عدل و انصاف اور ہمارا معاشرہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عدل و انصاف اور ہمارا معاشرہ

    عدل و انصاف کسی بھی معاشرے میں اعتدال رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہے عدل و انصاف سے ہی کی معاشرے سے ظلم و ستم کو مٹایا جا سکتا ہے

    By Ishfaq Mushtaq Published on Aug 20, 2020 Views 5152
    عدل و انصاف اور ہمارا معاشرہ 
    تحریر : اشفاق مشتاق. لاہور 

    عدل دراصل کسی شے کو اس کے محل اور مناسبت والی جگہ پر رکھنے کو کہتے ہیں۔اس کہ برعکس ظلم کسی شے کا اس کے برمحل جگہ سے ہٹا ہوا ہونا ہے۔
    عدل و انصاف کسی بھی انسانی معاشرے کی بقا کے لیے ایسے  ہی ضروری ہے جیسے جسم میں خون - اگر جسم میں خون نہ ہو تو وہ سواۓ ایک گوشت کے ڈھیر کے کچھ نہیں۔ کچھ ایسی ہی مثال انصاف سے عاری معاشرے کی بھی ہے -  اس معاشرے میں پھر جنگل کا نظام ہی نظر آتا ہے " گویا جس کی لاٹھی اس کی بھینس" ، جس طرح طاقت ور جانور کمزور جانور کو اپنی خوراک بنالیتے ہیں ایسے ہی انصاف سے عاری انسانی معاشرے میں طاقت ور دوسروں کا حق چھیننے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے-
    دیکھنا ہوگا کہ کیا ہمارا درخشاں ماضی بھی ایسی ہی روایت رکھتا ہے؟ ہم تاریخ ِ اسلام پر جب بھی نگاہ دوڑائیں تو ایک منظر نگاہوں میں گھوم  جاتا ہے کہ جس میں قاضی کی عدالت لگی ہے اور وقت کا خلیفہ ایک عیسائی کے مقابلے میں اپنی زرہ کامقدمہ ہار جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خلیفہ اسے اپنی شان میں گستاخی نہیں سمجھتا اور فیصلے کو من وعن تسلیم کر لیتا ہے-
    مگر جب آج کے مسلم معاشرے بالخصوص پاکستان کی عدالتوں پر نظر ڈالیں تو منظر مختلف ہوتا ہے۔طرفہ تماشا یہ  کہ یہ وہ ملک ہے جو نظریہ اسلام پر معرضِ وجود میں آیا مگر پھر وہ نظریہ شاید نظریہِ ضرورت اور آئین کی بڑی بڑی کتابوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو  کر رہ گیا-
    ہمارا پیارا وطن جو معرضِ وجود تو کلمہ حق اور اسلام کے نام پر آیا تھا جس میں اسلامی تعلیمات کے مطابق عدل و انصاف کا نظام رائج ہونا تھا وہ نظام جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالٰی خود قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
     " اور اگر تم ان (فریقین) کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو , بے شک اللہ تعالٰی انصاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے "(سورۃالمائدہ:42)
    یہی  دین اسلام  عدل و انصاف کی تعلیمات  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی زندگی کی کئی مثالوں سے ثابت کرتا ہے۔ آپ نے خود بھی عدل و انصاف کیا اور اپنے رفقاء کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ اس لیے اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ خلفاۓ راشدین, صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین, اولیاء کرام سب نے اپنے اپنے دور میں عدل و انصاف کا پرچار کیا ، عدل اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ہزاروں سال حکمرانی کی۔ مگر آج کی صورت حال کا بغور مشاہدہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم ان تعلیمات کو بھلاچکے ہیں اور ہمارے معاشرے میں ظلم و جبر اور ناانصافی کا بازار گرم ہے - نام نہاد نظامِ عدل تو ہے مگر درحقیقت وہ نظام عدالت صرف کچہریوں کا ہے کہ جس کے ذریعے سرمایہ دار تو صاف بچ نکلتا ہے مگر  اس سے عام انسان کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا -
    جس معاشرہ میں عدل و انصاف کا نظام ظلم و ستم کا حامی ہو اس معاشرہ کی تباہ و بربادی مقدر بن جاتی ہے۔ تاریخ میں ایسی بہت سی قومیں صرف غیرمنصفانہ نظام کی وجہ سے برباد ہوئیں۔ جیسا کہ بنی اسرائیل، جن کا نظام عدالت کمزورں کو تو تختہ دار پہ لٹکا دیتا تھا مگر طاقت ور کہ سامنے گھٹنے ٹیک دیتا تھا۔اگر موازنہ کیا جاۓ تو ہمارے نظام عدل کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے جو کہ انصاف کی منصفانہ تقسیم سے عاری ہے جس کا اظہار ہمارے سابقہ اور موجودہ چیف جسٹس صاحبان اپنے بیانات میں کر چکے ہیں -
    ہماری عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں کیسز زیرِ التوا ہیں معاشرہ میں تاخیری انصاف دراصل انصاف سے روگردانی کے مترادف ہے -
    عدالتوں میں غریب انسان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں کیونکہ یہ صرف گواہوں اور ثبوت پہ انحصار کرتی ہیں اور گواہ ہمیں چند پیسوں کے عوض عدالتوں کے باہر سے ہی مل جاتے ہیں اس پہ ایک شاعر نے کیا خوب لکھا..
    بے گناہ تو ہونے سے کچھ نہیں ہوگا
    ثبوت دیجیے رونے سے تو کچھ نہیں ہو گا 
     آج ہمیں سوچنا ہے کہ  
    1) کیا ہمارا نظامِ عدل حقیقی معنوں میں انصاف کی فراہمی کر پارہا ہے؟
    2) کیا ایک عام انسان کو بآسانی انصاف مل رہا ہے؟
    3)ہمارا نظامِ عدالت، طاقت ور اور کمزورں کےلیے الگ الگ ہے ؟
    4)کیا ہماری عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو پورا کر پا رہی ہیں ؟
    5)کیا دولت مند اور زمیندار اس نظام کے سامنے جوابدہ ہیں ؟
    بصدافسوس کہ ہمارا نظام حقیقی معنوں میں انصاف کی فراہمی سے قاصر ہے۔
     ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس نظام عدل کو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتاۓ ہوۓ طریقہ پر رائج کریں جس میں امیر و غریب, شاہ و گدا, مال دار فقیر, رعایا و حکمران سب برابر ہوتے ہیں کوئی بھی قوانین سے بالاتر نہیں ہوتا، تب ہی حقیقی معنوں میں ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کر پاۓ گا۔ کیونکہ بہتٌر سالوں سے ہم جس ترقی کی جانب جانے کے لیے کوشاں ہیں وہ اس مروجہ نظامِ عدل سے ممکن نہیں-
     ہمارا نظام عدل موجودہ نظام ظلم کا ہی ایک شعبہ ہے اور جب تک ملکی نظام نہیں بدلے گا اس وقت تک نظام عدل کو مرہم پٹی کر کے گزارا کرنے کےلائق بنانے جیسی کوششوں سے کچھ نہیں ہوگا۔
    ہونا تو یہ چاہیے کہ  جتنے بھی زیرِالتوا کیسز ہیں ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جاۓ۔اور خاص طور پر جن کیسز  کی پیروی کے لیے غریب لوگ وکیل کرنے اور اس کیس کو لڑنے کی استعداد نہیں رکھتے اس کے لیے ریاست کو آگے بڑھ کر ان کی داد رسی کرنی چاہیے۔ بروقت انصاف کو یقینی بنایا جاۓ تاکہ معاشرہ سے ناانصافی کا خاتمہ ہو سکے مگر فی الوقت ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
    آج ایسے اندھیرے معاشرے میں ہمیں شعور کی شمع جلانی ہے 
    اس شمع کو اس کے حقدار تک پہنچانا ہےنظام ظلم کے خلاف ایک صالح اجتماعیت کے قیام سے پیشتر ایک جنت نظیر معاشرے کا قیام ایک خواب کے علاوہ کچھ نہیں-
    Share via Whatsapp