حب الوطنی اور اس کے تقاضے
وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے
حب الوطنی اور اس کے تقاضے
تحریر: محمد حنیف، بالا کوٹ
وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ سچی اور حقیقی محبت وہ ہے جو شعوری بنیادیں رکھتی ہو۔ آزاد قومیں ایسے موقعوں پر خاص کر ان راہنماوں کو یاد کرتی ہیں جن کی کاوشوں اور قربانیوں کے مرہون منت یہ آزادی حاصل ہوتی ہے۔ اور عام طور پر وہ قومیں اپنے راہنماوں کی زندگیوں کے سنہری اصولوں اور یادوں سے اپنی نئی نسل کو روشناس کرواتی ہیں تاکہ ان کے دل ودما غ میں بھی اسی طرح کا جذبہ اور ہمت پیدا ہو۔ اور وہ ایک آزاد خومختار اور باوقار قوم کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ آزاد قومیں اور معاشرے ہی کسی غلام کے حق میں آواز اٹھا سکتے ہیں اس کے برعکس جن کی اپنی آزادی مشکوک ہو وہ دوسروں کی غلامی کے خلاف کیا کردار ادا کر سکیں گے۔ اس بات کا شعور اور ادراک حاصل کرنا از بس ضروری ہے۔
14اگست 1947 غیر منقسم ہندوستان کی غلامی کا آخری دن تھا۔ 15 اگست کو برطانیہ نے ہندوستان کی آزادی کا باضابطہ اعلان کر دیا۔اگست کا مہینہ آزادی کے لیے لڑنے والے راہنماوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے۔ خاص کر ان مسلمان راہنماوں کو جنھوں نے 1804 میں فتوی دارلحرب دے کر برطانوی سامراج کے خلاف دنیا میں پہلی باقاعدہ بغاوت کا آغاز کیا۔ اور پھر یہ آزادی کےلیے لڑی جانے والی جنگ جیت لی گئی اور انگریز کو ہندوستان سے جانا پڑا۔ ہندوستان کی آزادی کا یہ نتیجہ نکلا کہ برطانیہ عظمیٰ کو پوری دنیا میں اپنی کالونیوں کو آزاد کرنا پڑا۔
ہمارے نوجوان کی بدقسمتی ہے کہ اسے اس ملک کے نوآبادیاتی دور کے نظام تعلیم نے آزادی کی صحیح تاریخ کے علم سے دور رکھا۔ اور وہ ان تمام حقیقی راہنماوں سے ناواقف ہے جنھوں نے وطن کی آزادی کےلیے جنگ لڑی۔ اس نظام تعلیم نے جن تحریکوں اور راہنماوں کا تعارف کروایا وہ زیادہ تر سامراجی مفادات کے لیے کا م کرتے رہے اور ان کے ہی پروردہ رہے ہیں۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ تاریخ کے مطالعے سے جو عقل پیدا ہونی چاہیے تھی وہ تعلیم یافتہ نوجوان اس عقل و فہم سے تاحال محروم ہیں۔ جو فرسودہ من گھڑت مختصر دور کا تعارف کروایا گیا اس تاریخ کے مطالعے سے شخصی اور جادوئی قسم کے کردار متعارف کروائے گے۔ جن کو عملی زندگی میں عام آدمی کےلیے یقین کرنااور اپنانا مشکل تھا۔ جیسا کہ اب بھی مطالعہ پاکستان پڑھنے والے طالب علموں کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان اس دن بن گیا تھا جب پہلے مسلمان نے برصغیر میں قدم رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسی دن بن گیا تھا تو ہماری جدوجہد کس کھاتے میں گئی۔ پھر کہتے ہیں دو قومی نظریہ مجدد الف ثانی ؒ نے پیش کیا کچھ کے بقول سر سید نے پیش کیا اور کچھ کے ہاں یہ شاہ ولی اللہؒ نے دیا اور کچھ کے ہاں علامہ اقبال نے۔ یوں ایک طالب علم کے ذہن میں کنفیوژن کے علاوہ کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ اور زیادہ تر ہوائی ذہن پیدا کرتے ہیں جس کو زمینی حقائق کی طرف لانا ایک انتہائی جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔
ہمارے نوجوان کو چاہیے کہ وہ کم ازکم اپنے اجتماعی زوال کی تاریخ کا مطالعہ ضرور کرے۔ اور خاص کر اپنے خطے کی تاریخ کا کہ کیسے ہندوستان انگریز کی غلامی میں گیا اور کن لوگوں نے اس کی آزادی کےلیے جدوجہد کی۔ جس کے مطالعے کے لیے اس نوجوان کے اندر حوصلہ ،اعتماد اور اپنی آزادی کا شوق پیدا ہوگا۔ ماضی کے مطالعے سے ہی عقل پیدا ہوتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ کیسے ہم عروج سے زوال کی طرف گئے اور کیسے زوال سے نکلنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ۔ اور کیسے ہم آج اپنے ملک اور قوم کو اس ظالمانہ نظام سے آزادی دلا سکتے ہیں۔
اس خطے کی تاریخ کا اگر چند ایک واقعات کے تسلسل کےساتھ اجتماعی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو کافی سوچ بچار کا سامان مل سکتا ہے۔ ہمیں 1757 کی جنگ پلاسی اور اس کے اسباب و محرکات اور نتائج پر غورکرنا چاہیے۔ پھر 1799 سلطان ٹیپو کی ریاست میسور کی جنگ اور اس کے پس منظر پر سوچنا چاہیے۔ اور 1804 کے فتوی دارالحرب اور اس کے نتیجے میں 1831 کی جنگ بالاکوٹ اور ان شہداء کا تذکرہ کہ انھوں نے کیسے سامراجی غلامی کےخلاف لڑتے ہوئے شہادت کے درجات حاصل کیے۔ اور پھر 1857 کی جنگ آزادی کے حالات وواقعات زیر مطالعہ رہنے چاہئیں کہ کیسے اس خطے کے باسیوں نے اپنی قومی آزادی کےلیے جانیں قربان کیں۔ اور پھر 1866 کو جنگ آزادی کےلیے کیا حکمت عملی ترتیب دی۔ اس کے بعد تحریک ریشمی رومال کیسے اور کن لوگوں نے چلا کر انگریز حکومت کو حواس باختہ کیا۔ اور ایسے ہی بدلتے ہوئے حالات کے تحت حکمت عملی تبدیل کر کے ان مسلمان راہنماوں نے خطے کے تمام آزادی پسند قوتوں کو اکٹھا کر کے بالآخر انگریز سامراج کو اس خطے سے چلتا کیا۔
ہمارا نوجوان جب ان ادوار کا مطالعہ غور فکر کیساتھ کرے گا تو اس کی باشعور آنکھ تمام مصنوعی کرداروں کا پردہ چاک کرے گی ۔ اور اسکے علم میں وہ تمام حقائق آئیں گے کہ کیسے سامراجی قوتیں اپنے آلہ کار پیدا کر کے حقیقی راہنماوں کو گم نام اور بدنام کرتی ہیں۔ اس سامراجی چال کو آج کے دورمیں سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
حب الوطنی کا تقاضا بنتا ہے کہ ان وجوہات اور اسباب پر غور کیا جائے کہ ہم آج ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آزادی کے ثمرات سے محروم کیوں ہیں۔ کیوں آج بھی سامراجی غلامی کا نظام ہم پر مسلط ہے۔ ہم اپنی قومی ضرورتوں کے مطابق اپنا نظام کیو ں نہیں بنا سکے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے ساتھ اور ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک ہم سے آگے کیوں ہیں۔ اور غورطلب بات یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی یہ ادراک کیا کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ ہمارا وقار اتنا تباہ کیوں ہوا۔ ہم اتنے مقروض کیوں ہوئے۔ کیا آج بھی ہم اس نظام سے نجات حاصل کرنے کیلیے تیار ہیں یا نہیں ۔یقیناً
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
وطن سے محبت کا تقاضا بنتا ہے کہ ہم نوآبادیاتی دور کے غلامی کے نظام کی تبدیلی کا شعور پیدا کریں۔ اس فرسودہ لوٹ کھسوٹ کے نظام سے آزادی حاصل کریں 14 اگست کا دن ہم سے اس بات کا حقیقی متقاضی ہے۔