھیں ان میں سے کچھ عام فہم اور کچھ ہماری عقل سے ماورا صلاحیتیں ہوا کرتی تھیں۔
مثلا سیدنا آدم علیہ السلام کی زبان سے تمام اشیاء کہ نام کہلوانا دراصل فرشتوں کے لیے مسکِت (چپ کرانے والا) جواب تھا۔اسی طرح خود آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارعب شخصیت ،ان کے دلائل کی پختگی اورایک عظیم الشان درجے کے باوجود،عاجزی اور حلم کی خصوصیات،عدل و انصاف سے آپ کی والہانہ وابستگی اورشدید ترین مخالفت و مزاحمت کے باوجود دعا دینے کا مزاج ہی تھا کہ جس نے ایک طرف تو مکہ کے لوگوں کو اپنی پرشکوہ شخصیت کے اثر میں مبتلا کر رکھا تھا وہیں سرمایہ دار طبقات ان کی ذات شریفہ سے سخت بے چینی اور خطرہ محسوس کر رہے تھے۔
یہ تو وہ خصوصیات ہیں کہ جو عام انسانی عقل کے دائرہ میں آتی ہیں ، اور ہر باشعور انسان کی سمجھ میں آ جاتی ہیں اور کچھ مشق اور ریاضت کہ بعد انسانی طبیعت کا حصہ بھی بنائی جا سکتی ہیں۔مگر ایک درجہ انبیاء کا وہ بھی ہے کہ جو (Super Natural) یا عام انسانوں کی عقل سےماورا ہے۔یہی صفات اور کچھ خاص صلاحیتیں تمام انبیاء کو ودیعت کی گئیں (حتیٰ کہ انبیاء کہ بعد سلف صالحین، اولیاء اﷲ اور علماء ربانییں کے ہاں بھی ان معاملات کا ذکر ملتا ہے)
مثلا موسیٰ علیہ السلام کے عصاء کا ایک مہیب اژدہا کا روپ دھار لینا۔وہ اپنا ہاتھ بغل میں ڈال کر نکالیں تو چاند کی مانند چمکتا
یونس علیہ السلام کو ایک مچھلی اپنے پیٹ میں جگہ دینا اور پھر اﷲ ﷻ کہ حکم سے زندہ اگل دینا۔
عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا، مادرزاد اندھوں کو بینا کر دینا،کوڑھیوں کو شِفا دلوانا۔
آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چاند کو ٹکڑے کر دینا،لعاب دہن سے کھارے پانی کے کنویں کو میٹھا کر دینا،کم کھانے سے نبی اکرم کی برکت سے سینکڑوں لوگوں کی بھوک کا بندوبست ہو جانا ایک معجزہ ہی ہے۔
غور کریں تو معلوم ہو گا کہ دوسرے مذاہب اور بالخصوص ہندومت کہ جن کے ساتھ برعظیم پاک و ہند کے مسلمان صدیوں سے اکٹھے رہتے آ رہے ہیں ان کے ہاں بھی ایسے امور کا تذکرہ کثرت سے کیا جاتا ہے۔
دیکھنا ہو گا کہ معجزات انسانی ذہنوں پر کیا اثر ڈالتے ہیں۔
انسانی اجتماع میں ایک طبقہ ایسے معجزات سے حد درجہ متاثر ہوتا ہے چنانچہ نبی کی دیگر تمام دعوتی ، نظریاتی تفہیم سے زیادہ ان لوگوں کو معجزات دین کی قبولیت کی جانب آمادہ کرتے ہیں۔ مگر ایسے افراد بھی مل جاتے ہیں کہ جو انسانی ترقی کہ راہ میں حائل رکاوٹوں کا ادراک رکھتے ہیں اور ایسے میں جب بھی کوئی اﷲتعالیٰ کا نبی اس معاشرے میں دعوت کا آغاز کرتا ہے تو یہ افراد نبوی جماعت کا ہراول دستہ بنے نظر آتے ہیں۔
معجزات یقیناً ان کی نظریاتی پختگی کو مہمیز کرتے ہیں مگر محض یہی صلاحیت ان کی جدوجہد کا باعث نہیں ہوتیں۔
درحقیقت انبیاء کے معجزات تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد کے لیے چنگاری کی سی حیثیت رکھتے ہیں کہ جو ان "ماورا العقل" معجزات کو حقیقی زندگی میں پا لینے کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔
چنانچہ آج کوڑھی کا علاج دریافت ہو چکا ہے،نابینا کا بہتر علاج ممکن ہے،انسان آسمانوں میں اڑنے کہ بعد خلاوں کو تسخیر کرتا نظر آ رہا ہے،یونس علیہ السلام کو مچھلی نے جب نگلا تو انسانوں کو آبدوز کا ایک خاکہ مل گیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، جب جابر رضی اللہ عنہ کہ ہاں مختصر کھانا ہونے کہ باوجود سینکڑوں کا پیٹ بھرنے کا معجزہ دکھاتے ہیں تو انسان نے اس سے اجتماعیت کی برکات کا درس لیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان معجزات کے مسلسل تذکرے سے انبیاء سے انسیت پیدا ہوتی ہے اور ان کا رعب بڑھتا ہے مگر لمحہ بہ لمحہ اس بدلتی دنیا میں ان معجزات اور انسانی تخلیقی کاوشوں سے بیماریوں کا علاج اور ترقی کے لئے بنیادی راہنمائی میسر ہوگی۔ اور بہتر انسانی زندگی، سماج کو بہتر بنانا انبیاء کی دعوت کے بغیر کماحقہ حاصل کرنا ممکن نہ ہوگا۔
دنیا کی ترقی کا ہر علم انہیں بنیادوں سے جڑا ہوا ہے جس کی الف ب ہمیں انبیاء کرام نے سیکھائی تھی۔
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون