حُب الوطنی کے تقاضے
وطن سے محبت انسان کا ِفطری تقاضا ہے۔اس محبت کے تقاضے کیا ہیں اور وہ کیسے ادا کئے جاسکتے ہیں۔ یہ جاننا آج ہر نوجوان کے لئے اشد ضروری ہے۔
حُب الوطنی کے تقاضے
تحریر: محمدعثمان-فیصل آباد
وطن سے محبت انسان کا ِفطری تقاضا ہے۔ انسان جس خطہء زمین میں آنکھ کھولتا ہے اور پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک زندگی گزارتا ہے، وہ خطہ انسان کی تمام جسمانی، علمی اور روحانی ضروریات پوری کرتا ہے جن میں خوراک، لباس، رہائش، صحت، تعلیم، روزگاراور سب سے بڑھ کر دنیا میں ایک شناخت اور شہری حقوق شامل ہیں۔ انسان کےعزیز و اقارب جن کے ساتھ اُس کی خوشیاں اور غم جڑے ہوتے ہیں، بھی اُسی زمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِن سب احسانات کے بعد بھی اگر انسان میں اپنےوطن سے محبت پیدا نہ ہوتو اس پر تعجب ہی کیا جاسکتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں تو دھرتی کو” ماتا “یعنی ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اپنا وطن چاہے جیسا بھی ہو، انسان کو اُسی سے اپنائیت اور اُنس کا احساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن کی محبت کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرمارہے تھے تو آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’ اے مکہ! تو کتنا پیارا ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا (ترمذی) ۔ ‘‘ ایک اور مقام پرآپ ﷺ نےاپنی امت کو سفر ختم ہونے کے بعد جلدی گھروالوں کی طرف لوٹنے کی تعلیم دی ہے۔ سیرت نبوی ﷺ کے حوالے سے یہ امر قابلِ غور ہے کہ مکہ میں ہر طرح کی ایذا رسانی اور مصائب کے باوجود آپ ﷺ نے وہاں رہ کر ہی سماجی تبدیلی کی جدوجہد کی۔ آپ ﷺ نے باَمرِ مجبوری مدینہ منورہ ہجرت فرمائی لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے اپنے آبائی وطن کو فراموش نہ کیا اورجماعتِ صحابہ کے ساتھ مل کر ایسے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں مکہ سے ظلم،جبر، استحصال اور تذلیل انسانیت کی جملہ صورتوں کا خاتمہ ممکن ہوا۔
وطن سے اِسی محبت کا تقاضا ہے کہ انسان دوسرے ممالک کے مقابلےمیں اپنے وطن کو کامیاب و کامران دیکھنا چاہتا ہے۔ اِس کا سادہ اور عام اظہار کھیلوں کے مقابلوں کے موقع پر دیکھنے میں آتا ہے جہاں ہر ملک کے شہری اپنے اپنے وطن کی کامیابی کے لیے پرجوش اور دعا گو ہوتے ہیں۔ کھیلوں کے یہ مقابلے جب دو مخالف ممالک کے درمیان منعقد ہوتے ہیں تو جوش و جذبہ کی کیفیات اپنے عروج پر پہنچی ہوتی ہیں ۔ اس کی واضح ترین مثال پاکستان اور انڈیا کے مابین ہونے والے کرکٹ میچز ميں دیکھی جاسکتی ہے۔ میچ سے کچھ دن پہلےہی عوام میں جوش اور بے چینی کے جذبات پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اِن جذبات کو ابھارنے میں کارپوریٹ میڈیا (جس کا واحد مقصد اشتہارات کے ذریعے پیسہ کمانا ہوتا ہے. اُسے عوام کی اخلاقی تربیت اور خیرخواہی سے کوئی غرض نہیں ہوتا) خوفناک حد تک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی مشروب بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنی دونوں ملکوں میں بیک وقت اشتہار بنا کر ہر ملک میں مصنوعی جوش اور احساسِ تفاخر پیدا کررہی ہوتی ہے۔
اِن میچزکے دوران الیکٹرانک اورسوشل میڈیا پر بھی جنگ کی سی کیفیت رہتی ہے۔میچ جیتنے والے ملک میں جشن کا سَماں ہوتا ہے اور خوشی کے اظہار کے لیے اِخلاقی اور غیر اِخلاقی دونوں طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ہارنے والے غم و غصے میں آپے سے باہر ہوکر ٹی وی سیٹ توڑکر اور گالم گلوچ کرکے اپنے غصے کا اظہارکرتے ہیں۔
کھیلوں کے اِن مقابلوں کے بارےمیں ایک رائےیہ بھی ہے کہ حکمران طبقات اِن مقابلوں کی سرپرستی اِس لیے کرتے ہیں تاکہ عوام کو بے مقصدتماشوں میں الجھا کر اُن کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا ئی جا سکے۔کسی بھی معاشرے کے افراد کی ذہنی اور جسمانی تندرستی میں کھیل کود اور جسمانی ورزش کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں پوری قوم کو کھیل کود کی سہولیات مل رہی ہیں یا پھر انہيں صرف ٹی وی موبائل پر میچ دکھا کر اپنے اشتہارات اور مصنوعات کا کاروبار کیا جارہا ہے؟
جس طرح کرکٹ میں کارکردگی کے حساب سے ٹیموں کی درجہ بندی کی جاتی ہے، اِسی طرح دنیا میں مختلف ادارے، بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی، صحت، تعلیم، سائنس ، ٹیکنالوجی، امن و امان، معاشی خوشحالی وغیرہ سے متعلق اقوامِ عالم کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں اہم ترین اعشاریہ اقوام متحدہ کی طرف سے ہرسال جاری کردہ ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس ہےجس میں عوام کی صحت، تعلیم، فی کس آمدنی، قوتِ خرید اور معیارِزندگی جیسے عوامل کی بنیادپر درجہ بندی کی جاتی ہے۔2021ء کی مرتب کردہ درجہ بندی کے مطابق اِس انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 154 واں ہے۔انتہائی شرم کا مقام یہ ہے کہ افریقہ کے پس ماندہ ممالک کینیا، گھانا، مراکش، اور خانہ جنگی سے تباہ شدہ عراق اور فلسطین جیسے ممالک بھی انسانی معیارِ زندگی کے حوالے سے ہم سے بہتر پوزیشن رکھتے ہیں۔
تصور کریں کہ اگر ہم کرکٹ میں نیپال اور ہانگ کانگ جیسی ٹیموں سے ہارنے لگیں تو ہم کتنی مایوس اور غصے کا شکار ہوں گے۔لیکن انسانی معیارِزندگی کے حوالے سے دنیا میں سب سے پیچھے ہونے کے باوجود ہم مطمئن اور شاداں ہیں۔ شاید ہم نے اپنے آپ کو سمجھا لیا ہے کہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور آگے بھی ایسے ہی چلے گا۔ دوسری طرف ہمارےرجعت پسند مذہبی طبقے نےاِس ذلت اور رسوائی کو قسمت کا کھیل قرار دے رکھا ہے جس کا انعام ہمیں آخرت میں ملے گا۔ مایوسی اور بے عملی کی اِس سوچ کے بعدانسان میں اپنے حالات کی بہتری کے لیے جدوجہد کی طاقت کہاں باقی رہتی ہے!
وطن سے محبت کا ایک اور اظہار ہر سال اگست کے مہینے میں نظر آتا ہے جب چاروں طرف قومی ، جھنڈیاں اور لاؤڈ سپیکر پر ملی نغموں کو اونچی آواز میں لگا کر اپنی حب الوطنی ثابت کی جاتی ہے۔ نوجوان سروں پر قومی پرچم باندھ کر، ہاتھوں میں باجے تھام کراور موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اِنہی نوجوانوں کو اگر کسی سنجیدہ مجلس میں قومی تاریخ سے متعلق مذاکرے یا مطالعاتی نشست میں بلایا جائے تو90 فی صداپنی کسی مصروفیت کا بہانہ بنا کر انکار کردیں گے۔ ہمارے تعلیمی نظام نے نوجوان کی ذہنی سطح اتنی پست کردی ہے کہ وہ کسی تعمیری عمل کا حصہ بننے کے بجائے محض شور شرابے اور تفریح میں اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع کرنا چاہتا ہے۔
آج پاکستانی نوجوان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اِس سوال پر غور و فکر اور اجتماعی مکالمے کا آغاز کرے کہ ہمارے قومی زوال کی کیا وجوہات ہیں؟انتہائی باصلاحیت افرادی قوت، ہر طرح کے موسم، زرخیز زمین، معدنیات اور دیگر وسائل کی کثرت کے باوجود ہم کیوں معاشی بحرانوں کاشکار ہیں؟ کیوں ہمارے 60 فی صد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں، کیوں ہماری 80 فی صد آبادی مضرِ صحت پانی پینے پر مجبور ہے، کیوں ایک زرعی خطہ ہونے کے باوجود ہمارے عوام کی اکثریت معیاری غذا سے محروم ہے، کیوں ایک طرف دولت کے انبار لگ رہے ہیں اور دوسری طرف ہزاروں انسان خوراک اور دوا نہ ملنے سے مر رہے ہیں یا پھر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں؟ کیوں ہم اپنے آبی وسائل کو مناسب ذریعے سے استعمال نہیں کرپارہے، کیوں ہر دومنٹ بعد ایک نومولود بچہ (اڑھائی لاکھ بچے سالانہ) طبی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے جینے کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ کیوں ہر دس منٹ بعد ایک ماں اپنے بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کے منہ میں جارہی ہے، کیوں ہمار ا اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان بہتر مستقبل کے لیے اپنے ملک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیےچھوڑ جانا چاہتا ہے، چاہے اِس کے لیے اُسے اپنا خاندان اور تہذیب و تمدن بھی چھوڑنا پڑے، کیوں ہم اپنے ملک سے زیادہ پردیس میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، کیوں ہمارے ملک میں صحت، تعلیم، امن وامان اور انصاف جیسے بنیادی انسانی حقوق انتہائی منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کرچکے ہیں جن سے صرف اہل دولت ہی فائد اٹھا سکتے ہیں؟ کیوں یہ ملک ایک محدود اقلیت کےلیے جنت اور باقی اکثریت کے لیے جہنم بنتا جارہا ہے؟کیا اِس کی وجہ وسائل کی کمی ہے یا پھر قیادت کے ویژن، اخلاص، صلاحیت اور ترجیحات کی کمی اس کی وجہ ہے؟ کیا اس کی وجہ بائیس کروڑ عوام ہیں یا پھر پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ پر مبنی ہمارے ریاستی نظام کی نااہلی ہے؟
یہ بات بھی قابل غور ہےکہ کرکٹ میچ اور گانے بجانے پر گھنٹوں اپنا وقت خرچ کرنے کے بعد ہم مکالمے اور مطالعے کے لیے چند لمحے نکالنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میچ میں فتح کے لیے صرف دعائیں اور وقتی جوش درکار ہے جب کہ قومی حالات بدلنے کےلیے علم و ہنر، قربانی اور استقامت بھی درکار ہے۔کرکٹ میچ پر جس طرح پوری قوم متحد ہوتی ہے، اگر اِسی طرح ہمارا نوجوان اپنے حالات بدلنے کے لیے متفق اور متحد ہوجائے تو دنیا کی کونسی طاقت اُس کا راستہ روک سکتی ہے؟ جس طرح ہم کرکٹ میں اپنی ٹیم کو نمبر ون دیکھنا چاہتے ہیں اسی طرح کیوں نہ ہم زندگی کے دیگر مقابلوں میں بھی اپنے وطن کو وِکٹری سٹینڈ پر دیکھنے کا تخیل اور سوچ پیدا کریں۔خود بھی مایوسی، انفرادیت اور خود غرضی کی سوچ سے نکلیں اور دوسروں کی بھی مدد کریں۔
اسی طرح ہمارے معاشرے میں حُب الوطنی کا لازمی مطلب دوسری اقوام سے نفرت کرناسمجھ لیا گیا ہے۔ ہم اپنی تعمیر پر اتنی محنت نہیں کرتے جتنا ہم دوسروں کی تباہی و بربادی کے شوق میں مبتلا ہیں۔ حُب الوطنی کے نام پر یہ منفی رويے ہمارے مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں جن سے چھٹکارا پانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا دین جس طرح ہمیں اپنے خاندان، محلے ، شہر اور ملک سے محبت سکھاتا ہے اسی طرح وہ پوری انسانیت کو خدا کا خاندان قرار دے کر ہمیں رنگ،نسل، مذہب، علاقے سے بالاتر ہو کر انسانی مساوات، ظلم سے نفرت، ہمدردی اور محبت سکھاتا ہے۔ اِس ضمن میں مولانا عبید اللہ سندھی کا قول” فرد وہ اچھا ہے جو اپنی قوم کے لیے فائدہ مند ہے اور قوم وہ اچھی ہے جو پوری انسانیت کے لیے فائدہ مند ہے۔“ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ نفرتوں کے اِس ماحول میں یہ فکر پوری انسانیت کو ایک لڑی میں پرونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امید کی جاسکتی ہے کہ اگر پاکستان کے نوجوان حُب الوطنی کے حقیقی تقاضوں کو سمجھ کر اُن کے مطابق عملی جدوجہد کریں تو پاکستان نہ صرف کھیلوں کے میدان میں تسلسل سے کامیابی حاصل کرے گا بلکہ انسانی زندگی کے دوسروں شعبوں میں بھی ہمارا وطن” چمپئن“ اور دوسرے ممالک کے لیے باعثِ تقلید بنے گا۔