بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ دیہاڑی دار مزدور ہے، چھابڑی والے سے لےکر اینٹ پتھر اٹھانے والےتک، روزانہ کی بنیاد پر کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا۔۔۔۔۔
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
تحریر: ساحر ضیاء، چشتیاں
موجودہ حالات و واقعات سے تو ہم بخوبی با خبر ہیں. کہ جہاں ایک طرف کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری نے نا صرف ملکِ پاکستان بلکہ پوری دنیا کو اپنے خوف میں جکڑا ہوا ہے. وہاں دوسری طرف لاک ڈاؤن کی وجہ سے قومی و عالمی معیشت بھی لڑکھڑا رہی ہے.
سوشل اور الیکٹرانک میڈیا، سیاست دان، ایکٹرز اور تعلیم یافتہ طبقہ , سب کے سب, عوام سے کرونا وائرس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں لیکن عوام ہے کہ ان کی بات نہیں سن رہے. اب تو یہاں تک سننے میں آرہا ہے کہ لوگ خود مرنا چاہتے ہیں . ان میں سمجھ ہی نہیں ہے. اگر انہیں اپنا خیال نہیں ہے تو کم از کم اپنے بچوں کا ہی خیال کر لیں، گھروں میں سکون سے کیوں نہیں بیٹھتے ؟.اس طرح کی اور کئی باتیں زبان زد عام ہیں.
لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے کہ لوگ لاک ڈاؤن کے باوجود گھروں میں نہیں بیٹھ رہے؟ پولیس کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہورہے ہیں اور مظالم برداشت کر رہے ہیں. لیکن پھر بھی قابو میں نہیں آرہے ہیں. کیوں؟
یہ صرف اس لیے کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انتہائی غربت کی وجہ سے بھوک، بدحالی اور بےروزگاری اپنے عروج پر ہے ۔
اور مشہور ہے کہ:
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے..
کہتے ہیں کہ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ بھوکے آدمی کا کوئی مقام.
ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ دیہاڑی دار مزدور ہے، چھابڑی والے سے لےکر اینٹ پتھر اٹھانے والےتک، روزانہ کی بنیاد پر کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا ایک کثیر طبقہ ہے. اگر وہ گھر بیٹھ گیا تو ان کے بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں گے اسی لیے وہ اس خوف ناک مبینہ خوفناک وائرس اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کو سمجھنے کے بجائے بھوک سے پھیلنے والی ہلاکت انگیز بیماری کا سوچ رہا ہے.
ہاں ! آج اگر قوم جاہل ہے تو اس کی بڑی وجہ ہمارے حکمران اور ان کا قائم کردہ سسٹم ہے.
جس میں تمام سہولیات تو در کنار70 سالوں سےعوام کو روٹی، کپڑا، مکان جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ... اور بنیادی تعلیم سے بھی دور رکھا گیا ہے.
آج ہمیں جس چائنا کی مثالیں دی جا رہی ہیں ان کی معیشت اور سسٹم اپنی مثال آپ ہے.. وہاں غربت کی شرح کم سے کم اور تعلیم کی شرح زیادہ سے زیادہ ہے. جس کی وجہ سے قوم میں شعور ہے. جس نے اس خطرناک بیماری سے یک جان ہو کر لڑائی لڑی اور اپنی ایک مضبوط قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے.
حقیقت یہ ہے کہ جب غربت بڑھتی ہے تو با شعور افراد سے بھی شعور چھن جاتا ہے اور وہ ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد بیچ دیتا ہے..
یہ غربت کی وجہ سے پیدا ہونے والی بد تہذیبی کا ہی نتیجہ ہے کہ لوگ ہر پریشانی کے موقع پر انسانیت کا خیال کیے بغیر اپنی جھولیاں بھرنا شروع کر دیتے ہیں.. رمضان المبارک کے آنے پر جہاں غیر مسلم اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرتے ہیں وہاں ہم اس مقدس ماہ کے آنے سے پہلے ہی عوام کو لوٹنے کی تیاری کر چکے ہوتے ہیں ..
کورونا وائرس نے ابھی پاکستان کا رخ بھی نہیں کیا تھا کہ سرمایہ پرست ذخیرہ اندوز متحرک ہو چکے تھے کہ اب ہمارا سیزن آنے والا ہے... اس وقت قوم کا سر شرم سے جھک گیا جب اس نے یہ سنا کہ سندھ رینجرز نے 70 ہزار سے زائد جمع کیے گئے فیس ماسک برآمد کرکے ایک شخص کو گرفتار کرلیا ہے...
پچھلے کچھ دنوں میں وہ مسلمان بھی دیکھے گئے جو ماسک،سینی ٹائزرز ،چینی،آٹا اور گھی تہہ خانوں میں چھپا کر چھتوں پر اذانیں دے رہے تھے..!!
یہ تربیت کا فقدان ہی ہے جو ہم حقوق اللّٰہ کے چکر میں حقوق العباد کی دھجیاں اڑا رہے ہیں...
پچھلے 72 سالوں میں اگر ہمارے حکمرانوں نے مکمل عادلانہ نظام قائم کرنے کی یقینی کوشش کی ہوتی تو آج شعوری تعلیمی نظام کے ذریعے قومی سوچ پیدا ہوتی اور غربت کے خاتمے کےلیے اقدامات کیے گئے ہوتے اور قوم میں وہ صلاحیت ہوتی کہ وہ اس طرح کی آزمائشوں اور پریشانیوں سے پریکٹیکلی لڑتی وہ صرف صرف دعاؤں پہ انحصار نہ کرتی.. اور ہمیں آج اس کورونا کی کیفیت میں بار بار عوام سے اپیلیں نہیں کرنا پڑتیں..
بحیثیت انسان آج ہمیں اس کرونا سے لڑنے کےلیے پہلے اپنے اندر کے کورونا کو مارنا ہو گا...
اس کے لیے ہم سب کو، حکومت کو اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ ان تمام لوگوں کا خیال کریں جو ان بدترین حالات میں اپنی فیملی کی بھوک وائرس کی وجہ سے مجبوراً موت کے منہ میں کود کر جانے اور باہر نکلنے پر مجبور ہیں