مذہب کا سیاسی استعمال اور متوازن دینی فکر کی ضرورت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مذہب کا سیاسی استعمال اور متوازن دینی فکر کی ضرورت

    ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسے فاسد مذہبی کردار کے ردِ عمل میں سیاست میں دینی تصورات کی بنیاد پر قومی و سیاسی کردار کی نفی کرتا ہے۔

    By محمد عباس شاد Published on Oct 13, 2019 Views 1557
    مذہب کا سیاسی استعمال اور متوازن دینی فکر کی ضرورت
    تحریر: محمدعباس شاد، لاہور 

    گزشتہ دنوں ہمارے قومی پریس میں مذہب کے سیاسی استعمال پر کافی بحث رہی ہے۔ اس کا پسِ منظر ہمارے ملک کی بعض مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے موجودہ سیاسی حالات میں حکمران جماعت کے خلاف کسی مذہبی کارڈ کے استعمال کی کوشش ہے۔ اس پر پوری قوم کو اُکسانے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کو باربار ساتھ ملانے کی تگ ودو ہے۔ جس میں فی الحال انھیں کامیابی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس ضمن میں اس مباحثے نے جنم لیا کہ آیا دین اس کی اجازت دیتا ہے کہ کسی سیاسی مخالف کو نقصان پہنچانے یا کسی سماجی معاملے میں مطلقاً کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنے یا سودے بازی میں اپنا پلڑا بھاری رکھنے کے لیے مذہب کو بہ طورِ ٹول (ہتھیار) استعمال کیا جا سکتا ہے؟ 
    اس حوالے سے دو بنیادی باتیں پیشِ نظر رکھنا انتہائی اہم ہیں: پہلی اصولی بات یہ ہے کہ اسلام قطعاً کسی بھی مسلمان کو اپنے مخالف، خواہ وہ عقیدے ہی کا مخالف یعنی کوئی غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، اس کے ساتھ نا انصافی، بے اصولی، جھوٹ، دغا، فریب، بہتان اور ظلم کی اجازت نہیں دیتا۔ اس حوالے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مسلمانوں کے لیے اس آیت میں واضح ضابطہ دے دیا ہے: ”اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوجاؤ ، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو۔ انصاف کرو! یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے۔“ (8:5) 
    دوسری بات یہ ہے کہ اسلام اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اس خیر وشر کی جنگ میں تاریخ میں ایسے فاسد مذہبی کردار ضرور رہے ہیں، جو اللہ کے مقدس دین کو اپنے ذاتی اغراض، مالی فائدے، حق سے روکنے اور اقتدار و حکمرانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور ان فوائد کو دوام اور ہمیشگی بخشنے کے لیے سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیلتے رہے ہیں۔ چنانچہ قرآن حکیم اس کردار کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: ”اے ایمان والو! بہت سے عالِم اور فقیر‘ لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیے۔“ (34:9) 
    ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسے فاسد مذہبی کردار کے ردِ عمل میں سیاست میں دینی تصورات کی بنیاد پر قومی و سیاسی کردار کی نفی کرتا ہے۔ اس نے دین و سیاست کو بالکل جدا جدا سمجھ کر سیاست کے لیے دین کے حوالے کو شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا۔ دوسری طرف مذہبی شناخت کا حامل طبقہ مذکورہ بالا فاسد مذہبی کردار کے دفاع میں سرگرم ہے۔ یوں دینی سیاست اور لادینی سیاست کے خود ساختہ معیارات قائم کرلیے گئے ہیں۔ دونوں طبقے اپنے اپنے مفادات کے لیے اپنے اپنے گروہوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ حال آنکہ بہ وقت ِضرورت یہ دونوں طبقے اکٹھے ہوکر نظام کو بچانے کا فریضہ سرانجام دیتے اور اس کی بقا کا ذریعہ بھی بنتے رہے ہیں۔ 
    جو طبقہ سیاست میں دین کے حوالے کو شجرِ ممنوعہ سمجھتا ہے، ان کے فکری پسِ منظر میں یورپ کی وہ تاریخ ہے، جس میں وہ چرچ اور بادشاہ کو اتحادی دیکھتے ہیں۔ اسی اصول کے تحت وہ کہیں بھی سیاست کے ساتھ مذہب کے حوالے کو برداشت نہیں کرتے۔ حال آنکہ اسلام کے حوالے سے تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ بہ حیثیت ِمجموعی مذہب اور اہلِ مذہب نے ریاست یا بادشاہ کے ظلم کو کبھی سند ِجواز فراہم کی ہو۔ اس کے برعکس اس نے پیہم اپنی مزاحمت کے کردار کو زندہ رکھا ہے۔ ایسے میں ہمیں بنیادی طور پر صالح دینی فکر اور فاسد مذہبی تصورات میں فرق کرنا چاہیے۔ کسی بھی ایسے معاشرے میں جہاں اسلام جیسے مذہب کو اکثریتی حیثیت حاصل ہو، وہاں کسی لادینی ضابطے کا مطالبہ کرنا اکثریت کے جذبات کو فنا کرنے کے مترادف ہے۔ یہ آج کے دور میں جمہوری اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ ایک خطے میں جہاں دین اسلام کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، وہ اگر اپنے معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں، ظلم، استحصال، پس ماندگی، غربت، جہالت، ناخواندگی اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اپنے دینی نظریات کی بنیاد پر جدوجہد نہیں کرتے تو وہ مداہنت (دینی کمزوری) کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ 
    چونکہ پاکستان میں مذہبی قوتوں کا ماضی اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر خاصا معروف ہے، جس کے سبب سیاسی جدوجہد میں دینی حوالہ بعض حلقوں کو کھٹکتا ہے اور اس میں یقینا مذہبی قوتیں ذمہ دار ہیں۔ انھیں اپنے اوپر سے اس الزام کو دھونا چاہیے۔ جس دور میں اسٹیبلشمنٹ ”جہاد“ کا سٹیج تیار کررہی تھی، ہماری مذہبی قوتوں کو آگے بڑھ کر کلمہ حق کہنا چاہیے تھا، لیکن وہ اس وقت اپنا حصہ طے کرکے ساتھ شامل ہوگئیں۔ اس کے بعد کرپٹ طبقے کے خلاف بولنے کا موقع آیا تو یہ احقاقِ حق کے بجائے کرپٹ طبقے کے دفاع میں سینہ سپر ہوگئیں۔ کسی بھی نظریے کے حوالے سے اہم ترین چیز اس کے نتائج کی شکل میں اس نظریے کے حامل افراد کے ذہن اور مزاج کا ایک خاص سانچے میں ڈھل جانا ہوتا ہے۔ یہی جماعتی سانچہ بعد میں قومی ذہن کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس خطے میں حقیقی دینی اصولوں پر کاربند سیاست کی داعی امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے لے کر مولانا عبیداللہ سندھیؒ تک ایک پوری اجتماعیت رہی ہے۔ اس نے فکر و خیال کا ایک خاص ذوق پروان چڑھایا، جو اس خطے کی قومی سیاست میں انسانی اقدار، عدلِ اجتماعی اور حریت و آزادی کا ترجمان رہاہے۔ وہ جدوجہد اور قربانیوں کی ایک قابلِ فخرتاریخ بھی رکھتا ہے۔ 
    اب دیکھنا یہ ہے کہ قیامِ پاکستان اور اس کے بعد کے دور میں مذہب کے پلیٹ فارم سے جن قوتوں کو منظم کرکے جو مذہبی سیاسی فکر تشکیل دیاگیا اور پھر اسے میدان میں اتارا گیا، اس نے اپنے لیے سرگرم جماعتوں کے افراد کا جو ایک خاص فکری سانچہ تیار کیا، اس کے ہمارے قومی فکر پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ یہ وہ باریک فرق اور حد ِفاصل ہے، جو حقیقی دینی سیاست اور آلہ کار مذہبی سیاست کے فرق کو واضح کرتی ہے۔ یہی تناظر صالح دینی فکر اور آلہ کار مذہبی تصورات کے مفہوم کو آشکارا کرتاہے۔ آج پاکستان میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک متوازن دینی فکر کے ذریعے اپنے دینی طبقوں کے مزاج کو واپس اسلام کے اصل مزاج پر لوٹانے میں کامیاب ہوجائیں۔ یوں دینی اور بے دینی کے خود ساختہ معیارات ختم ہوجائیں گے اور ہم صالح دینی فکر کی بنیاد پر اپنے قومی جمہوری تقاضے پورے کرکے آج کے قومی سوال کا جواب تلاش کرسکیں گے۔
    Share via Whatsapp