سماجی تبدیلی کا درست مفہوم - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی تبدیلی کا درست مفہوم

    سماجی تبدیلی کے حقیقی مفہوم کا مختصرا اصولی طور پر جائزہ لیا گیا ہے

    By جنید احمد شاہ Published on Sep 28, 2019 Views 7152
    سماجی تبدیلی کا درست مفہوم
    تحریر : جنید احمد شاہ ، راولپنڈی  

    سماجی تبدیلی ایک مکمل سائنسی عمل ہے جس کے اصول و ضوابط اور دیگر جزئیات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں حکومتی تبدیلی ، نئے چہروں کے انتخاب ، نظام الیکشن  مصنوعی رونقوں اور نعرہ بازی کو سماجی تبدیلی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ہمارا میڈیا بھی انہی خطوط پر اس سارے عمل کو بھرپور کوریج دیتا ہے۔ ایسے ماحول میں ایک حقیقی اور درست سماجی تبدیلی کا مفہوم کیا ہے اس کا فہم و شعور حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔۔
    کسی بھی سماجی تبدیلی کے بنیادی طور پر تین دائرے ہیں۔۔ 
    1۔ فکر و نظریہ 
    2۔ سیاست 
    3۔ معیشت 

    1۔فکرونظریہ 
    أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأمْرُ (القرآن، الاعراف ، 54)
    ترجمہ :(سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا)
    دنیا میں جب بھی کسی نظام مملکت کی تشکیل ہوگی تو وہ کسی خاص فکر پر ہوگی۔ کسی نظریہ کے بغیر کسی بھی نظام کی عمارت درست بنیادوں پر قائم نہیں کی جا سکتی۔۔۔سماجی تشکیل کا بنیادی مغز ریاستی اداروں کے پیچھے وہ نظریہ ہوتا ہے جس کے تمام ادارے پابند ہوتے ہیں اور اسی سوچ کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔
    دین اسلام اپنی فکر میں وحدت انسانیت اور عدل و انصاف کے قیام کا قائل ہے۔ کائنات میں جب ہر چیز کا خالق اللہ تعالی کی ذات ہے تو حکم بھی پھر اسی کا چلے گا۔۔  اس لیئے ایک اسلامی ریاست بالکل واضح اور دو ٹوک نظریات کی پابند ہے ۔ قرآن کا ارشاد ہے :
    الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ۔
    ترجمہ :(وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو قدرت دیں ملک میں تو وہ قائم رکھیں نماز اور دیں زکوٰۃ اور حکم کریں بھلے کام کا اور منع کریں برائی سے اور اللہ کے اختیار میں ہے آخر ہر کام۔) الحج ، :41:22:
    فکر میں عدل یہ ہے کہ آپ تمام انسانوں کے لیئے اپنی سوچ میں وسعت پیدا کریں، بلا تفریق سب کے حقوق کی فراہمی کا نظریہ اپنائیں اور بغیر کسی مذہبی ، قومی اور ملی تعصب کے سب انسانوں کو اللہ کا کنبہ سمجھتے ہوئے ان کے لیئے خدمت انسانیت کا جذبہ رکھیں۔اس کی ضد گروہیت اور فرقہ واریت ہے۔۔جس کی ہمارے مذہب میں قطعا  کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمانوں کے دور عروج میں کبھی بھی فرقوں کے مکمل خاتمے پر زور نہیں دیا گیا ، دین اسلام کی جنگ ہمیشہ قوتوں کے خلاف رہی ہے ، عقائد کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ کے لیئے ہمیشہ دعوت کا میدان چنا گیا ۔ سوچنے کی آزادی سب کو دی گئی ہے لیکن فرقوں کی بنیاد پر تفریق، تقسیم ، تشدد، تنگ نظری ،دشنام طرازی اور منافرت پھیلانے کی اجازت کبھی نہیں دی گئی۔۔ اگر کسی ملک کی مقتدرہ اور نظام چلانے والی طاقت فرقہ وارانہ بنیادوں پر پروٹوکول اور سہولیات دینے کی قائل ہے تو اس کے خلاف عملی جدوجہد کرنا لازمی اور ضروری ہے۔
    ارشاد باری تعالی ہے : 
    وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ.
    ترجمہ :’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘
     آل عمران، 3 : 103

    2۔سیاست 
    ولْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
    ترجمہ :(اور چاہیئے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم کرتی رہے اچھے کاموں کا اور منع کریں برائی سے اور وہی لوگ ہیں جو پہنچے اپنی مراد کو. )آل عمران، 3 : 104

    دین اسلام اپنے سیاسی نظام میں جمہوریت کا قائل ہے اور آمریت کی نفی کرتا ہے۔۔ اقتدار اعلی کا مالک اللہ تعالی کی ذات ہے اور انسان بطور خلیفہ اس کرہ ارض پر خدا کا نائب اور خلیفہ ہے۔قرآن حکیم کی اس آیت مبارکہ میں واضح طور پر سیاسی نظام کے قیام کے ذریعے ظلم اور برائی کے خاتمہ کا حکم دیا گیا ہے اور نیکی اور عدل قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔تمام انبیاء علیھم السلام کی آمد کے مقصد کو بھی آپ ص  نے یوں ارشاد فرمایا ہے !
    نبی اکرم ص کا ارشاد گرامی ہے :
    : كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبيٌّ، وَإنَّهُ لا نَبِيَّ بَعدي، وسَيَكُونُ بَعدي خُلَفَاءُ فَيَكثُرُونَ،
    ترجمہ :( بنو اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے ، جب بھی ان کا کوئی نبی ہلاک ہو جاتا تو دوسرے ان کی جگہ آ موجود ہوتے، لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں میرے نائب ہوں گے اور بہت ہوں گے۔)
    سیاسی نظام کا بنیادی کام بلا تفریق رنگ ، نسل اور مذہب ساری رعایا اور کل انسانیت کیلئے امن و امان کی فراہمی ہے۔ انسانی جان، مال اور عزت و حرمت کی حفاظت کرنا اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔۔
    امن درست سیاسی نظام کی بنیادی شرط ہے۔۔۔ تمام سیاسی ادارے بشمول انتظامیہ کسی ملک میں سماجی تشکیل کے تناظر میں امن و امان کی فراہمی اور قانون پر عملدرآمد کے پابند ہوتے ہیں۔۔ اور اگر کسی ملک میں بحثیت مجموعی خوف کی کیفیت طاری ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاسی نظام اپنی بنیادی ذمہ داریاں درست خطوط پر سرانجام دینے سے قاصر ہے اور اسے تبدیل ہونا چاہیئے۔

    3۔معیشت !
    ضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّـةً يَّاْتِيْـهَا رِزْقُـهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَـفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّـٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّـٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُـوْا يَصْنَعُوْنَ 
    ترجمہ :( اللہ ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جہاں ہر طرح کا امن چین تھا اس کی روزی با فراغت ہر جگہ سے چلی آتی تھی پھر اللہ کے احسانوں کی ناشکری کی پھر اللہ نے ان کے برے کاموں کے سبب سے جو وہ کیا کرتے تھے یہ مزہ چکھایا کہ ان پر فاقہ اور خوف چھا گیا۔)
    النحل، 16 : 112
    اس آیت مبارکہ میں ایک مثالی معاشرے کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن حکیم نے اسے امن و امان کے ساتھ ساتھ  رزق کی فراوانی اور خوشحالی سے بھی تعبیر کیا ہے۔معیشت یا معاشی نظام کی بنیادی ذمہ داری انسانی احتیاجات اور بنیادی ضروریات کی بروقت فراہمی ہے۔ ہر انسان کے لیئے روٹی ، کپڑا ، مکان، تعلیم ، روزگار اور صحت کی بروقت فراہمی درست معاشی نظام کی علامت ہے۔ایک خوشحال قوم کا وجود بغیر کسی معاشی نظام کے ناممکن ہے۔
    دین اسلام اپنے معاشی نظام میں عدل کے اصول پر مساوات کا قائل ہے۔ ہر انسان کی مساویانہ بنیادوں پر اس کی بنیادی ضروریات پوری ہونی چاہیئں۔ اس کی ضد طبقاتیت ہے۔۔ اگر وسائل معیشت پر کسی خاص گروہ کا قبضہ ہے اور باقی ساری رعایا بھوک ، ننگ و افلاس ، مہنگائی اور بیروزگاری کا شکار ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشی نظام درست کام نہیں کر رہا ہے ، وہ ایک خاص طبقے کے مفادات کا محافظ ہے۔۔ اور ایسے معاشی نظام کوتبدیل ہونا چاہیئے۔۔
    کسی بھی درست سماجی تبدیلی کے یہ وہ بنیادی تین دائرے ہیں جنکا درست فہم و شعور حاصل کیئے بغیر ایک بہترین نظام مملکت کا حصول ناممکن ہے۔۔
    برعظیم پاک وہند کی ایک عظیم انقلابی شخصیت حضرت الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح (1762-1703) نے اپنی دور کی فکری خرابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اہل علم حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا !
    " اے بیوقوف اور نادان لوگو! تم نے اپنا نام "علماء" رکھ لیا ہے۔ تم یونانی علوم، صرف و نحو (عربی گرائمر) اور علم معانی ( فصاحت و بلاغت) میں مشغول ہو، اور سمجھتے ہو بس یہی علم ہے۔ حقیقت میں علم، اللہ تعالی کی کتاب کی محکم آیات کا نام ہے، یا رسول اللہ ص کی قائم کردہ سنت کا نام ہے ، یا عدل و انصاف کے قائم کرنے کا فریضہ ہے کہ تم اس کی تعلیم حاصل کرو۔)   التفہیمات الہیہ
    اس طرح آپ  نے سیاسی نظام کی بنیادی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا !
    " منتظم شہر کو چاہیئے وہ اپنی عوام کے سب افراد سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرے اور ان کے حق میں وہی بات پسند کرے جو وہ اپنے لیئے کرتا ہے، بہرحال وہ پورے معاشرے کی مصلحت اور ان کے حق میں شفقت و محبت کو مقدم رکھے۔
    (البدروبازغہ عربی ص: 103، مترجم اردو ص:183)۔

    معاشی نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ   نے فرمایا !
    "وہ شاہانہ نظام ذندگی جس سے چند اشخاص یا چند خاندانوں کی عیش و عشرت کے سبب دولت کی صحیح تقسیم میں خلل واقع ہو، اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو جلد از جلد ختم کر کے عوام کو اس مصیبت سے نجات دلائی جائے اور ان کو مساویانہ نظام زندگی کا موقع دیا جائے"
    (حجتہ اللہ البالغہ ، باب سیاست مدینہ)
    ان افکار و تعلیمات کی روشنی میں بطور نوجوان ہماری آج سب سے بنیادی قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے ملک کے فکری ، سیاسی اور معاشی نظام کا تفصیلی علمی و تحقیقی جائزہ لیں اور ان سوالات پر غور کر کے اپنی راہ عمل کا قرآن و سنت کی روشنی میں درست تعین کریں!

    1۔ کیا ہمارے ملک کا فکری نظام عدل و انصاف اور وحدت انسانیت کے نظریے پر کاربند ہے یا پھر گروہیت اور فرقہ واریت کو پروموٹ کرتا ہے ؟؟؟
    2۔ کیا ہمارے ملک کا سیاسی نظام امن و امان کا ضامن اور جمہوری روایات کا پابند ہے یا پھر ظلم و بربریت ، خوف اور آمرانہ طرز حکمرانی کا نمائندہ ہے؟؟
    3۔ کیا ہمارے ملک کا معاشی نظام مساوات اور خوشحال معاشرے کی علامت ہے یا پھر بھوک و افلاس ، معاشی تنگ دستی ، بیروزگاری اور مہنگائی جیسے گھمبیر مسائل کی پیداوار ہے؟
    جب تک ہم ان سوالات اور ان کے درست جوابات پر غور نہیں کرتے اس وقت تک ہم سماجی تبدیلی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے. 
    Share via Whatsapp