کھوٹے سکے
کھوٹے اور کھرے کی پہچان ایک مشکل کام ہے۔ جو اس پہچان کو حاصل کرلیتا ہے تو وہ فائدے میں رہتا ہے بصورت دیگر نقصان ہی نقصان ہے۔
کھوٹے سکے
تحریر: وسیم اعجاز، کراچی
ناجانے کیوں آج صبح سے بابا بلھے شاہ کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
چڑھدے سورج ڈھلدے ویکھے،
بجھے دیوے بلدے ویکھے
ہیرے دا کوئی مُل نہ تارے،
"کھوٹے سکے" چلدے ویکھے
جب سونے اور چاندی کے سکے رائج ہوئے تو ان میں کم قیمت دھاتوں کو ملا کر سکے بنائے جانے لگے۔ اس کم قیمت دھات کی خالص چاندی یا سونے میں ملاوٹ کو کھوٹ کا نام دیا گیا۔اس ملاوٹ اور کھوٹ کی مناسبت سے سکے کو کھوٹاسکہ کہا جاتا ہے۔
کم قیمت دھات اس قیمتی سونے کی وقعت کو کم کرتی ہے۔زیورات کی تیاری میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا جائے تو اس کو کھوٹ والا زیور کہا جاتا ہے۔
کھوٹے اور کھرے کی پہچان ایک مشکل کام ہے۔ جو اس پہچان کو حاصل کرلیتا ہے تو وہ فائدے میں رہتا ہے بصورت دیگر نقصان ہی نقصان ہے۔ کھوٹے سکوں سے خریدی گئی چیزوں کا معیار بھی کھوٹا ہی ہوتا ہے۔ ایسے خریدار کا کیا بھروسہ جو اپنی جیب میں کھوٹے سکے لے کرخریداری کرنے بازار نکل جائے اور معیاری اشیاء کا طلب گار ہو۔
یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے۔ لوگوں میں بھی انسان کھوٹے اور کھرے ہوتے ہیں۔ جس معاشرے کو کھرے اور ہیرے جیسے لوگ مل جائیں وہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ اگر لوگ کھوٹے ہوں تو وہ اس سماج کو گراوٹ سے کون بچائے؟
یہ تو حال ہے عام لوگوں کا لیکن اگر کسی قوم کے لیڈر ہی کھوٹے ہوں تو اس قوم کی پہچان دیگر اقوام میں کیا ہوگی؟ اگر اس کا جواب تلاش کرنے نکلیں تو زیادہ دور جانے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ قوم کے لیڈر نے آغاز ہی میں کہہ دیا تھا کہ یہ سب کھوٹے سکے ہیں۔
یہ کھوٹے سکے ہمیں اپنے ایوانوں اور اداروں میں تھوک کے حساب سے مل جائیں گے۔ پون صدی کے سفر میں ہر مرحلے میں وہی لوگ اس قوم کو میسر آئے ہیں۔
دل میں ساراکھوٹ ہی کھوٹ
تن پہ لبادہ اور کوئی
دیکھنے میں تو قوم کے سکے نظر آتے ہیں لیکن سامراج اور سرمایہ داریت کا کھوٹ ان میں موجود یے۔ رہتے یہاں ہیں لیکن دل برطانیہ امریکہ میں دھڑکتا ہے۔ خود بھی کھوٹے،سوچ بھی کھوٹی اور دل میں بھی کھوٹ۔ سوال یہ ہے کہ ان کھوٹے سکوں کی پہچان کیسے ہو؟ تو اس کے بارے میں کوئی جوہری ہی بتا سکتا ہے۔ جن کے پاس شعور کا جوہر ہو وہی کھوٹے کو کھرے سے الگ کرسکتے ہیں۔
تول لیتے ہیں یہ نظروں میں کھرے کھوٹے کو
خوب گھٹ بڑھ کے "جوہری" کو حساب آتے ہیں
پاکستانی قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ اس نے کھروں کو کھو دیا اور کھوٹے اس پر مسلط ہوگئے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اسلام کے نام پر بننے والے وطن عزیز میں قرآن جس کا ایک نام الفرقان(کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے والی کتاب) بھی ہے، کے دیے گئے اصولوں پر قومی نظام تشکیل دیا جاتا۔ لیکن کھوٹ کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔
خالص سونے سے کھوٹ کو الگ کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ سونے کو 1064 ڈگری سینٹی گریڈ کے ٹمپریچر پر پگھلایا جائے۔ یہ انتہائی مشکل کام ہے (سماجی نسبت سے اسے قیامت کے مترادف کہا جاسکتا ہے).اس لیے کھوٹ کو الگ کرنے کے لیے سونے میں سہاگہ ڈالا جاتا ہے۔ اس قوم کے کھوٹے سکوں کے لیے بھی کسی سہاگے(باشعور اجتماعیت کے قیام) کی اشد ضرورت ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے ایک کسان زمیں تیار کرتا ہے اور پھر اس پر سہاگہ چلا کر نئی فصل کے لیے زمین تیار کرلیتا ہے۔
افسوس کہ ہم نے اپنے ہیرے جیسے لوگوں (مکمل آزادی کے متوالوں) کو کھو دیا اور کھوٹے سکے استعمال کرنے کی پاداش میں سزا بھگت رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں کھوٹے اور کھرے کی پہچان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین